• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وزارت خارجہ سیکولر ہو گئی۔ اس نے تو ایسی خطرناک حدوں کو پار کر نا شروع کر دیا ہے کہ جس کا نہ تو اسلام سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی آئین پاکستان سے۔ پاکستان کے ایک اہم سفارتخانہ نے حال ہی میں اسلام دشمن امریکی فلم کے تناظر میں مغرب میں رسول پاکﷺ کی زندگی کے بارے میں دنیا کو ”اصل حقائق“ فراہم کرنے کے لیے قادیانیوں کی مدد لی۔ ایک اہم مغربی ملک میں قادیانیوں کی طرف سے منعقد کیے گئے کنونشن کے بارے میں پاکستان کے متعلقہ سفارتخانے نے باقاعدہ اُس ملک میں موجود پاکستانیوں کو ای میلز (e-mails) کے ذریعے یہ دعوت دی کہ وہ قادیانیوں کے کنونشن میں شرکت کریں۔ قادیانیوں کو 1973 کے آئین کے تحت متفقہ طور پر غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے مگر اس کے باوجود ہمارے سفارتخانے کے دعوت نامہ میں قادیانیوں کو ”احمدیہ مسلم جماعت“ لکھا گیا۔ اس دعوت نامہ کے ذریعے یہ بھی کہا گیا کہ اس کنونشن کا مقصد اسلام دشمن امریکی فلم کو counter کرنا ہے۔ اس پر اُس ملک میں موجود مسلمانوں کے کچھ نمائندوں نے شور مچایا مگر اس سب کے باوجود گزشتہ ماہ قادیانیوں کا وہ کنونشن منعقد ہوا اور شرکت کرنے والوں کو قادیانیت کے بارے میں لٹریچر بھی دیا گیا۔میری متعلقہ افسر سے بات ہوئی اور انہوں نے تسلیم کیا کہ اُن سے یہ غلطی سرزد ہوئی۔اگرچہ بعدازاں ان صاحب نے وہاں کے اسلامی اسکالرز اور پاکستانی مسلمانوں کے کمیونٹی لیڈرز سے بھی بات کی اور یہ باور کرایا کہ وہ ایک صحیح عقیدہ رکھنے والے مسلمان ہیں۔ یقیناً ایسا ہی ہو گا مگراسلامی جمہوریہ پاکستان کے سفارتکار اپنے پیارے نبیﷺ کی عظمت اور اُن کے زندگی اور سنہری اصولوں کو اجاگر کرنے کے لیے غیر مسلموں کے کیوں محتاج ہو گئے۔ میں نے اس معاملہ میں پوری تحقیق کی اور متعلقہ افسر کو بھی اس حرکت پرپشیماں پایا اور خیال کیا کہ یہ سب ایک نادانستہ غلطی ہو گی۔ مگر گزشتہ ہفتہ کے روز دفتر خارجہ کی طرف سے لندن میں ایم کیوایم کے دفتر میں اسکاٹ لینڈ پولیس کے چھاپے کے حوالے سے باقاعدہ ایک بیان جاری کیا جس میں باقی باتوں کے علاوہ یہ کہا گیا کہ ایم کیو ایم نہ صرف حکومت کی اتحادی جماعت ہے بلکہ سیکولر سوچ رکھنے والی ایک پارٹی ہے۔ دفتر خارجہ کو کسی پارٹی کی سیکولر سوچ کو بلاضرورت اجاگر کرنے کی کیا ضرورت پڑی۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا۔ اس کا آئین اسلامی ہے جو اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیتا ہے۔ اسی آئین کے تحت قرآن اور سنت رسولﷺ کو ملک کے ہر قانون پر فوقیت حاصل ہو گی۔ ایک اسلامی ریاست کا دفتر خارجہ سیکولر سوچ پر کیوں فخر کرنے لگا ؟؟؟ سیکولرازم لادینیت کا دوسرا نام ہے کیوں کہ ریاستی امور میں یہ دینی قوانین اور اصولوں کی مداخلت کے خلاف ہے۔ جب ہمارے دفتر خارجہ کا یہ حال ہو گا تو پھر ہمارے سفارتکار نئے نئے گل کیوں نہ کھلائیں گے؟؟؟ اس بیان اور ایسی حرکتوں پر دفتر خارجہ کے متعلقہ افسران کے خلاف فوری کارروائی کی جانی چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہو گا تو پہلے ہی شراب اور مغربی طرز کی پارٹیاں منعقد کرنے کو ڈپلومیسی سمجھنے والے ہمارے دفترخارجہ کے بابو معلوم نہیں اپنے آپ کو روشن خیال ثابت کرنے کے لیے اور کیا کیا کر گزریں گے۔
