• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالات کا تقاضا، روزمرہ کالم نگاری کا روایتی تصور، ضمیر کی عدالت سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر مجاہد کامران اور دیگر اساتذہ کے ساتھ سلوک، ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل آصف غفور صاحب کی پاکستان کی سیاسی تاریخ کے حوالے سے لندن ہائی کمیشن میں پاکستانی میڈیا سے گفتگو، وکلا کی چیف جسٹس کے خلاف نعرہ بازی اور پھر چیف جسٹس کا یہ کہنا ’’اپنے باپ کے خلاف بے ادبی کا خیال بھی نہیں کرتے‘‘ ان واقعات پر لکھنے کا تقاضا کرتا ہے مگر پاکستان میں جاگتی آنکھوں اور جاگتے قلب کے ساتھ پاکستان کی سول اورغیرسول ریاستی فورسز کے حوالے سے پورے شرح صدر کے ساتھ معاملہ اسی کے سپرد جو سب سے طاقتور ہے۔ پاکستان خصوصاً پنجاب کی سول اور غیرسول ریاستی فورسز کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، بس وقت ِ دعا ہے، باقی اب صورتحال طاقتوروںکے طاقتور کے اختیار میں ہے اس لئے ان موضوعات کو ہاتھ نہیں لگایا۔

ملک کی مختصر تاریخ کے مختلف ادوار میں اقتدار پر تصرف اور ایک خاص نظریہ کو پروان چڑھانے کے لئے مختلف نعروں کا سہارا لیا جاتا رہا۔ ان نعروں میں البتہ یہ حقیقت فراموش کی گئی کہ یہ ملک اس خطے کے عوام کی خواہشات کی وجہ سےووٹ کی طاقت سے وجود میں آیا تھا۔

پاکستان جیسے ملک میں تقریباً 70سال گزرنے کے باوجود بظاہر یہ طے نہیں ہوسکا کہ ریاست اور صحافت کے درمیان تعلقات کیسے ہونے چاہئیں۔ کیا مادرپدر آزاد میڈیا دونوںکےفائدے میں ہے یا پھر ریاست ہمیشہ قومی مفاد کے تناظر میں اس آزادی کا تعین کیا کرے گی۔ گزشتہ ہفتے پاکستان میں صحافیوں کی مختلف نمائندہ تنظیموں نے اپنے اپنے پلیٹ فارم سےپاکستان میں بڑھتی ہوئی سنسرشپ کی مذمت کی اور اس کے خلاف احتجاج بھی ریکارڈ کرایا۔ پی ایف یو جے نے پارلیمان سے مطالبہ کیا کہ وہ آزادی ٔ اظہار کا تحفظ کرنے کے لئے مشترکہ آواز بلند کرے جسے اس کے مطابق ریاستی اداروں کے ہاتھوںشدید خطرات کا سامنا ہے۔

پارلیمان سے مطالبہ کرنے والے اپنے ان تمام احتجاجی ساتھیوں کے سامنے برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کی ایک آنکھیں کھولنے والی ہوشربا رپورٹ پیش خدمت ہے جس کا عنوان ہے ’’رشوت زدہ عدلیہ، کرپٹ حکمران اور آزاد صحافت‘‘ یہ رپورٹ حرف بہ حرف ملاحظہ فرمایئے۔

’’انڈیا کا پہلا اخبار جس کی اشاعت 1780میں شروع ہوئی، وہ ہندوستان پر انگریزوں کےطرز ِ حکمرانی کی عکاسی کرتا تھا۔ تاریخ دان اور صحافی اینڈریو اوٹس لکھتے ہیں ’’اس سے ہم یہ سبق سیکھتے ہیںکہ کس طرح جابر حکمران کام کرتے ہیں اور کس طرح آزاد صحافت انہیں روک سکتی ہے۔‘‘اس اخبار کا نام اس کے بانی جیمز آگسٹس ہکی، جو ایک بڑے بے باک صحافی تھے،انہی کے نام سے ’’ہکی کے بنگال گزٹ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس اخبار نے بڑی استقامت سے انڈیا کے طاقتور ترین لوگوں پر نظر رکھی، اخبار نے ان صاحب ِ اقتدار لوگوںکی ذاتی زندگیوںکو کھنگالا اور ان کو کرپشن، رشوت ستانی اور انسانی حقوق کی پامالیوںکا موردِ الزام ٹھہرایا۔ بہت سی خبریں جن میں اس اخبار نے انگریز راج میں اعلیٰ ترین سطح پر پائی جانے والی بدعنوانی کو آشکار کیا۔ ان میں اس وقت کے انگریز گورنر جنرل وارن ہیسٹنگ کی طرف سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو رشوت دینے کی خبر بھی شامل تھی۔

