• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب بھی پاک روس تعلقات کی سرد مہری کی بات ہوتی ہے ، پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا حوالہ ضرور آتا ہے کہ ماسکو کے دورے کی دعوت ٹھکرا کر واشنگٹن چلے گئے تھے اور یوں ہم نے ابتدا ہی میں روس کو ہمیشہ کے لئے ناراض کر لیا تھا۔ معروضی حقائق کو جانے بغیر لیاقت علی خان کی اس ”غلطی“ کا ذکراکثر لوگ کرتے ہیں جن میں عام آدمی سے لیکر اچھا بھلا پڑھا لکھا اور دانشور طبقہ بھی شامل ہے۔ قوم کا یہ انداز فکر درست نہیں۔ 16/اکتوبر 2012ء کو روزنامہ جنگ کی اشاعت خاص میں قائد ملت کے یوم شہادت کے موقع پر چھپنے والے ایک مضمون میں بھی اس غلطی کو یہ کہتے ہوئے دہرایا گیا ہے کہ ”روس کی دعوت پر ماسکو نہ جانا اور امریکہ چلے جانا غیر جانبداری کے دعووں کے منافی تھا“۔ اس موضوع پر راقم کی اپنی ریسرچ ہے جس کے مطالعے سے حقیقت حال کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
پاکستان بنا تو انسانی اور مادی وسائل کی کمی کے سبب ہم بہت تھوڑے ملکوں کے ساتھ دوطرفہ سفارتی تعلقات قائم کر سکے اور ایک ایک پاکستانی سفارت خانے کو متعدد ممالک کے ساتھ رابطے کی ذمہ داری نبھانا پڑی تھی۔ روس پاکستان ایمبیسی تہران کے حوالے تھا۔ دو برس بعد اکتوبر 1949ء میں یہ ذمہ داری پاکستان ہائی کمیشن دہلی کو منتقل کر دی گئی۔ واشنگٹن میں البتہ سفارت خانہ موجود تھا۔ جہاں قائد اعظم کے قریبی ساتھی ابوالحسن اصفہانی سفیر تھے۔ مئی 1949ء میں لندن میں دولت مشترکہ کے وزرائے اعظم کی کانفرنس ہوئی جس میں لیاقت علی خان نے بھی شرکت کی۔ واپسی قاہرہ، بغداد اور تہران کے راستے ہوئی۔ ایک منجھے ہوئے سیاستدان اور قائد اعظم کے قریبی ساتھی راجہ غضنفر علی خان تہران میں بطور سفیر متعین تھے اور اپنی صوابدید پر قائم مقام روسی سفیر کے ساتھ وزیر اعظم پاکستان کے دورہٴ روس کے امکانات پرغیر رسمی گفتگو کر چکے تھے۔ لیاقت علی خان نے تہران میں مقیم سفراء کیلئے عشائیہ دیا تو اس میں روسی نمائندہ بھی موجود تھا۔ سفیر پاکستان نے موصوف کا لیاقت علی خان سے تعارف کراتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کو روس کا دورہ کر کے خوشی ہوگی۔ تیرنشانے پر لگا۔ ماسکو سے ابتدائی جواب صرف پانچ دن میں موصول ہو گیا۔ صدر مملکت جوزف اسٹالن کی طرف سے باقاعدہ دعوت نامے کو بھی دیر نہ لگی، جو ایک ماہ کے اندر 4 جون 1949ء کو تہران میں پاکستان سفارت خانے کے حوالے کر دیا گیا۔ وزیر اعظم نے دعوت بخوشی قبول کر لی۔
دورے کی تاریخ کے تعین کی بات چلی تو ماسکو کی طرف سے وسط اگست کی تاریخ دی گئی۔ جس پر انہیں بتایا گیا کہ یوم آزادی کی تقریب کے سلسلے میں 14/ اگست کو وزیر اعظم کا ملک میں رہنا ضروری ہے جواباً پاکستان نے نومبر کے پہلے ہفتے کی بات کی تو انکشاف ہوا کہ یہ تو روس کے جشن آزادی کے دن ہوتے ہیں، جب ہفتہ بھر روٹین کی زندگی ٹھپ ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس پر طے یہ ہوا کہ وزٹ سے پہلے دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات قائم ہو جانا چاہئیں۔ جس پر پاکستان نے فوری اور پُرجوش ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مدبر اور متین شخصیت شعیب قریشی کو ماسکو میں سفیر متعین کر دیا۔ جنہیں فوری کوچ کا حکم ملا اور ادھر ادھر سے عملہ جمع کر کے21 دسمبر1949ء کو ماسکو میں سفارت خانہ کھول دیا گیا۔ حکومت پاکستان بالخصوص وزیر اعظم لیاقت علی خان کا جوش و جذبہ دیدنی تھا۔ فی الحقیقت وہ تو آزاد پاکستان کے لئے ایک مناسب ڈویلپمنٹ ماڈل کی تلاش میں تھے جس کے لئے سوویت یونین کی اقتصادی، صنعتی، زرعی، تعلیمی،طبی منصوبہ بندی اور ترقی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ روسی سلطنت میں شامل سینٹرل ایشین ریپبلکس کے وزٹ میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ نہایت دھیان اور توجہ سے دورے کی جزئیات طے کی گئیں۔ بیس رکنی وفد کو وزیر اعظم کے ہمراہ جانا تھا جس میں سرکاری اور غیر سرکاری شعبوں کی نامور شخصیات شامل تھیں۔ پروگرام یہ تھا کہ مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کا جائزہ لے کر موقع پر ہی معاہدے طے کئے جا سکیں گے۔ لیفٹیننٹ کرنل صاحبزادہ یعقوب خان کو خاص طور پر شامل وفد کیا گیا (جو روسی زبان کے ماہر ہیں اور بعد میں پاکستان آرمی میں لیفٹیننٹ جنرل اور حکومت پاکستان میں وزیر خارجہ کے منصب تک پہنچے) ان کے بارے میں وزیر اعظم نے اپنے قلم سے فائل پر لکھا کہ وہ ترجمان کی حیثیت سے میرے ہمراہ چلیں گے۔ حکومت پاکستان کا جوش و جذبہ ملاحظہ ہو کہ سوویت حکومت کو بھی سفیر کے فوری تقرر کے لئے لکھا۔ یہی نہیں بلکہ سفیر کے لئے فری رہائش کی پیشکش بھی کی، جواباً سوویت حکومت کی طرف سے سرد مہری کے سوا کچھ نہ تھا۔ ماسکو میں سفیر پاکستان شعیب قریشی کو حتی الامکان نظر انداز کیا گیا۔ حسب ضابطہ سربراہ مملکت اسٹالن نے ان سے اسناد سفارت وصول نہ کیں، جب کہ اس سے قبل وہ انڈین سفیر ڈاکٹر رادھا کرشنن کو یہ ا عزاز دے چکے تھے۔
سفیر پاکستان کو شرف ملاقات سینئر ڈپٹی فارن منسٹر گرومیکو نے بخشا اور بے دلی سے اسناد سفارت وصول کیں۔ روایتی گفتگو میں سفیر پاکستان نے کہا کہ حکومت نے انہیں جلد از جلد ماسکو پہنچنے کی ہدایت کی تھی تاکہ وزیر اعظم لیاقت علی خان ان کی دعوت پر سوویت یونین کا فوری دورہ کر سکیں۔ جواباً گرومیکو نے کچھ اس قسم کا تاثر دیا کہ گویا ایسے کسی دعوت نامے کا وجود ہی نہ ہو۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے نومبر کا پہلا ہفتہ وزٹ کے لئے ماسکو کو قبول نہ تھا مگر پاکستان کی مسلسل یاد دہانیوں کے باوجود متبادل تاریخ نہیں دی گئی۔ وزیر اعظم اور ان کے وفد کے پاسپورٹ دہلی میں مقیم پاکستان کے ہائی کمشنر کو بھجوا دیئے گئے تاکہ روسی سفارت خانہ سے ویزا لگوایا جا سکے، جو بوجوہ نہ لگ سکا اور پاسپورٹ ویزا کے بغیر لوٹا دیئے گئے۔ ظاہر ہے ان حالات میں وزیر اعظم پاکستان شدید خواہش کے باوجود ماسکو نہ جا سکے۔
دوسری طرف امریکی فرنٹ ملاحظہ ہو۔ صدر ہنری ٹرومین نے مئی 1949ء میں وزیر اعظم ہند جواہر لال نہرو کو دورہٴ امریکہ کی دعوت دی اور یہ وزٹ اکتوبر کے مہینہ میں ہوا۔ اسی دوران اگست 1949ء میں پاکستان کے وزیر خزانہ غلام محمد سرکاری دورے پر امریکہ گئے جہاں وزیر اعظم پاکستان کے مجوزہ دورہٴ روس اور وزیر اعظم انڈیا کی امریکہ یاترا کا بھی ذکر ہوا اور امریکہ نے وزیر اعظم پاکستان کو بھی مدعو کرنے کا عندیہ دیا۔ باقاعدہ دعوت نامہ10 دسمبر 1949ء کو موصول ہوا اور وزٹ مئی1950ء میں ہوا جبکہ لیاقت علی خان کا سوویت یونین کے دورہٴ کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا جس کے لئے ہمارے مورخین، محققین اور دانشور انہیں مورد الزام ٹھہراتے آئے ہیں اور اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ موصوف ماسکو کے دورے کی دعوت رد کر کے واشنگٹن چلے گئے تھے جو واقعتا درست نہیں۔
تازہ ترین