• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شخصیات غلطیاں کرسکتی ہیں لیکن ملک نہیں کیونکہ ملکوں کے غلط فیصلے اس کو کئی دہائیوں پیچھے دھکیل دیتے ہیں جس کے وہ متحمل نہیں ہوسکتے۔ پاکستان میں بھی آزادی کے بعد دو فیصلے ایسے کئے گئے جس نے ملک میں صنعتکاری اور سرمایہ کاری کے عمل کو بے انتہا نقصان پہنچایا۔ ان فیصلوں سے بزنس کمیونٹی کا اعتماد کم ہوگیا اور بزنس مینوں نے اپنا سرمایہ حفاظتی طور پر ملک سے باہر رکھنے کی روایت ڈالی۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ حکومت کا کام بزنس کرنا نہیں بلکہ بزنس کیلئے سازگار فضا اور اچھی پالیسیاں بنانا ہے جبکہ نجی شعبے کا کام کامیابی سے اپنی صنعتوں کو چلاکر منافع کمانا، ملازمتیں پیدا کرنا، ایکسپورٹ کے ذریعے ملک کیلئے زرمبادلہ کمانا اور حکومت کو جائز ٹیکسز اور ریونیو ادا کرنا ہے۔ جائز منافع کمانا کوئی جرم نہیں ،بزنس میں ترقی کرکے امیر ہونا کامیابی کا مظہر ہے جبکہ ہمارے ملک میں منافع کمانے اور امیر ہونے کو جرم تصور کیا جاتا ہے۔ ہمیں اپنا یہ مائنڈ سیٹ بدلنا ہوگا تاکہ ہم اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکیں نہ کہ اپنا سرمایہ ملک میں غیر محفوظ سمجھ کر بیرون ملک منتقل کردیں۔

پہلا غلط فیصلہ یکم جنوری 1972ء کو ذوالفقار علی بھٹو کی نیشنلائزیشن یعنی صنعتوں اور نجی اداروں کو قومیانے کا تھا جس کے تحت حکومت نے پاکستان کے 22امیر ترین خاندانوں کی تمام شپنگ، پیٹرولیم، انشورنس کمپنیوں اور تعلیمی اداروں کو اپنی تحویل میں لے کر قومیالیا اور حکومت ان اداروں کی مالک بن گئی۔ یکم جنوری 1974ء کو 13 پاکستانی بینک بھی قومیالئے گئے جبکہ 1976ء میں کاٹن جننگ فیکٹریوں اور فلور ملز جیسی چھوٹی صنعتوں کا کنٹرول بھی حکومت نے حاصل کرلیا مگر 1988ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بینظیر بھٹو نے اداروں کو قومیائے جانے کی پالیسی بدل کر نجکاری پالیسی کا اعلان کیا جسے بعد میں نواز شریف حکومت نے بھی جاری رکھا لیکن قومیائے گئے اداروں کی نجکاری کے عمل میں بہت تاخیر ہوچکی تھی جس سے ملک میں نئی سرمایہ کاری اور صنعتکاری کوشدید نقصان پہنچا جبکہ حبیب بینک، یونائیٹڈ بینک، ایم سی بی اور الائیڈ بینک سمیت مختلف بینکوں کے قومیائے جانے کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا اور ہر حکومت نے اپنے لوگوں کو سیاسی قرضے دیئے جس سے یہ بینکس نادہندگی کی حد چھونے لگے اور انہیں چلانے کیلئے حکومت کو اربوں روپے قومی خزانے سے دینا پڑتے تھے مگر نجکاری کے بعد یہ بینک آج اربوں روپے منافع کمارہے ہیں اور نجی شعبے میں ہونے کی وجہ سے سیاسی قرضے تقریباً ختم ہوگئےہیں۔

