• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کے ساحل پر مبارک ولیج کے قریب گزشتہ دنوں تیل پھیل جانے سےبہت سے انسانی ،ماحولیاتی اور معاشی مسائل نے جنم لیا ہے۔اس واقعے نے نہ صرف ساحلی بستیوں کے مکینوں کی زندگی مزید مشکل بنادی ہے بلکہ آبی حیات اور سمندر کے ماحولیاتی نظام کوبھی شدید خطرات لاحق ہوگئے۔مبارک ولیج اور قریبی واقع ماہی گیروں کی سات ،آٹھ بستیوں کے مکینوں کی زندگی پر بالخصوص اورساحل کے قریب واقع آبادیوں پر بالعموم اس کے کافی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔اس ضمن میں دل چسپ بات یہ ہے کہ تیل کے ساحل پر پہنچنے کے بوری بعد جب متعلقہ اداروں سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ تیل کہاں سے آیا ہے۔پھر طرح طرح کی افواہوں کا بازار گرم رہا۔پھر یہ پتا چلا کہ ممکنہ طور پر قریب سے گزرنے والے بحری جہاز نے یہ تیل سمندر میں گرایا ہے۔تاہم تا دمِ تحریر اس جہاز کی شناخت نہیں ہوسکی ہے۔

یہ کیسا تیل ہے؟

مبارک ولیج کے ساحل پر تیل پھیلنے سے علاقے میں شدید بدبو پھیل گئی ہے اور ماہی گیروں کا روزگار بھی متاثر ہورہا ہے۔ تیل کی آلودگی کی وجہ سے مچھلیاں، کچھوے اور دیگر آبی حیات مررہی ہیں۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانو گرافی کی تحقیقاتی ٹیم نے مبارک ولیج پر ساحل کا دورہ کرکے تیل اور مردہ آبی حیات کے نمونےجمع کیے ہیں۔ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ کا کہنا ہے کہ یہ تیل سمندر میں کافی عرصہ پہلے پھینکا یا بہایاگیا تھااور یہ خام تیل نہیں ہے۔ تیل کہاں کا ہے یہ فنگرپرنٹنگ سے پتا چل جائےگا۔

تیل نہیں ’’ٹار‘‘

ماہرین تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ خام یا خالص تیل نہیں ہے بلکہ ’’ٹار‘‘ ہے۔تاہم ادارہ تحفظ ماحولیات کےاسسٹنٹ ڈائریکٹرعبدالرحیم کاپہلے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ مبارک ولیج کے ساحل پر آنے والا تیل دراصل خام تیل ہے۔ بلوچستان کے ساحلوں پر یہ تیل اکثر آجاتا ہے، خلیجی ممالک کے آئل کنٹینرز شمالی بحیرہ عرب سےگزرتے ہوئے خام تیل پھینک دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سمندر کو مانیٹر نہیں کیا جاتا۔ ہر ماہ 1200 کے قریب آئل کنٹینرز بحیرہ عرب سے گزرتے ہیں،کم زرو ماحولیاتی قوانین کے باعث انٹرنیشنل آئل کنٹینرز تیل سمندر میں چھوڑ رہے ہیں اور تیز ہوائیں سمندر میں چھوڑا گیا تیل ساحل پر لے آتی ہیں۔

تحفظ ماحول کےلیے کام کرنے والا غیر سرکاری ادارہ،ڈبلیوڈبلیو ایف،بھی مبارک ولیج کے ساحل پرپہنچنے والے تیل کے ماخذ اور اس کی وجوہات جاننے کےلیے تحقیق کررہا ہے۔ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے تکنیکی مشیر معظم خان کے مطابق تیل ساحل اور چٹانوں پر خاصے بڑے علاقے پر پھیلا ہوا ہے جس سے آبی حیات بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔

