• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بات پہلے بھی لکھ چکا ہوں لیکن اب پھر ایک ایسا ایشو آ گیا ہے کہ اس بات کو دہرانا چاہتا ہوں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک مسجد میں امام صاحب نے نماز پڑھانے کے بعد جیسے ہی سلام پھیرا، ایک صاحب کھڑے ہوگئے اور امام صاحب کو مخاطب کرکےکہنےلگے کہ مجھے آپ کے پیچھے نماز پڑھ کر بڑا سکون ملا ہے، آپ نے جس انداز سے نمازپڑھائی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرا ایمان تازہ ہو گیا ہے لیکن مجھے جہاں آپ کے پیچھے نماز پڑھ کر اطمینان نصیب ہوا ہے، وہاں اس بات کا دکھ بھی ہوا ہے کہ مسجد بہت بوسیدہ ہو چکی ہے۔ یہ اللہ کا گھر ہے، ہم سب پر اس کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنی جیب سے پچاس ہزار روپے نکال کر امام صاحب کو دیے کہ مسجد میں ضروری مرمت اور رنگ روغن وغیرہ کرا لیا جائے۔ پھر وہ صاحب سب نما زیو ں کو سلام کر کے رخصت ہوگئے۔ مسجد کے نمازی اس شخص سے بہت متاثر ہوئے چند ہفتوں کے بعد پھر یونہی نماز کے بعد وہ صاحب کھڑےہوئے اور کہنے لگے کہ آج مجھے پھر اس مسجد میں نماز کی ادائیگی کا اتفاق ہوا ہے لیکن آج مجھے مسجد کو بہتر حا لت میں دیکھ کر خوشی ہوئی ہے۔ کہنے لگے: مجھے اللہ نے بہت کچھ دے رکھا ہے، کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ایک مرتبہ پھر جیب سے پچاس ہزار روپے نکالے اور امام صاحب کو دیدیے کہ مسجد کی تزئین و آرائش کا کام جاری رکھا جائے اور یہ کہہ کر مسجد سے نکل گئے لیکن بہت سارے نمازی ان کی دریا دلی سے متاثر ہوکر ان کے پیچھے لپکے۔ ہر کوئی انہیں اپنے گھر میں چائے یا کھانے کی دعوت دینے لگا اور کچھ لوگ اس میں کامیاب بھی ہوگئے۔ ان کی زبانی یہ معلوم ہوا کہ وہ بہت امیر شخص ہیں، بہت عرصہ بیرونِ ملک رہ کر آئے ہیں۔ بچے اب بھی باہر ہوتےہیں ، اب ان کی کوشش ہے کہ جس طرح اپنے بچوں کو بیرونِ ملک سیٹ کراکے برسرروزگار کرایا ہے اسی طرح دوسرے لوگوں کی بھی خدمت کریں اور ان کے جوان اور بے روزگار بچوں کو بیرونِ ملک ملازمت دلائیں۔ لوگ ان کے خلوص اور دریا دلی سے پہلے ہی بہت متاثر تھے، اب تو ان صا حب کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔ ہر کوئی ان کی خدمت کرنا چاہتا تھا، وہ جس گھر جاتے اس گھر کے مکین خود کو خوش قسمت تصور کرتے اور اپنی اوقا ت سے بڑ ھ کر ان کی خدمت کرتے۔ چھو ٹے سے محلے کے لو گ اپنے زیورات بیچ بیچ کر انہیں روپے دینے لگے کہ ہمارے بچوں کو بھی بیرونِ ملک بھجوا دیں اور پھر کیا تھا کہ وہ صاحب اس محلے سے لاکھوں روپے لے کر ایسے رفو چکر ہوئے کہ آج تک نظر نہیں آئے۔ جہاں لوگو ں سے فرا ڈ ہوا، وہیں افسوس اس بات کا بھی ہے کہ فراڈیے شخص نے اپنے فراڈ کےلیے مسجد جیسی مقدس جگہ کو استعما ل کیا۔

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں دنیا کی تیسری بڑی مسجد ہے جسے ہم فیصل مسجد کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ ایک خوبصورت اور جاذبِ نظر مسجد ہے۔ گزشتہ روز میرے کسی جاننے والے نے اس مسجد میں سنتِ نبویؐکے مطا بق اپنے بیٹے کے نکا ح کی تقریب رکھی تھی اور مجھے بھی شرکت کےلیے دعوت دی۔ میں فیصل مسجد گیا تو یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ اس مسجد کو رنگ و روغن کی تو ضرورت نہیں لیکن اس کے تقدس کو اجاگر کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ اُس فراڈیے کی طرح کے بہت سے لوگ اس مسجد میں پھیلے ہوئے ہیں، جو مٹھائی اور نجانے کس کس نام سے پیسے بٹورنے کےلیے لوگوں کو تنگ کرتے ہیں دوسری جانب لوگوں نے اس عبادت گاہ کو ایک تفریح گاہ بنا کر اس کی وہ توہین کر رکھی ہے کہ خوف آنے لگتا ہے۔ نوجوان لڑکے، لڑکیاں جس طرح یہاں سیلفیاں بناتے نظر آتے ہیں اس سے سمجھ داروں کو بہت سی باتیں سمجھ آنے میں دقت نہیں ہوتی۔ مسجد‘ جس میں جماعت سے نماز حاصل کرنے کےلیے بھی بھاگنے سے منع فرمایا گیا ہے، وہاں یہ سب کچھ دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ سی ڈی اے کے ادارے سمیت کوئی وزیر، کوئی مشیر یا کوئی بااثر ہے جو اللہ کے اس گھر کے تقدس کےلیے اقدامات کرے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین