• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میں گورننس کے معاملات عرصہ دراز سے ایسے نہیں کہ انہیں قابل فخر کہا جاسکے۔ عشروں سے سیاسی اور غیر سیاسی حکمراں پولیس سمیت اہم محکموں میں من پسند افراد تعینات کرتے رہے ہیں جبکہ مرکز کی طرف سے بعض تقرریوں پر صوبائی حکمرانوں کے مثبت یا منفی ردعمل میں دونوں مقامات پر برسراقتدار حکومتوں کے طرز فکر کی یکسانیت اور عدم یکسانیت کا بھی دخل رہا ہے۔ صوبہ سندھ میں پولیس کے ایک سربراہ کے سابق مرکزی حکومت کی طرف سے تقرر، صوبائی حکومت کی طرف سے ایک سے زائد بار ہٹائے جانے اور عدالتی حکم پر بحال کئے جانے کی مثالیں بہت زیادہ پرانی نہیں۔ اسی طرح ایسی مثالیں بھی سامنے آتی رہی ہیں جن میں ایک فرد ’’گڈبک‘‘ سے ’’بیڈبک‘‘ میں یا ’’بیڈبک‘‘ سے ’’گڈبک‘‘ میں چلا جاتا ہے۔اس کی مختلف تاویلیں بھی سامنے آتی رہی ہیں۔ صوبہ پنجاب میں ماضی قریب میں اس نوع کے دو واقعات دیکھے گئے ۔ ملکی مفادات کے تحفظ اور معاملات کو جانچنے کے لئے حکمرانوں کی سوچ جو بھی ہو، ضروری نہیں کہ عدلیہ کا زاویہ نگاہ بھی وہی ہو۔ اسلئے کہ عدلیہ ہر معاملے کا جائزہ قانونی تقاضوں اور مقررہ ضابطوں کو سامنے رکھتے ہوئے لیتی ہے۔ منتخب حکمراں اپنی بصیرت کے مطابق فیصلے کرنے کا حق رکھتے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کے قانونی طریقوں اور ضابطوں سے مبرّا بہرحال نہیں۔ عام مقدمات میں بھی دیکھا گیا ہے کہ کوئی ایک یا دوسرا فریق عدلیہ کے فیصلے پر نظرثانی کی ضرورت محسوس کرتا ہے تو اس کے سامنے عدالت کے روبرو اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کا ایک راستہ موجود رہتا ہے۔ حکمرانوں پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ خود کو عوام کے سامنے قانون کی بالادستی پر یقین و اعتماد کے نمونے کے طور پر پیش کریں۔ جہاں عدالت سے نظرثانی کیلئے رجوع کی ضرورت محسوس ہو، وہاں نظرثانی کی درخواست ضرور گزاریں۔ پھر عدالت سے اس استدعا کے حق میں یا اس کے خلاف جو بھی فیصلہ صادر ہو اسے خوشدلی سے قبول کرنے کی مثال قائم کریں۔ درحقیقت تبدیلی کے ایجنڈے کا سب سے اہم نکتہ یہی طرز فکر، قوت برداشت اور اپچ ہے۔ جبکہ اچھے نظم و نسق کی علامت بھی یہی ہے کہ حکمراں اپنی سوچ اور مصلحتوں کو آئین و قانون کے تابع کریں۔ جہاں نافذ العمل قوانین اور ضابطے وقت کے تقاضوں، ترقی کی رفتار اور عوامی امنگوں سے ہم آہنگ نظر نہ آئیں وہاں نئی قانون سازی کریں۔ وفاقی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور صوبائی اسمبلیوں کی تشکیل کا مقصد بھی یہی ہے کہ وقت کی ضرورت کے مطابق مرکز اور صوبوں میں نئی قانون سازی ہوتی رہے۔ اس ضمن میں اچھا ہوتا کہ اب تک قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل مکمل ہوجاتی اور نئی قانون سازی کا کام آگے بڑھتا نظر آتا۔ اس ضمن میں یہ بات نظرانداز نہیں کی جانی چاہئے کہ داخلی اور خارجی امور کے مختلف پہلوئوں پر حکومت کی پالیسی نہ تو مبہم ہو نہ وزرا کی ظرافت طبع کی نذر کردی جائے۔ ایک ہی موضوع پر وزرا کے الگ الگ اور متضاد بیانات سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ حکومت کے پاس متعلقہ موضوع پر کوئی واضح اور سنجیدہ پالیسی نہیں۔ متعدد ملکوں میں پالیسی بیانات لکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ بیانات سربراہ حکومت خود جاری کرے یا کسی اور کو اس کا اختیار دے، ان کا ہر لفظ ایسا جچا تلا ہونا چاہئے جسے حکومت کی سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ سمجھا جاسکے۔ گڈ گورننس کے حوالے سے یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اچھی حکومت کا چہرہ شہروں کی صفائی و ستھرائی اور اسپتالوں سمیت عوامی سہولت کے اداروں کی اچھی کارکردگی میں نظر آتا ہے۔ موجودہ حکومت کو چیف جسٹس آف پاکستان کے ان ریمارکس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے جن میں خیبرپختونخوا کے اسپتالوں کے سندھ سے بدتر ہونے کی بات کی گئی ہے۔ جس ملک میں پٹرول، گیس اور بجلی کے نرخ بڑھاکر مہینے میں کئی کئی بار بجٹ پیش کرنے کی ریت ہو، اس کی حکومت کو بار بار جائزہ لینا چاہئے کہ جن ملکوں میں سال بھر میں ایک ہی بجٹ پیش کیا جاتا ہے وہاں کے وزرا اور اکنامک منیجرز کیسے ہوتے ہیں؟

تازہ ترین