سمندر میں پھیلنے والے تیل کے باعث ابتدائی دنو ں میں مبارک ولیج میں ہر طرف شدید بدبو پھیلی ہوئی تھی اور فضا اتنی آلودہ تھی کہ کئی افرادکے بے ہوش ہونے کی اطلاعات تھیں۔یہاں بہت سے افراد مختلف بیماریوں کا شکار ہوگئے ہیں۔سمندر میں تیل پھلنے کی وجہ سے ماہی گیروں نے اپنی کشتیاں ساحل پر کھڑی کردی ہیں۔لہذا انہیں پیٹ کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔اس آلودگی نے مبارک ولیج اور ارد گرد کی آبادیوں کے مکینوں کو وبائی امراض میں مبتلاکر دیا ہے۔تاہم سرکاری طورپر طبی سہولتیں نہ ملنے پر لوگ نالاں نظر آتے ہیں۔ مذکورہ آبادیوںکے مکینوں خصوصا بچوں کے پاؤں میں دانے نکلنا شروع ہوگئے ہیں۔اس کے ساتھ خارش،آنکھوں میں سوزش، جسم پر سوجن،پیٹ میں درد اور سانس لینے میں دشواری کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں۔جلدی بیماریاں بھی پھیلنا شروع ہو گئی ہیں

ماہی گیروں کی مشکلات

مقامی لوگوں کے بہ قول اس ٹار یا گندے تیل سے ماہی گیروں کی کشتیاں اور جال خراب ہونے کے سبب لاکھوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔تفریحی مقامات پرلوگوں کے نہ آنے سے ہوٹلوں اور دکانوں کوتالے لگ گئے۔ ان لوگوں کہ خطرہ ہے کہ آلودگی اوربے روزگاری کی صورت حال چھ ماہ تک برقرار رہ سکتی ہے۔جمعرات کی شام کو مبارک ولیج کے ساحل پر اچانک یہ ٹار آنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتا گیا۔رفتہ رفتہ یہ چھ سات بستیوں تک پھیل گیا تھاجن میں سینڈز پٹ ، منجھار گوٹھ، سنہرا پوائنٹ، بٹگوڈی، عبدالرحمن گوٹھ اور نتھیا گلی شامل ہیں۔ مبارک ولیج میں بعض افراد کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی مبینہ طورپر ذمے دار ساحلی آبادی سے کچھ دور قائم ایک آئل ریفائنری ہےکیوں کہ مبارک ولیج سے آگے سمندر کے بیچ میں ایک فیول فلنگ اسٹینڈ بنا ہوا ہے جو بلوچستان کی حدود میں آتا ہے اور اس اسٹینڈ سےمذکورہ آئل ریفائنری تک سمندر میں ایک پائپ لائن بچھائی گئی ہے جس کا کام آئل لے کر فیولنگ اسٹیشن تک آنے والے جہازوں کا خام تیل بائیکو آئل ریفائنری تک پہنچانا ہے۔ان افراد کاکہنا ہے کہ سیکورٹی اوردیکھ بھال کا خاطر خواہ انتظام نہ ہونے کے باعث یہ لائن کسی مقام سے لیک ہوئی ہوگی اور تیل نکل کر سمندر میں شامل ہو گیا ہوگا۔متاثرین کے مطابق متاثرہ ساحلی آبادیوں کے سروے کے لیے آنے والی بلوچستان کے محکمہ ماحولیات کی تحقیقاتی ٹیم نے ان کوئی بات نہیں سنی اور ساری توجہ صرف اس جانب مبذول کرنے کی کوشش کرتی رہی کہ یہ کام قریب سے گزرنے والے کسی جہازکاہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس راستے سے کوئی بھی جہاز نہیں گزرتا۔وہ کہتے ہیں کہ جن آبادیوں کو نقصان ہوا ہے وہ کراچی کی حدود میں آتی ہیں توان کا سروے بلوچستان کا محکمہ ماحولیات کیوں کر رہا ہے۔ اس معاملے کو سندھ کی سطح پر دیکھنا چاہیے اور اس کی تحقیقات بھی سندھ کے ادارے کریں تاکہ حقائق پرسے پردہ اٹھ سکے ۔

متاثرہ بستیوں کے مکینوں کے مطابق تیل کی وجہ سےآبی حیات کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے اور ان ساحلی آبادیوں سے کئی میل دور تک سمندر میں مچھلیاں ناپید ہوگئی ہیں۔ان کے بہ قول یہ سلسلہ سمندر کے مکمل طور پر صاف ہو جانے تک جاری رہے گا جس میں چھ ماہ یا اس سے زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔انہیں سب سے زیادہ فکر اس بات کی ہے کہ اس عرصے میں مچھیرے شکار نہیں کر پائیں گے جس کی وجہ سے انہیں بھاری مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔دوسری جانب ان کی کشتیاں اور لاکھوں روپے مالیت کے جال خراب ہو چکے ہیں۔ تیل صاف ہونے تک کوئی ماہی گیر کشتی لے کر سمندر میںجا سکتا ہے اور نہ ہی خراب ہونے والے جال ٹھیک کیے جا سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر ساحل پر موجود تیل جلدازجلد صاف نہیں کیا گیا تو سمندرکا پانی چڑھنے پر یہ سارا تیل سمندر میں مزید کئی میل تک پھیل سکتا ہے جس سےنقصان میںکئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔وہ شکوہ کرتے ہیں کہ ان دنوں مبارک ولیج کا خوب صورت ساحل بد بو دار اور سیاہ تیل کی وجہ سے شدید آلودگی کی لپیٹ میں ہے جس کی وجہ سے ماہی گیر بے روزگارہوگئے ہیں اور آبی حیات شدید خطرے سے دو چار ہے۔

صفائی کا کام آسان نہیں

اگرچہ ساحل اور سمندر کی صفائی کا کام جاری ہے،لیکن یہ کوئی آسان اور اور بہت جلد مکمل ہونے والاکام نہیں ہے۔اس کے لیے مخصوص تیکنیک، سازوسامان اور تربیت یافتہ عملے کی ضرورت ہوتی ہے۔ہمارے متعلقہ ادارے اس ضمن میں اپنی سی کوشش کررہے ہیں ،لیکن اس قسم کے واقعات کے اثرات برسوںتک رہتے ہیں۔فی الحال کراچی کےاس حسین ساحل کی خوب صورتی ماند پڑچکی ہےاور جہاں آبی حیات کو خطرات لاحق ہیں وہیںماہی گیروں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔ساحل کی صفائی کے لیے میری ٹائم ایجنسی اورپاک بحریہ کے اہل کارمصروف عمل ہیںاور تاد مِ تحریرساحل اورقریبی سمندر کی صفائی کاکام تقریبا مکمل ہوچکا تھا۔دوسری جانب ماہرین کے مطابق سمندرکے آلودہ ہوجانے کی وجہ سے کچھوؤں، ڈولفن اور وہیل سمیت دیگر آبی جانوروں کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ان کے مطابق مبارک ولیج کےچٹانی اور ریتیلے ساحل پر جو جانور ملتے ہیں( جنہیں بینتھک اینمیل کہتے ہیں) وہ کافی تعداد میں مرچکے ہوں گے۔ان میں کیکڑے ، کورال، اسپنج، ائیل اور دیگر چھوٹے اقسام کے جان دار شامل ہیں۔

میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی کے مطابق 25اکتوبر کو مختلف ذرائع سے اسے سمندر میں تیل کے رساؤکی اطلاعات موصول ہوئی تھی۔اسی روز ہیڈ کواٹرز میری ٹائم سکیورٹی کے ڈیزاسٹر رسپانس سینٹر نے تیز رفتار بوٹس اور آلات سے لیس ٹیم سمندر میں بھیج دی تھی۔ تاہم اس مشاہدے کے دوران تیل کی موجودگی کسی بھی جگہ سے رپورٹ نہیں ہوئی تھی۔بعدمیں 26 اکتوبر کو سمندر میں ہوائی جہاز کے ذریعے فضائی نگرانی کے دوران کیپ ماونزے کے قریب تیل کی موجودگی مشاہدے میں آئی تھی۔ادارے کے مطابق کیپ ماونزےکے جنوب مغرب میں موجود تیل 500 میٹر کے رقبے میں دو الگ الگ حصوں میں تھا۔صورت حال کے پیش نظر کنٹی جنسی پلان تشکیل دیا گیاجس میں پاک بحریہ،میری ٹائم سکیورٹی،کے پی ٹی اور آئل مارکیٹنگ کمپنی کا عملہ شریک ہوااور سمندرمیں 27 اکتوبر آپر یشن کلین اپ عمل میں لایا گیا۔جس وقت ٹیمزتیل کی صفائی کےلیے سمندرمیں پہنچیں توتیل چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ چکاتھا ۔ساحل اور گہرے سمندر میں بہ یک وقت آپریشن کے نتیجے میں 29 اکتوبر تک صفائی کا ستر فی صد کام مکمل کرلیا گیاتھا جس کے بعد اتوار کو ہونے والے ایریل سرویلنس کے دوران سمندرمکمل طور پر صاف دکھائی دیا۔ایجنسی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ تیل کی بہت معمولی مقدار (اس وقت تک)کیپ ماونزے کے قریب موجود ہے جس کے لیے کلینگ ٹاسک فورس کو آگاہ کردیا گیاہے۔ساحل پر تیل کی باقیات کی صفائی پیر29اکتوبر کو بھی جاری تھی۔ ساحل سے تیل ملی آلودہ ریت کو کے ایم سی سےمل کر ٹھکانے لگایا جارہا ہے۔اندازے کے مطابق تیل کی مقدارچھ سے سات ٹن ہوسکتی ہے ۔ایجنسی کے مطابق سوشل میڈیا پر پائپ لائن پھٹنے اور جہازوں سے متعلق گردش کرتی ان گنت افواہیوں کو من گھڑت اور بے بنیاد ہیں ۔صفائی کے عمل میں چا رٹگ بوٹس ، میری ٹائم سکیوریٹی ایجنسی ،کے پی ٹی اور نجی کمپنیز کے آلات سے مدد لی گئی ہے۔دو بڑے جہاز اورپاک بحریہ کے ایک بڑے جہاز سمیت چھوٹے بڑے دس سے زاید جہازوں نے اس کام میں حصہ لیا۔