دوسرا غلط فیصلہ غیر ملکی کرنسی اکائونٹس کو منجمد کرنا تھا جو نواز شریف حکومت نے 28مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکے کے بعد اس وقت کے وزیر خزانہ سرتاج عزیز کے مشورے پر کیا اور پاکستانیوں کو اپنے فارن کرنسی اکائونٹس میں موجود غیر ملکی کرنسی کو طویل المیعاد مدت بانڈز یا پاکستانی روپے میں تبدیل کرنے کی اجازت دی گئی جس سے پاکستانیوں کا حکومت پر اعتماد ختم ہوگیا اور وہ اپنے پیسے بیرون ملک رکھنے یا سرمایہ کاری کرنے کو ترجیح دینے لگے۔ اس کے علاوہ ملک میں دہشت گردی، امن و امان کی ناقص صورتحال اور گزشتہ کئی عشروں سے کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اغوااور اغوا برائے تاوان جیسے جرائم کے باعث بے شمار بزنس مین اپنے سرمائے سمیت بیرون ملک منتقل ہوگئے اور وہاں رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کی۔ آج اخبارات میں دبئی اور لندن میں موجود پاکستانیوں کے جن اثاثوں کی فہرستیں شائع ہورہی ہیں، یہ انہی پاکستانی بزنس مینوں کے ہیں جنہوں نے ملک میں امن و امان کی ناقص صورتحال سے دلبرداشتہ ہوکر بیرون ملک سرمایہ کاری کی۔ ان میں سے کچھ بزنس مین ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کے بعد وطن واپس آگئے لیکن ان کی جائیدادیں اب بھی بیرون ملک موجود ہیں۔ یاد رہے کہ اسٹیٹ بینک قوانین کے مطابق بیرون ملک سرمایہ کاری کیلئے فارن کرنسی اکائونٹس سے فنڈز بیرون ملک منتقل کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک سے اجازت لینا لازمی تھی لیکن نواز شریف حکومت نے 18 اگست 1992ء میں پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992ء کے تحت بیرونی کرنسی اکائونٹس سے بیرون ملک رقم منتقلی کی تمام پابندیاں ختم کردی تھیں۔ نئے قانون کے تحت ہر پاکستانی کو فارن کرنسی اکائونٹ میں غیر ملکی کرنسیاں رکھنے اور بیرون ملک منتقل کرنے کی اجازت دے دی گئی جس سے ناجائز فائدہ اٹھایا گیا۔ لوگوں نے ایکسچینج کمپنیوں سے ڈالر خرید کر اپنے فارن کرنسی اکائونٹس میں جمع کراکر اربوں ڈالر بیرون ملک منتقل کئے لیکن FATF کے اعتراض پر رواں مالی سال کے بجٹ میں یہ سہولت ختم کردی گئی اور اب فارن کرنسی اکائونٹ سے رقوم کی منتقلی ممکن نہیں اور اسٹیٹ بینک سے مخصوص مقصد کیلئے اجازت لینا ضروری ہے۔

یہ سب باتیں بتانے کا مقصد یہ ہے کہ حکومت کی غلطیوں اور غیر تسلسل پالیسیوں کی بنیاد پر بیرون ملک جائیدادیں حاصل کی گئیں لیکن زیادہ تر بزنس مینوں نے ایف بی آر کو ٹیکس پینلٹی ادا کرکے ان اثاثوں کو حالیہ ایمنسٹی اسکیم کے تحت ظاہر کرکے جائز اور ریگولرائز کرالیا ہے اور اب ان کے بیرون ملک اثاثے اور ان سے حاصل ہونے والی انکم ان کے انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کی جائے گی جو ملک اور بزنس کمیونٹی کیلئے ایک اچھی حکمت عملی ہے۔ جولائی 2018ء کی ایمنسٹی اسکیم کے قانون کے تحت ایف بی آر، ایف آئی اے یا نیب اب ان اثاثوں کے بارے میں تحقیقات نہیں کرسکتے کیونکہ ایمنسٹی قانون کے تحت اب یہ اثاثے قانونی ہوچکے ہیں لیکن سپریم کورٹ کے از خود نوٹس پر ایف آئی اے بزنس مینوں کو نوٹسز جاری کررہی ہے جس سے ان میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے اور وہ گھبراکر اپنے بیرونی اثاثے اونے پونے قیمتوں پر بیچ کر ان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں جس میں انہیں کافی نقصان ہورہا ہے کیونکہ دبئی میں رئیل اسٹیٹ مارکیٹ شدید بحران کا شکار ہے۔ میںعلم میںلانا چاہتاہوں کہ کرپشن کے علاوہ بیرون ملک حاصل کئے گئے اثاثوں جنہیں ایمنسٹی اسکیم میں ظاہر کیا جاچکا ہے، پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نوٹسز اور تحقیقات سے بزنس کمیونٹی کو ہراساں کرنا ملک کے مفاد میں نہیں۔ نیشنلائزیشن اور فارنسی کرنسی اکائونٹ منجمد کرنے کے بعد حکومت کی یہ تیسری غلطی ہوگی جو بزنس کمیونٹی کے اعتماد کو مجروح کرے گی اور اس سے مستقبل میں ملک میں سرمایہ کاری پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین