• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم میں سے اکثر لوگوں کو گیمز کھیلنا بے حد پسند ہوتا ہے۔ دنیابھر میں گیمز کھیلنے والوں کی تعداد حیران کن طور پر70کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ گیمز کی دنیا میں اکثر لوگ چھوٹی عمر سے ہی آجاتے ہیں۔ ویڈیو گیم کھیلنا، ٹین ایجرز کے لیے فارغ وقت گزارنے اور پرسکون ہونے کے لیے ایک اچھا پلیٹ فارم ہوتا ہے، جسے ’ہابی‘ یا پسندیدہ مشغلہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ تاہم، اب گیمنگ کی دنیا محض ایک ہابی یا مشغلے سے نکل کر ایک باقاعدہ صنعت کی شکل اختیار کرچکی ہے، جہاں کھیل ہی کھیل میں ٹین ایجرز اور نوجوان لاکھوں ڈالر کمارہے ہیں۔

ایلیکس بیلفانز، ڈیوک یونیورسٹی نارتھ کیرولینا کا 18سالہ طالب علم ہے۔ روزانہ اسے لیکچرز یا سیمینارز اٹینڈ کرنے کے علاوہ اسائنمنٹس بھی مکمل کرنا ہوتے ہیں۔ وہ اپنی عمر کے دیگر بچوں کی طرح، روزانہ چند گھنٹے جبکہ ہفتے کے اختتام پر تھوڑا زیادہ وقت ویڈیو گیمز کو دیتا ہے۔ تاہم ایلیکس بیلفانز صرف گیمز کھیلتا ہی نہیں، وہ گیمز بناتا بھی ہے اور جس سےاسے آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ بیلفانز کہتے ہیں کہ ’جیل بریک کی ریلیز کے 10ماہ میں ہی اس سے حاصل ہونے والا منافع 7ہندسوں میں جا پہنچا ہے‘۔ بیلفانز کی ’’پولیس-ڈاکو ایڈونچر گیم‘‘ گزشتہ سال ریلیز ہوئی تھی اور چند ہفتے قبل تک اسے ایک ارب بار کھیلا جاچکا ہے۔ بیلفانز ان چند ہزار ٹین ایجر اور نوجوان ’گیمنگ انٹرپرنیوئرز‘ میں شامل ہے، جو ایک ایسی انڈسٹری میں کم عمری میں ہی لاکھوں ڈالر کمارہے ہیں، جہاں مجموعی آمدنی گزشتہ سال ناقابلِ یقین حد تک 36ارب ڈالر رہی۔ یہ صنعت نوجوانوں کو کمانے اور زندگی گزارنے کے وہ طریقے سکھا رہی ہے، جن کا اندازہ 5پانچ سال پہلے تک شاید روایتی گیم انڈسٹری کو بھی نہیں تھا۔

اینڈیو بیریزا ایک اور 18سالہ طالب علم ہے، جس نے گزشتہ دو سال کے دوران روبلوکس (Roblox) کے لیے دو گیمز Miner’s Havenاور Azure Mines بنائی ہیں۔ روبلوکس ایک ایسا پلیٹ فارم ہے، جس کا ہدف بچے ہیں۔ اس پلیٹ فارم پر بچے اپنی گیمز بناکر آن لائن پبلش کرسکتے ہیں۔ یہ وہی پلیٹ فارم ہے جہاں بیلفانز کی ’جیل بریک‘ کو ریلیز کیا گیا تھا۔ اینڈریو بیریزا کہتا ہے، ’حالانکہ میں اپنے کچھ ساتھیوں کی طرح سالانہ ملین ڈالر کمانے والوں میں شامل نہیں، تاہم میں بہت ہی آرام سے ہر سال 6ہندسوں میں کما لیتا ہوں‘۔ وہ اپنی اس آمدنی کو یونیورسٹی کے اخراجات میں استعمال کرتا ہے، جہاں سے وہ کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل کررہا ہے۔’اگر روبلوکس جیسے پلیٹ فارم نہ ہوتے جہاں ہم اپنی گیمز کو ہوسٹ کرسکتے ہیں، تو مجھے نہیں پتہ کہ میں کالج کی تعلیم کیسے حاصل کرتا اور مجھے گیمز ڈیویلپ کرنے کا موقع کون دیتا‘، اس نے مزید بتایا۔

