• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جرمنی کے ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن کے بارے میں سالانہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان میں جمہوری حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے کے قریب ہیں۔ وفاق اور صوبوں میں نگران سیٹ اپ کے 30سے زائد امیدوار اپنی نئی شیروانیاں اور نئے تھری پیس سوٹ سلوا کر تیار بیٹھے ہیں کہ اب ان کی باری آنے میں چند ہفتے کا سفر باقی ہے ۔ ایک طرف تو یہ حال ہے تو دوسری طرف کراچی میں ووٹر ز لسٹ کی ازسرنو تیاری ، سندھ، بلوچستان، سرحد اور پنجاب میں امن و امان کی پریشان کن صورتحال کے پس منظر میں بعض حلقوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ شاید الیکشن کا معاملہ ایک سال کے لئے لٹک جائے ۔ اور موجودہ اسمبلیوں کی مدت میں اس مدت کی توسیع کر دی جائے ، اس نقطہ نظر پر سول سوسائٹی اور صنعتی و تجارتی حلقوں میں خوشی نہیں، بلکہ کافی تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اگر ایسا ہو گیا تو پھر ملک میں گورنس، بدانتظامی، توانائی کے بحران اور امن و امان کی خراب صورتحال سے معاملات مزید خراب بلکہ تشویشناک ہو سکتے ہیں تاہم اس وقت اس بات پر سوچنا زیادہ ضروری ہے کہ نگران سیٹ اپ کے فرشتے اور صاحب کردار افراد کہاں سے آئیں گے ۔ وہ دس پندرہ سال پہلے کے سابق آرمی آفیسرز، بینکار، سیاست دان یا بیوروکریٹ اور ٹیکنوکریٹس ہوں گے ممکن ہے کہ ان میں کئی بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر بینکوں کے ڈیفالٹر نہ ہوں یا ان کی بھی کوئی نہ کوئی فائل NABیا کسی اور تحقیقاتی ادارے میں ہو لیکن انہیں نگران سیٹ اپ کے لئے نامزد کرنے والے زیادہ طاقتور ہوں ۔ایسے بھی اکثر کہا جاتا ہے کہ ہمیں صرف ایک سو ایماندار شخص مل جائیں تو نظام بہتر ہو سکتا ہے جبکہ اب تو یہ حال ہو چکا ہے کہ معاشرے میں ایماندار اشخاص کی جگہ ویسے ہی محدود ہوتی جا رہی ہے اس کی وجہ یہ کہ ایک تو کرپشن وہ ہے جس کی نشاندہی ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل پچھلے کئی سالوں سے کرتی چلی آ رہی ہے جس میں ہمارے پاور فل سیاسی سیکٹر کی وہ کرپشن قطعی طور پر شامل نہیں ہے جو وہ ہر سال اربوں روپے کے ٹیکس ادا نہ کرکے کرتی ہے اگر اس کو بھی کرپشن میں شامل کر لیا جائے تو پاکستان میں کرپشن کے روزانہ کے اعدادو شمار 7ارب روپے سے کہیں زیادہ بڑھ جاتے ہیں اور اس سے پاکستان موجودہ 33نمبر سے کم ہو کر 22یا 23نمبر پر آسکتا ہے پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں کرپشن کی ایک سے زیادہ اقسام ہیں مثال کے طور پر انتظامی کرپشن، کام نہ کرنے یا اخلاقی کرپشن سب اس زمرے میں آتی ہے لیکن اس سے مالیاتی نقصان کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ۔ موجودہ کرپشن تو ہر دور کے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں، بیوروکریسی، بزنس مین، فرینڈ شپ یا تعاون اور دیگر اسباب کی وجہ سے ہوتی ہے ایسے حالات میں رقوم کی کرپشن دیکھنے کو بری لگتی ہے عملاً معاشرتی کرپشن اس سے کہیں زیادہ ہے اس پس منظر میں اب دیکھنا یہ ہے کہ مجوزہ نگران سیٹ اپ سے کیا امیدیں رکھی جا سکتی ہیں ۔ اسے پاکستان کے موجودہ سماجی اور معاشی حالات میں بہتری لانے کے لئے کن اصلاحات پر کام کرنا ہو گا جس سے عام آدمی مطمئن ہو سکے اور اسے عزت سے دو وقت کی روٹی ملی سکے اس وقت مسئلہ یہ بنا ہوا ہے کہ پاکستان میں لاتعداد مسائل کی وجہ سے عام آدمی ڈپریشن کا شکار ہے قوم کو اسی ذہنی دباؤ سے نکالنے کیلئے نگران حکمران خواہ وہ وفاق کے ہوں یا صوبوں کے، انہیں اپنے 90دن یا ایک ہزار دن کے ایجنڈے میں پہلا کام قوم کو ذہنی دباؤ سے نکالنے کا کرنا ہو گا یہ کام صرف حوصلہ یا تسلی دینے سے نہیں چلے گا بلکہ عملی طور پر ایسی پالیسیاں دینا ہو نگی جس سے عام افراد مطمئن ہو سکیں دوسرا انہیں نئے مالی سال کا بجٹ بھی دینا ہو گا یہ بجٹ یقیناایسا ہو جو ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومت کے بجٹ میں اعلان کردہ دعوؤں سے مختلف ہو بلکہ اس میں ٹیکسوں کا مساوی اور معاشی نقطہ نظر سے ”مساوی معاشی سہولتوں کا ذکر ہو یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سیٹ اپ کو کیا کیا کرنے کی اجازت ہو گی اور اس میں ملک و قوم کو بہتری کے لئے کیا کیا کرنے کی ہمت ہو گی ۔ اس لئے کہ اب قوم کو نعرے بازی والی نہیں، عملی طور پر کچھ کرنے والوں کی ضرورت ہے اس لئے ان کا دل سیاست سے بھرتا جا رہا ہے مگر دوسری طرف بھی تو فرشتے نظر نہیں آ رہے بے چاری قوم کیا کرے آخر اس ملک نے تو رہنا ہے اس کے خلاف بھارت ہو یا اسرائیل یا امریکہ یا کوئی اور دشمن ! انشااللہ پاکستان تو رہے گا اور یہاں 2014ء کے بعد سے معاشی حالات میں بہتری کے اشارے بھی مل رہے ہیں ناکامی اور نامرادی یقینا پاکستان دشمنوں کی ہو گئی اس لئے قوم حوصلہ رکھے، بادلوں کا رنگ بدلنے والا ہے ۔
تازہ ترین