کہاں سے اور کیسے آیا؟

مبارک ولیج کی ساحلی پٹی پر آلودہ تیل پھیلنے کے بعد کئی گھنٹوں تک اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔ بعد میں محکمہ تحفظ ماحولیات کے حکام نے ذرایع ابلاغ کو مطلع کیاتھا کہ سمندر میں تیل کافی مقدار میں موجود ہونے کے باعث صفائی کے کام میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ دوسری جانب پاک بحریہ اور میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی کی جانب سے آپریشن شروع کردیا گیا تھا۔حکام نے ابتدائی تحقیق کے بعد ماہی گیروںکے سمند ر میں جانے پر پابندی عاید کردی تھی جس کی وجہ سے ان کی زندگی پہلے سے زیادہ مشکل ہوگئی ہے۔محکمہ موسمیات کا کہنا تھا کہ تیل سمندر میں کافی مقدار میں موجود ہےجس کی وجہ سے صفائی کرنے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تاہم صفائی مہم کی تکمیل کے عرصے کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔تیل کے نمونے جانچ کے لیے لیباریٹری بھیج دیے گئے ہیں، مگر اب تک اس بارے میں کوئی رپورٹ نہیں پیش کی جا سکی ہے کہ یہ تیل کہاں سے آیا تھا۔پاکستان میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی، بلوچستان انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی، انسٹی ٹیوٹ آف اوشنو گرافی اور پاکستان نیوی تادمِ تحریریہ سراغ نہیں لگا سکی تھی کہ کہ تیل کا رساؤ کہاں سے اور کیسے ہوا۔

سندھ اور بلوچستان کے ساحل پرتیل پھیلنےکے بعد تیل صاف کرنے والی ایک کمپنی کو عارضی طور پر آپریشن معطل کرنے کا حکم جاری کردیا گیا تھا۔لیکن بعد میں پتا چلا کہ تیل وہاں سے نہیں نکلا تھا۔ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے مطابق تیل سے 20 کلومیٹر کی ساحلی پٹی متاثر ہوئی ہے اور خدشہ ہے کہ زیر سمندر چھوٹے جان دار ہلاک ہوگئے ہیں۔بلوچستان کے ساحلی علاقے گڈانی کے قریب سے جمعرات 25 اکتوبرکو تیل کا رساؤ مبارک ولیج تک پہنچ گیاتھا جس سے سمندر آلودہ ہوااور فضا میں تیل کی بو پھیل گئی۔

واضح رہے کہ حب کے قریب گڈانی میں شپ بریکنگ کی صنعت واقع ہے جہاں پرانے آئل ٹینکرز کو لانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ دو سال قبل ایک خستہ حال آئل ٹینکرسے خام تیل نکالنےکے دوران آگ بھڑک اٹھی تھی، جس کے بعد آئل ٹینکر لانے پر پابندی عاید کردی گئی تھی۔ اسی علاقے میں ایک آئل کمپنی کی جیٹی بھی موجود ہے اور یہ کمپنی روزانہ 75 ہزار بیرل خام تیل ریفائن کرتی ہے۔اس کمپنی کے ذمے داران کا کہنا ہے کہ تیل پھیلنے کی اطلاعات سامنے آنے سے قبل خام آئل کی منتقلی کا آپریشن جاری تھا، تاہم کمپنی کی لائن سے کوئی لیکیج نہیں ہوئی۔ان کے مطابق بلوچستان انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کے اہل کار آئے تھے، تین گھنٹے تک انہوں نے سمندرکے اندر اور باہر ریفائنری کی تنصیبات کا معائنہ کیا تھا، لیکن انہیں لیکیج کے کوئی شواہد نہیں ملے اور میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی کی بھی یہ ہی رپورٹ ہے۔

ادہر بلوچستان انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ کمپنی کی جیٹی، جہازوں یا پائپ لائن سے کوئی بھی رساؤ نظر نہیں آیا۔اس رپورٹ میں کمپنی کو تجویز دی گئی تھی کہ تیل کے رساؤ کا سراغ لگانے تک جیٹی سے آپریشن معطل کردیا جائے اور رساؤ کی روک تھام کے لیے وسائل بروئے کار لائے جائیں۔میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی نے بھی کچھ اسی قسم کی رپورٹ دی تھی ، تاہم اس نے انسٹی ٹیوٹ آف اوشنو گرافی سے تحقیق کی درخواست کی تھی۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشنو گرافی سے تعلق رکھنے والے محقق ڈاکٹر جاوید آفتاب کا کہناتھاکہ ان کے ادارے کی ٹیمزنےمتاثرہ علاقوں میں ساحل اور سمندرسے نمونے لیے ہیں جن کی روشنی میں رپورٹ بنائی جائے گی۔دوسری جانب ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ ساحل پر یہ تیل ٹار کی شکل اختیار کرچکا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ چند روز قبل اس کا رساؤ ہواہوگا۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کا بھی کہنا ہے کہ رساؤ کہاں سے ہوا اس کا تعین نہیں ہوسکا ہے۔

اجڑا ہوا ساحل

چرنا جزیرہ اور مبارک ولیج کے قریب زیر سمندر کورل کی کئی آبی مخلوق پائی جاتی ہے۔ شہر کی بھیڑ سے بے زار لوگوں کے لیے یہ تفریح کا مقبول مقام ہے۔یہاں روزانہ کافی افراد تفریح کے لیے آتے ہیں۔ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ٹیم نے متاثرہ علاقے کا دورہ کرکےابتدائی رپورٹ تیار کی ہے۔ ادارے کے سینئرمحقق محمد معظم کے مطابق یہ تیل چرنا جزیرے اور مبارک ولیج سے سینڈز پٹ تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ بیس کلومیٹر کا علاقہ بنتا ہے، لیکن اس کا دباؤ مبارک ولیج پر زیادہ ہے۔ان کے مطابق چرنا ہماری بایو ڈائیورسٹی کا بہت اہم مقام یا ہاٹ اسپاٹ ہے۔ وہاں کتنا نقصان ہوا ہے؟ اس کا ابھی پتا نہیں چل سکا ہے۔ مبارک ولیج کے بینتھک اینمیل کافی تعدادمیں مرچکے ہوں گے، جن میں کیکڑے ، کورل، اسپنج، ائیل اور دیگر چھوٹے اقسام کے جان دار شامل ہیں جو سمندر کے اندر پائے جاتے ہیں۔مچھلیوں پربھی یقینا اثرہوا ہوگا، لیکن بی الحال کوئی زیادہ اثر نظر نہیں آیاہے۔ان کے بہ قول ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ٹیم نے ساحل پر کچھ مردہ کیکڑے وغیرہ بھی دیکھے ہیں۔ اس سے آبی پرندوں کی اموات کا بھی خدشہ موجود ہے۔ اسی طرح ڈولفن اور وہیل مچھلی بھی تیل سے آلودہ فضا میں سانس نہیں لے سکتی۔ 2003 میں یونان کے بحری جہاز تسمان اسپرٹ سے 33 ہزار ٹن تیل کا رساؤ ہوا تھا، جس کے بعد یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ محمدمعظم کے مطابق اس تیل کے جذب ہونے کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ سمندر میں کیا عمل جاری ہے۔ اگر گرمی ہو تو چند دنوں میں یہ ختم ہوجاتا ہے، لیکن اس وقت موسم ٹھنڈا ہے،لہذا اس عمل میںکئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔

سمندری بلوم

یاد رہے کہ اس سے تقریبا پندرہ یوم قبل کراچی میں پراسرار بدبو محسوس کی گئی تھی ، جس پر ڈبلیوڈبلیو ایف نے تحقیق کرکے بتایا تھا کہ یہ بدبوسمندری بلوم پیدا ہونے سے پھیلی ہے اور بلوم کراچی سے بلوچستان تک پورے ساحل پر پھیل گیا ہے ۔ ادا ر ے سے وابستہ ماہر ماحولیات محمد معظم کا کہنا تھا کہ بلوم کے پھیلنے سے مچھلیوں کو نقصان پہنچتا ہے اور مون سون ختم ہوتے ہی بلوم ساحل پر آجاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ چند دنوں تک ساحل پر بدبو رہے جو ہوا کے ساتھ پھیلتی ہے۔تاہم انہوں نے مطلع کیا تھا کہ پاکستان میں آنے والا بلوم زہریلا نہیں ہےجیساکہ دیگر ممالک میںہوتا ہے۔اس وقت محکمہ تحفظ ماحول کا کہنا تھا کہ شہر میں محسوس کی جانے والی پراسرار بدبو کی وجہ سمندری ہواکا کم دباؤ اور اس کی سمت میں تبدیلی ہے۔تاہم محکمہ موسمیات کا کہنا تھاکہ مختلف ذرایع سے موصول ہونے والی اطلاعات میں اس بات کی نشان دہی کی گئی ہے کہ تیل جیسا چکنا موادپہلے چرناجزیرےکے ساحل پر پایا گیاتھاجو بہتا ہوا ہاکس بے اور ریت کے ٹیلوں تک آگیا۔ تیل جیسا چکنا مواد دو سے تین کلو میٹرکے فاصلے تک پھیلاہوا تھا، جس کے بخارات ہوا میں شامل ہو کر بدبو کا باعث بنے۔یاد رہے کہ گزشتہ برس جون کے مہینے میں بھی شہر قائد کی فضا میں پراسرار بدبو پھیل گئی تھی، جس کے بعدماحول اورجنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کےماہرین نے بتایا تھا کہ مئی اور جون میں لہروں کا رخ بدلتا ہے جس کی وجہ سے سمندرمیں موجود تمر (مینگروز) کے پودےسڑجاتے ہیں ۔ کراچی کی فضا میں پھیلی ہوئی بساند ان ہی مینگروزکی ہے ۔

تسمان اسپرٹ کی یاد

یاد رہے کہ 2003 میں یونان کے بحری جہاز تسمان اسپرٹ سے 33 ہزار ٹن تیل کا رساؤ ہوا تھا جس کے بعد یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے۔

تسمان اسپرٹ کے حادثے کے بعد تمر کے جنگلات اور آبی حیات کی افزائش متاثر ہوئی تھی۔ تیل نے پانی کا رنگ ہی تبدیل کر ڈالا تھا۔ آلودگی کی وجہ سے ہزاروں مچھلیاں اوردیگر آبی جانور ساحل پر مردہ پائے گئے تھے۔ کراچی میں تسمان اسپرٹ نامی تیل بردار بحری جہاز زمین میں دھنس گیا تھا۔ جس سے 30 ہزار ٹن خام تیل سمندر میں بہ گیا تھا۔یہ خام تیل آبی حیات کے لیے خطرناک ثابت ہواتھا۔محکمہ ماحولیات کی اُس وقت کی رپورٹس کے مطابق اس تیل کا تینتیس فی صد فضائی آلودگی کا باعث بنا۔تین لاکھ سے زاید افرادبالواسطہ یا بلا واسطہ طورپرمتاثر ہوئےاور سولہ ہزار ٹن تیل چالیس مربع کلومیٹر تک سمندر کی تہہ میں بیٹھ گیاتھا۔

