• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاست پر لکھنا میری اولین ترجیح نہیں ہوتی کیونکہ ہر طرف سیاسی تجزیات کے دریا بہہ رہے ہیں اور اپنے اپنے پسندیدہ سیاسی کرداروں کی شان میں ڈھول بجائے جارہے ہیں۔ ٹیلی ویژن چینلوں پر صبح سے رات تک سیاسی تجزیات کا سمندر بہتا رہتا ہے اور پھر اگلی صبح ایسے ہی تجزیات کی پرچھائیں اخبارات کے صفحات پر ملتی ہیں۔ آزاد اور طاقتور میڈیا کی منظم مہم جوئی اور تجزیات کے سمندر بہانے سے فقط اتنا ہی فرق پڑا ہے کہ لوگ آج بھی برادری ،علاقے اور چھوٹے چھوٹے مفادات کے تحت ووٹ دیتے ہیں،یعنی وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے۔ جس طرح ہر روز تجزیہ نگاروں کے اندازے اور پیشن گوئیاں شرمندہ ہوتی ہیں اسی طرح ہمارا یہ اندازہ بھی شرمندگی سے چہرہ چھپارہا ہے کہ آزاد طاقتور میڈیا نے ووٹروں کے سیاسی شعور کی سطح بلند کردی ہے، سیاسی ذہن کو پختہ کردیا ہے اور اب لوگ کارکردگی کی بنا پر ووٹ دیں گے نہ کہ چھوٹی چھوٹی وابستگیوں کے زیر اثر ملک و قوم کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ گزشتہ تین برس میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نقشے پر نظر ڈال لیں آپ کو کسی بڑی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آئیں گے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جسے ہمارا ووٹر عام طور پر برادری، صوبائی تعصب، علاقائی اثر و رسوخ اور دیرینہ سیاسی وابستگی کی زنجیروں سے آزاد نہیں ہوسکا۔
اس صورتحال کا فائدہ بہرحال جاگیرداروں، روساء، سیاسی وڈیروں اور جذباتی نعرے لگانے والوں کو پہنچے گا اور ملک میں کسی بڑی خوشگوار تبدیلی یا سیاسی انقلاب کا خواب دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔ نتیجے کے طور پر ہمارے درمیانے درجے کے سیاستدان اور ان کی گھسی پٹی سیاست جس میں نہ ویژن ہے اور نہ ہی اہلیت اس قوم کا مقدر بنی رہے گی اگر 2013ء کے انتخابات بھی اسی قسم کے سیاسی سیٹ اپ کو جنم دیتے ہیں تو اس سے مایوسی کے اندھیرے تاریکی میں بدل جائیں گے اور نوجوان نسل کی امیدوں کے چراغ بجھ جائیں گے۔
نوجوانوں کی سوچ، اندیشوں اور مایوسی کا اندازہ …کچھ کچھ اندازہ… مجھے اپنے گزشتہ کالم کے فیڈ بیک(Feed back)سے ہوا ورنہ جن نوجوانوں سے مجھے پالا پڑتا ہے وہ قدرے وکھری ٹائپ کے نمائندے ہیں۔ میرے گزشتہ کالم کا عنوان تھا”آزادی کی قدر و قیمت، تم کیا جانو؟“ اس کالم میں، میں نے حصول آزادی کے لئے دی گئی ان گنت کہانیوں میں سے فقط ایک کا ذکر کیا تھا جس کے کردار لاہور کے کالجوں کے نوجوان طلبہ تھے جنہوں نے اپنے روشن مستقبل کو داؤ پر لگا کر والدین کے خوابوں کو ٹھکر اکر اور راحت و آرام کی زندگی ترک کرکے انگریز کی غلامی کے خلاف جہاد کا راستہ اختیار کیا اور 1915ء کی دہائی میں ہندوستان سے ہجرت کرکے افغانستان روس اور ترکی چلے گئے۔ان ممالک میں بیٹھ کر انگریز غلامی کے خلاف قلمی، سیاسی اور عملی جہاد کرتے رہے۔ مقصد ملک کو غلامی کی کڑیوں سے آزاد کروانا تھا۔ ان طلبہ کی ہجرت پر پنجاب کے گورنر سر مائیکل روڈوائز نے یہ حکم جاری کیا تھا کہ انہیں گرفتار کرکے درختوں پر پھانسی چڑھا دیا جائے۔ اس کا حکم اس دور کے اخبارات میں چھپا تھا اور”خاطرات“نامی کتاب میں بھی موجود ہے۔