خارجہ کے بعد اب داخلہ کے ایک معاملہ کا بھی ذکر ہو جائے۔چند روز قبل بزرگ وکیل حبیب وہاب الخیری صاحب ایک نوجوان کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے اور بتایا کہ اس نوجوان نے پولیس کو درخواست دی کہ اس کے چچا نے کچھ ایسی کتابیں تحریر کیں جن میں مبینہ طور پرمحمدﷺ کی شان میں گستاخی کی گئی۔ اس بارے میں ہمارے رپورٹر نے جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ متعلقہ پولیس افسران نے آئی جی اسلام آباد کو تجویز دی کہ فوری طور پر ایک کمیٹی بنا کر اس درخواست کے بارے میں فیصلہ کیا جائے۔ اسی دوران اسلام آباد آئی ایٹ سیکٹر کیکچھ مساجد میں بھی یہ مسئلہ اٹھایا گیا۔ نمازیوں کو یہ بتایا گیا کہ علاقہ کے ایک رہائشی نے کچھ کتابیں لکھیں جن میں مبینہ طور پرمحمدﷺ کی شان میں گستاخی کی گئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ متعلقہ تھانہ کو باقاعدہ درخواست دی جاچکی ہے اور علاقہ کے علماء حضرات نے بھی پولیس سے ملاقات کی مگر وہ پرچہ درج کرنے میں دلچسبی نہیں لے رہی۔ نمازیوں سے درخواست کی کہ وہ اس معاملہ میں اپنا اثرورسوخ استعمال کریں تا کہ اس مسئلہ کا قانونی حل نکالا جائے ورنہ دوسری صورت میں کوئی بھی شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے۔ معاملہ چوں کہ پولیس کے سامنے آچکا اور دوسری طرف علاقہ کے لوگوں اور میڈیا کو بھی اطلاعات فراہم کی جا رہی ہیں اس لیے بہتر ہو گا کہ پولیس اس معاملہ کی سنگینی کو سمجھتے ہوے فوری طور پر ضروری کارروائی کرے۔ اگر متعلقہ شخص کے خلاف کیس بنتا ہے تو فوری ایف آئی آر درج کی جائے ۔ دوسری صورت میں اگر الزامات غلط ثابت ہوتے ہیں توضروری وضاحت جاری کی جائے تاکہ معاملہ ہاتھ سے نہ نکلنے پائے۔اس معاملہ میں مغرب اور لوکل این جی او۔ڈالر مافیا سے مرعوب ہوئے بغیر اسلام آباد پولیس اور وزارت داخلہ کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔
یہاں ایک اور داخلی معاملہ کا مختصراً تذکرہ ہو جائے۔ ایک قریبی عزیز کا فون آیا کہ کیا آپ نے اس ٹی وی چینل کو دیکھا جس کا نام دیسی اور تمام موادتقریباً ولائتی ہے اورجو فحاشی و عریانی کے نئے ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔اُن صاحب کا کہنا تھا کہ اس کے خلاف احتجاج ہونا چاہیے مگر میں سوچتا رہا کہ شاید ہماری اسلامی اور معاشرتی اقدار کی تباہی کا فیصلہ ہو چکا کیوں کہ فحاشی و عریانی کا یہ سارا دھندا متعلقہ حکومتی اداروں کی مرضی اور منشاء سے ہو رہا ہے اور اس برائی کے خلاف میرے کئی کالم لکھنے کے باوجود ذمہ داروں کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگ رہی بلکہ فحاشی و عریانیت کو پہلے سے زیادہ دکھایا جا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتہ ایک اینکر پرسن کو بھی میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی فحاشی پر تڑپتے دیکھا۔ سپریم کورٹ میں پہلے ہی فحاشی کا مسئلہ اُٹھایا جا چکا ہے۔ دوسروں سے تو کوئی امید نہیں اس لیے میری چیف جسٹس صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اس معاملہ کو فوری اُٹھائیں تا کہ فحاشی و عریانیت کے اُس حملہ کو روکا جا سکے جس پر اگر فوری توجہ نہ دی گئی تو ہم تباہ و برباد ہو کر رہ جائیں گے۔
تازہ ترین