اخبار نے وارن ہیسٹنگ اور اس کے قریبی ساتھیوںکی طرف سے غیرقانونی قبضوں، عوام پر بغیر حق نمائندگی ٹیکس لگانے اور آزادی ٔ رائے کو دبانے کے الزامات بھی لگائے۔ اخبار نے انڈیا میں مقامی لوگوںکی غربت اورغیرملکی آقائوںکی زندگی کابھی موازنہ کیا جو ایسے مسائل تھے جنہیںدیگر اخباروں میںنظرانداز کردیا جاتا تھا۔ اس نے نوآبادیاتی معاشرے کے نچلے اور پسماندہ طبقات سے اپنا رستہ بنانے کی کوشش کی۔ خاص طور پر ان مقامی فوجیوںکے بارے میںآواز اٹھائی جو برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔

اپنے عروج کے زمانے میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان کے ایک وسیع و عریض علاقے پر اپنی فوج کے ذریعے قابض تھی۔ 1857کی بغاوت کے بعد جسے مقامی طور پر ’’جنگ ِ آزادی‘‘ قرار دیا جاتا تھا، کمپنی کو بندکردیاگیا۔ بغاوت کے دوران اس اخبار نے ہندوستانی فوجیوں کی حوصلہ افزائی کی اور گورنرجنرل ہیسٹنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’تمہارے گلے ایک فاطر العقل شخص کی حیوانی خواہشات کےلئے وقف ہیں‘‘ لیکن جلد ہی تنقید حکومت کی برداشت سے باہر ہوگئی۔ حکومت نے ان لوگوںکو بدنام کرنا شروع کردیا جو ان پر تنقیدکر رہے تھے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس بیانیے کو تبدیل کرنے کے لئے ایک حریف صحافتی ادارے کی مالی معاونت شروع کردی اور ہیسٹنگ کے گماشتے ہکی کی کردارکشی پر اترآئے۔انہوں نے اخبار کو بدتہذیب اور اس میں لکھنے والوں کو پرلے درجے کے سازشی قرار دینا شروع کردیا۔ آخر کار جب اخبار میں ایک صحافی نے اپنا نام شائع کئےبغیر یہ تحریر کیا کہ ’’اگر حکومت عوام کے فلاحی کاموں میں عوام سے مشاورت کرنا چھوڑ دیتی ہے تو عوام اس کے تابع فرمان رہنے کےپابند نہیں رہتے ‘‘تو اخبار بند کردیا گیا۔

ہیسٹنگ نے ہکی کے خلاف دعویٰ دائر کردیا۔ ایک رشوت زدہ عدلیہ کے سامنے ہکی کے بچنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ ہکی مجرم قرار پائے لیکن اس کے باوجود 9مہینے تک جیل سے اخبار کی اشاعت کا کام کرتے رہے جس کو بعد میں سپریم کورٹ نے بند کردیا اور اس کے پریس کو بحق سرکار ضبط کرلیا۔ اس طرح انڈیا کا پہلااخبار ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا۔

ہندوستان میں اختیارات کے ناجائز استعمال اور انسانی حقوق سے روگردانی کی خبریں انگلستان پہنچنا شروع ہوگئیں۔ انگلستان میںارکان پارلیمان نے ہکی کے بنگال گزٹ کی خبروں کی بنیاد پر تحقیقات شروع کردیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہیسٹنگ اور اس وقت کے چیف جسٹس دونوںکو واپس طلب کرکےان کا مواخذہ کیا گیا۔ ہکی کے بنگال گزٹ اور انگلستان کے اخبارات میں شائع ہونےوالی خبروںکی وجہ سے کرپشن کے خلاف ایک فضا بنی۔‘‘

انڈیا کے سب سے پہلے اخبار کی کہانی کی طرح آج بھی ایک مخصوص مائنڈسیٹ رکھنے والی سوچ صحافت کی آواز دبانے کی کوششوںمیں مصروف دکھائی دیتی ہے اور ان کے پاس پہلے کےمقابلے میں عوام کو منقسم کرنے کے نئے ہتھکنڈے آگئے ہیں۔ سوشل میڈیا کے آنے کےبعد فیس بک، واٹس ایپ اور ٹویٹر نے ایسے خول تخلیق کئے ہیں جہاں لوگ وہی مواد لکھتے، پڑھتے اور دیکھتے ہیںجوان کی پسند سے مطابقت رکھتا ہے یا ان کے ہم خیال لوگ ہی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ہیسٹنگ اور ہکی کی لڑائی اس صورتحال سے مختلف نہیںتھی جس کا ہمیں آج بھی سامنا ہے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ اپنے اوپر پابندیاں کوئی شوق سے نہیں لگواتا۔ سمجھوتے اکثر مجبوراً کئے جاتے ہیںاور مجبوریاں سب کی ہوتی ہیں اور فی الحال تمہاری اور ہماری سب کی سب سے بڑی مجبوری یہ ہے کہ شدیدترین اقتصادی بحران میں جیسے تیسے نوکری لگی رہے، روزی روٹی چلتی رہے!

تازہ ترین