اس حکم نے 1857ء کی یاد تازہ کردی تھی جب جنگ آزادی کے مجاہدین کو دہلی، میرٹھ، اودھ اور دوسرے شہروں میں درختوں سے لٹکا کر پھانسیاں دی گئیں اور عبرت کا سماں پیش کرنے کے لئے ان کی لاشیں درختوں کے ساتھ لٹکتی چھوڑ دی گئیں۔یہ سرمائیکل روڈوائز وہی تھا جس نے اپریل1919ء میں جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے لئے جنرل ڈائر کو حکم دیا تھا اور پھر لمحوں میں سینکڑوں انسانی لاشیں زمین پر تڑپنے لگیں۔ بہت سے لکھاری سرمائیکل روڈوائز کو جنرل ڈائر سے کنفیوژ کرتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ بعد ازاں ریٹائرمنٹ کے بعد سرمائیکل روڈوائز کو لندن میں ایک سکھ حریت پسند نے قتل کردیا تھا اور جلیانوالہ باغ کے قتل عام کا حکم نامہ جاری کرنے کا انتقام لے لیا تھا۔ جنرل ڈائر جس نے اندھی گولیاں چلائی تھیں بہرحال بچ نکلا۔ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ چند روز قبل جب میرا یہ کالم چھپا تو چند نوجوانوں نے آزادی پر سوالات اٹھائے۔ اول تو ہماری نوجوان نسل نے غلام ہندوستان کا مزا نہیں چکھا اس لئے انہیں آزادی کی صحیح قدر و قیمت کا اندازہ ہی نہیں۔ دوم ان کے سوالات سے جو مایوسی جھلکتی تھی وہ دراصل ہماری گزشتہ تین دہائیوں کی حکمرانی کا نتیجہ ہے کیونکہ مجموعی طور پر ہماری حکومتوں نے نوجوانوں کو مایوس کیا ہے۔ انگریز کی غلامی سے آزادی اور قیام پاکستان کے خوابوں میں جو وعدے، توقعات اور حسین مستقبل کے نقشے اور تصورات شامل تھے وہ ہمارے حکمرانوں کی نااہلی ،کرپشن، کبنہ پروری اور مفادات کے کھیل نے پاش پاش کردئیے۔ مزید برآں گزشتہ چند برسوں میں جس طرح معیشت کا بیڑا غرق ہوا ہے ،مہنگائی ،بے روزگاری، کرپشن اور بے انصافی کا جادو سر چڑھ کر بولا ہے اس سے نوجوانوں میں مزید مایوسی پھیلی ہے کیونکہ انہیں ا پنے مستقبل کے حوالے سے دور دراز تک روشنی کی کرن نظر نہیں آتی۔قوموں کی باطنی مضبوطی، اتحاد اور قومی جذبہ کافی حدتک معاشی خوشحالی اور انصاف سے جڑا ہوتا ہے جب معاشرے معاشی بدحالی اور بے انصافی کا شکار ہوں تو قومی اتحاد میں دراڑیں پڑنا قابل فہم ہوتا ہے۔
مجھے آج کل 1977ء کے انتخابات کے دور کا چیف الیکشن کمشنر یاد آتا ہے۔ نام تو یاد نہیں آرہا البتہ یہ یاد ہے کہ وہ ہائی کورٹ کے سابق جج تھے۔1977ء کے انتخابات کے بعد جب دھاندلی کا الزام لگا اور پی این اے نے پی پی پی کی حکومت اور بھٹو صاحب کے خلاف احتجاجی تحریک چلائی تو چیف الیکشن کمشنر نے ایک دلچسپ بیان دیا تھا۔ ان سے انتخابی دھاندلی کے بارے میں پوچھا گیا تو جواب دیا”آپ دکان سجادیں اور اس میں بہترین مال رکھ دیں، چور آئیں اور اسے لوٹ لے جائیں تو پھر کیا ہوسکتا ہے“۔
دراصل یہی سانحہ ہمارے ساتھ بھی ہوا ہے۔ قائد اعظم اور تحریک پاکستان نے قیام پاکستان کا معجزہ کر دکھایا۔ پاکستان کا تصور ایک ایسی ریاست کا تصور تھا جسے اسلامی اصولوں پر استوار فلاحی، جمہوری اور ترقی یافتہ ملک کی صورت میں شرمندہ تعبیر ہوتا تھا۔ قائد اعظم نے بار بار کہا تھا کہ پاکستان انسانی برابری ،معاشی مساوات، سماجی عدل، انصاف اور اسلامی یگانگت کا نمونہ ہوگا لیکن سانحہ تو یہ ہے کہ قیام پاکستان، تحریک آزادی اور عوامی جدوجہد کا ثمر عام لوگوں کا اس طرح مقدر نہ بن سکا جس طرح بننا چاہئے تھا۔ بلاشبہ گزشتہ 65برسوں میں ہم نے زندگی کے تمام شعبوں میں خاصی ترقی کی ہے لیکن ترقی کا یہ عمل بھی قوم کی توقعات کا ساتھ نہیں دے سکا۔ کرپشن کی خوفناک داستانوں، ملکی نظام کی بے انصافیوں، عسکری و سیاسی قیادتوں کی نااہلی نے نہ صرف قوم کے خواب چھین لئے ہیں بلکہ قومی افق پر مایوسی کے سائے بھی پھیلادئیے ہیں۔ اب تو یوں لگتا ہے جیسے عوام نے بھی موجودہ صورتحال سے سمجھوتہ کرلیا ہے۔ وہ بار بار انہی سیاسی قوتوں کو ووٹ دیتے ہیں جنہیں وہ بار بار آزما چکے ہیں۔ اس پس منظر میں ملکی حالات کیسے بدلیں، نظام میں تبدیلی کا سورج کیونکر طلوع ہو اور سیاسی تعطل کیسے ٹوٹے؟ تحریک پاکستان نے تو دکان سجا کر ہمارے حوالے کردی تھی لیکن چور آتے رہے اور اسے لوٹتے رہے۔ اس میں بیچاری آزادی کا کیا قصور؟ قصور تو ان کا ہے جنہوں نے آزادی کے تصور کو حقیقت نہ بننے دیا۔
تازہ ترین