اسی طرح بحیرہ عرب میں اکتوبر 2006 میں ڈوبنےوالےآئل ٹینکراورینٹ ون میں موجود تیل سمندرمیں پھیل گیا تھاجس سےمحتاط اندازے کے مطابق70 میٹرک ٹن آئل سمندرمیں پھیلنے سے ہزاروں ٹن سی فوڈ، مچھلیاں، جھینگے اور کیکڑے ہلاک ہوگئے تھے۔ستمبر 2017 میں عید کے تیسرے دن مون سون کی تیزہواوں کی وجہ سے ساحل پر تیل آگیا تھاجس نےپانی کا رنگ تک گہرا کردیا تھااور آلودگی کے سبب مچھلیاں، جن میں جیلی فش، اسٹار فش، کیکڑے اور دیگر آبی مخلوق شامل تھیں، ساحل پر مردہ پائی گئیں تھیں۔

ماہرین کے مطابق تسمان اسپرٹ کے حادثے کے اثرات اب تک موجود ہیں اورماحولیات کے اس بڑے حادثے کے بعد تمر کے جنگلات اور آْبی حیات کی افزائش متاثر ہوئی ہے۔

ماہرین ِ ماحولیات کے مطابق اس تیل کے اثرات آبی حیات مچھلیوں، جھینگوں اور تمر کے جنگلات پر ہوئے، جہاں اُن کی افزائشِ نسل ہوتی ہے، اب وہاں تمر کے بیج نظر نہیں آتے۔بابا بھٹ، پیر شمس، ڈنگی اور بنڈال جزائر کے علاقوں میں تمر کے بیج بہتے ہوئے پہنچتے تھے اور لوگ انہیں جمع کرکے لگایا کرتے تھے، مگر اب ایسا نہیں ہوتا ۔اُن کے مطابق مبارک ولیج سے ابراہیم حیدری تک ماہی گیر بستیوں کے رہائشی ماہی گیروں کا اس تیل کی وجہ سے معاشی نقصان تو ہوا، اِس کے ساتھ جلد اور آنکھوں کی بیماریاں بھی پھیلیں۔ماہی گیروں کی تنظیم پاکستان فشر فوک کے رہنما محمد علی شاہ کا کہنا ہےکہ آلودگی کی وجہ سے اب ساحل کے قریب مچھلی کا شکار نہیں ہوتا۔ اس آلودگی کی ایک بڑی وجہ تسمان اسپرٹ کا تیل بھی ہے۔اُن کے مطابق آج تک ماہی گیروں کو ان کے نقصان کا معاوضہ نہیں دیا گیا ہے۔یاد رہے کہ پاکستانی حکام نے تسمان اسپرٹ کے کپتان سمیت دیگر عملے کو گرفتار کیا تھا، جنہوں نے چند سالوں بعد ضمانت حاصل کی اور بعد میں انہیں حاضری سے بھی مستثنیٰ قرار دے دیا گیا تھا۔

کے پی ٹی کے وکیل جسٹس ریٹائرڈ شائق عثمانی کے بہ قول اس درخواست میں ہم نے کہاتھا کہ جو جہاز کے مالک ہیں وہ اپنی کمپنی سے کہیں کہ وہ ایک بلین ڈالر کی سکیورٹی دیں۔یہ درخواست ہائی کورٹ میں تو کام یاب نہیں ہوئی، تاہم بعد میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا۔ان کے بہ قول پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں عدالت سے باہر معاملات طے کرنے کی بھی باتیں ہوئیں جس کے لیے باہر سے وکلا آئے تھے مگر اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلاتھا ۔

محکمہ جنگلی حیات سندھ سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر فہمیدہ فردوس اس ضمن میں وفاقی حکومت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی میں بھی شامل تھیں،ان کے مطابق اس واقعے کے وقت کچھ مردہ پرندے، مچھلیاں اور کچھوے ملے تھے۔ اس لیے یہ خدشہ تھا کہ کچھ عرصے کے بعد اس تیل کے مزید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ مگر تین چار سال گزرنے کے بعد اس کے نتائج بہ ظاہر نظر نہیں آئے تھے۔اُن کے مطابق اِس بات کے خدشات موجود ہیں، کیوں کہ دیگر ممالک میں جہاں بھی ایسا کوئی واقعہ ہوا اس کے نتائج بعد میں سامنے آئے ۔

