• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انکار کی ایک صورت تو حبیب جالب نے بیان کی تھی۔ میں نہیں مانتا… فیض صاحب کا آوازہٴ پیکار مختلف تھا۔ کرو کج جبیں پہ سرِ کفن… فیض اور جالب نے جبر اور ناانصافی کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔ دونوں کو حرف انکار کی پاداش میں قید و سلاسل کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم قوم کے سیانے بزرگوں نے اپنے ہونہار بچوں کو یہی تلقین کی کہ اچھے بچو! عمدہ زندگی گزارنے کا سلیقہ یہ ہے کہ کسی اعلیٰ تعلیمی ادارے سے سند لو، اچھی سی نوکری اختیار کرو، کسی بڑے گھرانے میں شادی کرو، اقتدار کی دھوپ پر نظر رکھو، اپنے لئے سائے کا بندوبست کرو۔ پھر اگر طبیعت مائل ہو تو کسی خوشگوار شام میں شاعروں کے انقلابی کلام سے لہو گرم کرنے میں ہرج نہیں۔ اس سے لوگ تمہیں صاحب دانش خیال کریں گے۔ ضمیر کا فشار قابو میں رہے گا۔ ہماری تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ کم از کم اس معاملے میں ہم نے بزرگوں کی اطاعت کا اچھا نمونہ پیش کیا ہے۔ ہم نے یکے بعد دیگرے آمریتوں کے ہاتھ مضبوط کئے۔ شعر فیض کا پڑھا مگر فیض رسانی کے سرچشموں سے صحبت گرم رکھی۔ آوازہٴ انکار کی قیمت زیادہ تھی، سو ہم نے اپنی قامت پر نظر کر کے حقائق، دلیل اور منطق سے انکار پر کمر باندھی ہے۔ اس میں پلّے سے کچھ نہیں جاتا۔ حب الوطنی پر اجارہ قائم رہتا ہے۔ اجتماعی مفاد پر ضرب لگتی ہے تو ہماری بلا سے۔ یہ وہ انکار نہیں جس کے سوتے حریت فکر سے پھوٹتے ہیں اور جس میں اعلیٰ انسانی قدروں کا اثبات ملتا ہے۔ ہمارے انکار کو دراصل ’انکار کی علت‘ کہنا چاہئے۔ ہم اپنی روح عصر سے انکار کرتے ہیں مثلاً یہ کہ سرد جنگ ختم ہوئے ربع صدی ہونے کو آئی، نظریاتی سیاست کا عہد گزر گیا۔ مکرمی عطاالحق قاسمی نے اگلے روز کیسی پتے کی بات کہی ”اب نظریئے کا نہیں، اصول کا زمانہ ہے“۔ تجربے نے سکھایا ہے کہ نظریہ انسانی اجتماع کی پیچیدگی کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے ایک بنے بنائے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے ۔ زندگی کی قوت نمو آگے نکل جاتی ہے، نظریہ پیچھے رہ جاتا ہے اور ناکام ہو جاتاہے۔ اصول فرد کی سطح پر قول اور فعل کو قابل پیش گوئی بناتا ہے لیکن قوموں اور گروہوں میں اصول کی بجائے مفاد کا سکہ چلتا ہے۔ ادھر ہم نے قوم کو ایسے نظریاتی گھن چکر میں ڈالا ہے کہ سوائے مستقل تصادم کے ہمیں کوئی راستہ نہیں سوجھتا۔ ہماری معیشت کمزور ہے اور علم کے میدان میں ہم کوتاہ ہیں چنانچہ تصادم میں ہمارا نقصان ہے۔ مفاد کو ہم لالچ اور حرص کے معنوں میں لیتے ہیں چنانچہ مفاد کا لفظ سنتے ہی ہماری کنوتیاں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ بھائی، دنیا میں ہر قوم، گروہ اور طبقے کے مفادات ہوتے ہیں، سیاست میں ان مفادات کو تسلیم کر کے کوئی درمیانی راستہ نکالا جاتا ہے۔ سیاست کو ممکنات کا کھیل کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب شخصی مطلب براری نہیں ہوتا بلکہ متنوع گروہی مفادات میں پل باندھنا مراد ہوتا ہے۔ میں نے استاد محترم سے دریافت کیا کہ جدید اور قدیم منہاج میں بنیادی فرق کیا ہے۔ فرمایا کہ قدیم طریق یہ تھا کہ دنیا کو اپنی سوچ کی روشنی میں تبدیل کیا جائے۔ جدید اصول یہ ہے کہ معروضی حقائق کو دیکھتے ہوئے اپنے طور طریقوں میں ایسی تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے جو ہمیں زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کے قابل بنائے مگر پانی تو یہیں مرتا ہے۔ معروضی حقائق کو سمجھنے کے لئے ہمیں تاریخ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا ہو گا، اپنے تصورات کو نتائج کی روشنی میں پرکھنا ہو گا اور اس پر ہم تیار نہیں۔ اس سے کہیں آسان ہے کہ ہم اپنی تاریخ ہی سے انکار کر دیں۔ ہر ناکامی کو سازش کے کھاتے میں ڈال کر اپنے بری الذمہ ہونے کا اعلان کریں۔ کیا ہمارے نصاب کی کسی کتاب میں لکھا ہے کہ ہم نے اپنے بنگالی بھائیوں کے ساتھ کوئی زیادتی کی تھی؟ چار فوجی آمریتیں ہم نے دیکھیں،کیا ہم بچوں کو یہ بتانے پر تیار ہیں کہ ہمارے اہل دانش اور تعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت نے ہر آمریت کا خیر مقدم کیا، اسے جواز فراہم کئے اور شخصی مفادات کی فصل کاٹی۔ آج ایک پاکستانی نہیں ملتا جو ایوب خان کی بنیادی جمہوریتوں کے گن گائے۔ ”سیدھے سادے فوجی جوان“ یحییٰ خان کی توصیف کرے۔ ضیاالحق کو ”مرد مومن، مرد حق“ قرار دے۔ پرویز مشرف کی ”بے خوف قیادت“ کے بارے میں وہی نعرہ بلند کرے جو اپریل 2002ء میں کیا تھا ”ہمارا صدر کیسا ہو، پرویز مشرف جیسا ہو“۔ بظاہر تو یہ نہایت قابل تعریف تبدیلی ہے۔ ہم نے اجتماعی طور پر تسلیم کر لیا کہ آمروں نے قوم کو نقصان پہنچایا مگر صاحب ہم نے آمریت کو رد نہیں کیا۔ یہ جو ٹیکنوکریٹ بندوبست کے شوشے چھوڑے جاتے ہیں۔ ضمنی انتخابات کا تجزیہ کرتے ہوئے جمہوری نظام ہی پر عدم اعتماد کیا جاتا ہے ، اس کا مطلب ہے کہ آمریت سے ہماری امیدیں ختم نہیں ہوئیں۔ کیسا غضب ہے کہ ایک صاحب کے گھر کے سامنے سڑک تعمیر نہیں ہوئی تو وہ پھاوڑا اٹھا کے اس شاہراہ ہی کو کھودنے پر آمادہ ہیں جو عوام کے ووٹوں سے تعمیر کی جاتی ہے۔ ہم مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کے نتائج سے آگاہ ہیں مگر بلوچ ہم وطنوں کے زخم سینے پر توجہ نہیں دیتے۔ ہم قاضی حسین احمد اور حامد میر پر حملے کی مذمت تو کرتے ہیں، ہم نے انتہا پسندی کو رد نہیں کیا۔ ہم تو اس فکر میں ہیں کہ قاضی صاحب پر حملہ کرنے والی خاتون کا لاشہ اپنے گاؤں سے باہر کسی کھیت میں ڈال آئیں تاکہ ہمیں اپنی گلی میں اس کے ساتھیوں کی تلاش کے ناخوشگوار جھنجھٹ سے نجات ملے۔ بات یہ ہے کہ ہم واقعے کی مذمت کرنے میں تو تامل نہیں کرتے لیکن واقعے کے پس پشت کار فرما سوچ پر نظرثانی کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ واقعہ پالیسی کے نتیجے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو ہو چکا ، اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی مذمت اسی صورت میں بامعنی ہو سکتی ہے جب واقعے کی طرف لے جانے والی سوچ کو تبدیل کیا جائے۔ بس یہی وہ نکتہ ہے جہاں ہمارے حلق سے نعرہ بلند ہوتا ہے ، میں نہیں مانتا۔ صاحب یہ آوازہٴ انکار نہیں، یہ تو انکار کی علت ہے۔
تازہ ترین