• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز میں اگرشفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوسکا ہے، اس کی وجہ عوام کے حقیقی نمائندوں پر ان ابن الوقت عناصر کو ترجیح دینا رہا ہے جو حسب ضرورت اسٹیبلشمنٹ کے کام آسکیں۔ دنیاکے تمام ممالک کی خارجہ پالیسی ان کی داخلہ پالیسی کے تابع ہوتی ہے جبکہ ہماری داخلہ پالیسی ہمیشہ خارجہ پالیسی کے تناظر میں مرتب ہوتی رہی اور عوام کے حق حکمرانی کو یرغمال بناکر عوامی خواہشات کو تہہ تیغ کرتے ہوئے خارجی ضرورتوں کے پیش نظر داخلی میدان کو ہموار کیا جاتا رہا۔ نتیجتاً ملک کا حال نظروں کے سامنے ہے۔ یوں تو جمہوری سیاستدانوں کے جہد مسلسل اور شدید عوامی ردعمل کے بعد 1970ء میں عام انتخابات کرائے گئے، اگرچہ وہ منصفانہ قرار پائے لیکن کل300 میں سے 160 نشستیں لینے والی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہ کرکے باور کرایا گیا کہ حسب منشا نتائج اخذ نہ ہونے پر ”نتائج“ کی پروا کئے بغیر کسی بھی حد تک جایا جاسکتا ہے۔ اب پھر انتخابات کے آثار ہویدا ہوچکے ہیں، ایک بے داغ و بے باک کردار کے حامل چیف الیکشن کمشنر کا دعویٰ ہے کہ انتخابات شفاف ہوں گے، خدا کرے کے یہ معجزہ رونما ہوجائے کہ اب آسمان پر مرکوز آنکھیں پتھر، دعا مانگتے ہاتھ نحیف اور زبان خشک ہوچکی ہے۔ پھر برسرزمین حقائق بھی کچھ امید افزا اشارے کررہے ہیں۔ جیسا کہ پچھلے کالم میں اس کا اجمالی تذکرہ کیا گیا تھا کہ روس و اشتراکیت کے خوف سے آزاد ہونے کے بعد امریکہ نے پاکستان کو ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا ہے اور اب وہ بیگار لے رہا ہے۔ اس گناہ بے لذت نے وطن عزیز کو حالت نزع میں پہنچادیا ہے اور یوں ہم مزید تجربات کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اب تو ہمیں کھلانے پلانے اور اپنی مشقت کی خاطر تازہ دم رکھنے والے آئی ایم ایف نے بھی کہہ دیا ہے کہ پاکستان ایک ایسا مریض ہے جسے دنیاکا کوئی بھی ڈاکٹر ٹھیک نہیں کرسکتا، اسے اپنا علاج آپ کرنا ہوگا یعنی مطلب برآوری کے بعد مغرب نے صاف کہہ دیا ہے کہ تمہاری خرابیوں کے ذمہ دار ہم نہیں، تم اپنے ہاتھ آپ لٹ چکے ہو! حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر ہمارے ارباب اختیار کاسہ لیسی کے عوض کاسہ گدائی لینے کے بجائے اپنی دنیا آپ آباد کرتے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ترقی کرنے والے ممالک کی صف میں شامل ہوچکے ہوتے۔ بہرکیف امید کی شمع ہنوز بجھنے نہیں پائی ہے، اگر حقیقت اس تاثر کے مطابق ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جمہوریت ہی کو مرض کا شافی علاج سمجھنے لگی ہے اور عدلیہ تو اس حوالے سے متحرک ہی ہے، تو پھر ہم اپنا علاج آپ کرنے کے چیلنج کو قبول کرسکتے ہیں۔ تعلیم کے فقدان کے باعث شعور، ادراک کی آئیڈیل سطح سے دور ہونے کے باوصف اور جاگیرداری و مافیا گردی کی بنا پر دھاندلی کے مختلف حربے بروئے کار لائے جاسکتے ہیں۔ جن کا سدباب الیکشن کمیشن کی اولین ذمہ داری قرار پائے گا۔
دھاندلی کی معروف اقسام میں پری پول، پوسٹ پول اور دوران پولنگ دھاندلی شامل ہے اور تینوں میں مرکزی کردار اسٹیبلشمنٹ کا ہوتا تھا۔ پری پول دھاندلی یوں کی جاتی ہے کہ انتخابات سے قبل نئی جماعت تخلیق کرلی جاتی یا نئی بوتل میں پرانی شراب بھر دی جاتی یا پھر منظور نظر جماعتوں کا اتحاد بنالیا جاتا اور مخالف جماعت یا جماعتوں سے نشستیں لینے والی شخصیات کو ”توڑ“ لیا جاتا۔ انتخابات کے روز ”فرشتوں“ کو ڈبے بھرنے کا فریضہ سونپ دیا جاتا۔ ان تمام ہتھکنڈوں یاان میں کسی ایک یا بعض کے باوجود اگر مخالف جماعت یا جماعتوں کی مضبوط تنظیمی ساخت اور ان کے کارکنوں و عوام کی بیداری کی بدولت مطلوبہ ٹارگٹ حاصل نہ ہوتا تو پھر پوسٹ پول دھاندلی یعنی راتوں رات نتائج تبدیل کرلئے جاتے، جنہیں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے ”انتخابات چرا لئے گئے“ کہا تھا۔ بسا اوقات ہنگ (معلق) پارلیمنٹ کا اہتمام بھی دھاندلی کی ایک شکل رہی ہے۔