ماہرینِ قانون کے مطابق دنیا میں سول لبرٹی کنونشن موجود ہے جس کے کئی ممالک رکن ہیں۔اس کے تحت کسی ملک کا تیل بردار بحری جہاز کسی ملک کے سمندر کو آلودہ کرتا ہے یا تیل خارج کرتا ہے تو اسے اُس کا معاوضہ ادا کرنا پڑے گا۔مگر پاکستان نے اس کنونشن پر دست خط نہیں کیے جس کی وجہ سے تسمان اسپرٹ کےحادثے میں وہ معاوضے سے محروم رہا۔ماہرِ ماحولیات طاہر قریشی کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے کوئی پالیسی یا پلان نہ بنایا تو آئندہ بھی ایسے حادثات رُونما ہو سکتے ہیں۔

تیل کی آلودگی سے تمر کے جنگلات کا نقصان بہت خطرناک ہوتا ہے۔جھینگے اپنی عمر کا ابتدائی حصہ تمر کی جڑوں میں گزارتے ہیں۔یہ آلودگی انسانوں کے ساتھ ساتھ سمندری وسائل پر بھی بد ترین اثرات مرتب کر رہی ہے جن میں سرفہرست سمندری خوراک اور ساحلی جنگلات ہیں۔ہمارے بیش قیمت سمندری وسائل میںتمر کے سدا بہار درخت، مونگے کی چٹانیں، مچھلیوں کی سیکڑوں اقسام اور دیگر متفرق آبی حیات شامل ہے۔ماہرین کے مطابق بحیرہ عرب کے سمندری وسائل کو شدید نقصاں پہنچا ہے۔ یہ اس لحاظ سے بھی منفرد اور مفیدہے کہ اس کے پانی میں کاربن اضافی مقدارمیں موجود ہے جو اس علاقے میں پیداواری افزائش کے عمل کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔

ماہرین کے مطابق کار بن کی یہ مقدار ایک اعشاریہ پانچ سے ایک اعشاریہ چھ اسکوائر سینٹی میٹر روزانہ ہے۔ یہ مقدار دنیا کے دیگر سمندروں اور خود بحیرہ عرب کے دیگر حصوں سے دس فی صد زیادہ ہے۔

سمندری وسائل میں اہم ترین وسائل اس کے کنارے پر موجود ساحلی جنگلات اور ان میں پرورش پانے والی آبی حیات ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مچھلیاں جھینگے اور کیکڑے اس کی برآمدی معیشت کا ایک عنصر ہے۔پاکستان میں تمر کا ماحولیاتی نظام دریائے سندھ کے ڈیلٹا، سندھ، بلوچستان کے ساحل، زیریں سندھ کے ٹھٹھ، بدین کے ساحلی اظلاع سے لےکر بھارت کی سرحد تک پھیلا ہوا ہے۔تسمان اسپرٹ سے بہنے والے تیل کی آلودگی سے صرف کراچی کے ساحل پر موجود چونسٹھ ہزار ہیکٹر پر مشتمل تمر کے جنگلات بہ راہ راست خطرے کی زد میں آئے۔تمر کے جنگلات سمندری حیات کی مختلف انواع کے لیے نرسری یا پرورش گاہ کا کام کرتے ہیں۔ تاہم جھینگوں کی تمام اقسام اور مچھلیوں کی ایک بڑی تعداد کی افزائش مکمل طور پر ان جنگلات کی محتاج ہوتی ہے۔جھینگے پاکستان کی برآمدات کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ سندھ کےساحل سے ان کے پکڑے جانے کی شرح اوسطاً چوراسی ٹن فی کلو میٹر ہے۔ ایک محتاط اندازے کی مطابق دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے علاقے میں موجودتمر کے جنگلات سے جو مختلف اقسام کی مچھلیاں حاصل ہوتی ہیں ان کی مالیت تقریباً دو کروڑ ڈالر سالانہ ہے۔ ان ہی علاقوں سے چھوٹا جھینگا بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کی مالیت سات کروڑ ڈالر سالانہ ہے۔ جب کہ اس کی برآمدی قیمت اس سے زیادہ ہے۔

یادرہے کہ دنیا کے اسی فی صد تیل بردار بحری جہاز پاکستان کی سمندری حدود سے گزرتے ہیں، اُن میں سے تیل بہتا بھی ہے اور وہ اپنا فرنس آئل یا انجن آئل یہاں پھینک کر چلے جاتے ہیں۔ مگر اربابِ اختیار کو کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ وہ اُن سے کہیں کہ اس کا ٹیکس ادا کریں، اور یہ رقم آبی حیات اور اس سے وابستہ لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے۔

تازہ ترین