گیمز ڈیویلپ کرکے فروخت کرنا

آج گیمز بناکر فروخت کرنے کے لیے کئی آن لائن پلیٹ فارم دستیاب ہیں، جن میں ایپ اسٹور، اِسٹیم (Steam)یا روبلوکس شامل ہیں۔ کوئی بھی ٹین ایجر، جسے گیم ڈیویلپ کرنے کا صحیح آئیڈیا ہو، وہ بآسانی ایک ارب لوگوں تک پہنچ سکتا ہے۔ ہرچندکہ، اتنے وسیع صارفین تک پہنچنے کے لیے ٹیکنالوجی اور ایکو سسٹم گزشتہ ایک عشرے کے دوران اُبھر کر سامنے آیا ہے، کم عمر گیم ڈیویلپرز کی خود سے کچھ کرنے کی صلاحیتیں غیرمتوقع نہیںہیں۔ دراصل، آپ انھیں 1970ء کے عشرے کے اُن غیرمتوقع راک اسٹارز کے ساتھ تشبیہہ دے سکتے ہیں، جنھوں نے اپنے گھر کے گیراجوں سے میوزک بینڈز کا آغاز کیا تھا۔ یونیورسٹی آف یوٹاہ میں انٹرٹینمنٹ آرٹس اینڈ انجینئرنگ پروگرام کے شریک بانی راجر آلٹزر کہتے ہیں کہ نوعمر ذہن ہمیشہ تخلیقی اظہار کے ساتھ سامنے آئے ہیں اور اسے پیسہ کمانے کا ذریعہ بھی بناتے ہیں۔آلٹزر کہتے ہیں کہ خصوصاً ویڈیو گیمز کی بات کریں تو 1980ء کے عشرے میں، نوجوان ڈیزائنرز اپنی ویڈیو گیمز بناتے، فلاپی ڈِسک پر اسٹور کرتے اور اسے پلاسٹک بیگ میں رکھ کر ویڈیو اسٹورز پر ذاتی طور پر جاکر فروخت کرتے تھے۔ 80 کے عشرے کے برعکس، آج ہمارے پاس آن لائن پلیٹ فارمز دستیاب ہیں، جن کی مدد سے آج کے نوجوان ویڈیو گیم ڈیزائنرز راتوں رات کروڑوں صارفین تک پہنچ جاتے ہیں۔

روبلوکس:کچھ حقائق

سب سے پہلے ہم آپ کے مطلب کی بات بتادیتے ہیں۔ روبلوکس صرف گزشتہ ایک سال میں تین ٹین ایجرز کو لکھ پتی بناچکی ہے۔ ایک گیمر نے 30لاکھ ڈالر اور دو گیمرز نے 20، 20لاکھ ڈالر کمائے۔ دیگر سیکڑوں اور ہزاروں نوجوان روبلوکس پر مزید گیمز بناکر اپنے کالج کی تعلیم کے اخراجات پورے کررہے ہیں اور کچھ اپنی کمپنیاں بنارہے ہیں۔

2018ء کی بات کریں تو یہ ایپ اپنے ڈیویلپرز کو اس سال مزید7کروڑ ڈالر ادا کرے گی جبکہ گزشتہ سال اس نے 3کروڑ ڈالر کی ادائیگی کی تھی۔ مطلب اس سال مزید کئی نوجوان گیم ڈیویلپرز لکھ پتی بننے والے ہیں۔ روبلوکس پر ایک اندازے کے مطابق40لاکھ گیم ڈیویلپرز 40کروڑ روبلوکس گیمز ڈیویلپ کرنے میں مصروف ہیں۔ روبلوکس، اپنے پلیٹ فارم کے ’لرنِنگ ٹول‘ کا استعمال کرتے ہوئے، نوجوان ڈیویلپرز کو تربیت فراہم کرنے کے لیےہر سال 500سے زائد کوڈِنگ کیمپ اور دیگر تعارفی کلاسوں کا انعقاد بھی کرتی ہے۔

تازہ ترین