جیسا کہ نظر آرہا ہے کہ انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ”بنیادی“ نہیں فروعی یعنی معاون کا ہوگا، اس خوش گمانی کے تحت کہا جاسکتا ہے کہ انتخابات کی یہ تینوں اقسام شاید ان انتخابات میں متروک نظر آئیں۔حلقہ بندیاں اور ووٹوں کے اندراج میں بے قاعدگی قبل ازیں انتخابات دھاندلی میں شامل ہے۔ ووٹر فہرستوں میں بے ضابطگیوں پر سپریم کورٹ کا فیصلہ شفاف انتخابات کی جانب پہلا قدم ہے، بنابریں دھاندلی کی دیگر اقسام کا چیلنج جو الیکشن کمیشن کو درپیش ہے ان پر بھی عدلیہ اور فوج کے تعاون سے قابو پایا جاسکتا ہے۔ معروضی صورتحال میں دھاندلی کا جو سب سے خوفناک پہلو ہے وہ یہ کہ مسلح جتھے ان انتخابات میں بلٹ کے ذریعے بیلٹ کو یرغمال بناسکتے ہیں، ملک کے حساس صوبوں اور شہروں میں بعض جماعتوں کیلئے انتخابی مہم چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا، اب اگر کسی صوبے یا شہر میں بعض جماعتیں تو آزادانہ طور پر انتخابی مہم چلاتی ہیں اور کچھ اس حوالے سے نشانے پر ہوں تو یہ بھی دھاندلی کی ایک لیکن خطرناک قسم ہے جس میں نہ صرف یہ کہ ایسی جماعتوں اور عوام کے درمیان حد فاصل کھینچ لی جاتی ہے بلکہ ووٹ لینے اور دینے والے دونوں کی جانوں سے کھیلنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا، یہ امر یقینا الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے روبرو ہوگا۔ دھاندلی کی ایک اور قسم جس کی طرف بہت کم نظر جاتی ہے وہ یہ کہ کسی مخصوص جماعت یا جماعتوں کو مخصوص عینک سے دیکھتے ہوئے ان کے بارے میں کسی کو پارسا یا محب وطن اور کسی کو چور یا امریکی ایجنٹ کہہ کر ”ملکی مفاد“ میں ایسی مہم شروع کی جاسکتی ہے کہ دنیا دیکھتی رہ جائے۔ ظاہر ہے کہ دھاندلی کی یہ قسم الیکشن کمیشن سے یوں قابو نہیں آئے گی کہ یہ سب کچھ اظہار رائے کی ”آزادی“ کے نام پر ہو رہا ہوگا۔ ایسی مہم کے پس پردہ اکثر اسٹیبلشمنٹ رہی ہے۔ 2002ء کے انتخابات اس کی ایک مثال ہے جس میں اسامہ کی قد آور تصاویر تلے اجتماعات کو نمایاں کرکے پرویز مشرف کے حلیفوں کیلئے راستہ ہموار کیا گیا (اگرچہ پرویز مشرف دور کے آخری لمحوں میں اکثر گدی نشینوں نے شاطرانہ طور پر یوٹرن لیا)۔ ان انتخابات سے قبل جہاں ق لیگ کو تخلیق کیا گیاتو وہاں ایم ایم اے معرض وجود میں آیا۔ جب17 ویں ترمیم، صدارت، آمرکے غیرآئینی اقدامات کی توثیق کے حوالے سے ان کا کردار آسمان سیاست پر نظر آیا تو لوگوں نے ایم ایم اے کو ملّا، ملٹری الائنس کہنے پر خود کو مجبور پایا، محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف جن کو ان انتخابات سے جبری طور پر علیحدہ کردیا گیا تھا جوکہ دھاندلی کی ہی ایک قسم تھی۔ ان جماعتوں کے ابن الوقت عناصر کو توڑ کر ق لیگ تشکیل دی گئی۔ اے این پی کی قیادت اگرچہ ملک میں موجود اور فعال تھی لیکن نئے منظرنامے میں اس ”کانٹے“ کو کاٹنا ضروری تھا لہٰذا اس کیلئے وہی پرانا آزمودہ مذہب کے مقدس نام کو استعمال میں لانے کا طریقہ اپنایا گیا۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ الیکشن کمیشن کی نگاہیں الیکشن والے روز اس عمل پرمرکوز ہوں گی کہ کوئی دھونس، دولت، دھمکی اور جعلسازی کے ذریعے عوام کے حق رائے دہی پر اثرانداز نہ ہو سکے اور یا بعدازاں نتائج میں سرقہ بالجبر سے بچاجاسکے لیکن بیان کردہ دھاندلی کی اشکالات بھی قابل غور ہیں۔ امید کی جانی چاہئے کہ الیکشن کمیشن حقیقی عوامی مینڈیٹ کے تحفظ کیلئے تمام ذرائع بروئے کار لائے گا اور عدلیہ و فوج کے تعاون سے ملک میں حقیقی جمہوریت رائج ہوسکے گی۔امید کی جانی چاہئے کہ الیکشن کمیشن حقیقی عوامی مینڈیٹ کے تحفظ کیلئے تمام ذرائع بروئے کار لائے گا اور عدلیہ و فوج کے تعاون سے ملک میں حقیقی جمہوریت رائج و راسخ ہوسکے گی کہ جمہوریت ہی اپنے مرض کے آپ علاج کا نسخہ کیمیا اغیار سے گلوخلاصی اور شاہراہ ترقی کا روشن استعارہ ہے، حضرت اقبال نے کہا تھا
تو اے مسافرِ شب خود چراغ بن اپنا
کر اپنی رات کو داغِ جگر سے نورانی
تازہ ترین