• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند دن پہلے اپنے آبائی شہر بورے والا جانے کا اتفاق ہوا۔ اسلام آباد سے فیصل آباد تک موٹر وے کا سفرہمیشہ بہت لطف دیتا ہے اور پاکستان میں اتنی آرام دہ اور کشادہ سڑک بنانے والے ان تمام افراد اور شخصیات کیلئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں(ماسوائے ان لوگوں کے جنہوں نے حسبِ سابق اورحسبِ عادت اس پراجیکٹ کومالی بد عنوانی کا ذریعہ بنایا)، جن کی کاوشوں سے آج ایک عام پاکستانی کو یہ سہولت میسر ہے۔لیکن فیصل آباد سے بورے والا تک کا سفر بہت اداس کر گیا۔راستے میں جگہ جگہ شہید سپاہیوں کے بورڈ دیکھ کر دل کافی دیر بجھا بجھا سا رہا۔ ایسے بہت سے گاؤں تھے جنکی داخلی سڑکوں پر اس گاؤں کے شہیدوں کو خراج ِ تحسین پیش کرنے کیلئے انکے باوردی اور با تصویر بورڈ نصب کئے گئے تھے۔تشویش کی بات یہ کہ اس دفعہ ایسے بورڈز کچھ زیادہ ہی تعداد میں نظر آئے۔ یا تو پچھلے چند مہینوں میں ہمارے جوان بہت زیادہ تعداد میں شہید ہوئے ہیں یا پھر اس سے پہلے میں نے کبھی اس طرح کے بورڈوں پر زیادہ توجہ نہیں دی، کچھ سمجھ نہیں آئی۔
بلا شبہ اپنی مٹی کیلئے جان نچھاور کرنے والے ہر ایک شہید کیلئے کسی بھی محب وطن کی آنکھ کا اشکبار ہونا کوئی غیر متوقع بات نہیں ہے لیکن یہ حقیقت کہ پچھلے کچھ عرصے میں ہماری افواج کو بہت بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے ، میری اداسی کی صرف ایک ثانوی وجہ تھی۔میری پریشانی کی اصل وجہ کچھ اور تھی ۔ میرے ذہن میں ایک ہی سوال گونج رہا تھا کہ ہمارے یہ جوان کس دشمن کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوئے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ ان کو شہید کرنے والا ”دشمن“ انکے اپنے ہی گاؤں کا کوئی جہادی حریت پسند ہو، یا پھر انکے ساتھ والے گا ؤں یا ساتھ والے ضلع کا کوئی مجاہد ہو۔اس بات کا امکان بالکل رد نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے اس علاقے میں بہت وقت گزارا ہے اور میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ماضی میں ان علاقوں سے کتنے لوگ جہاد کیلئے جاتے رہے ہیں۔فیصل آباد کے مضافات میں ایک گاؤں ہے جس کے اتنے مجاہد شہید ہوئے تھے کہ اس کا نام ہی شہیدوں والا گاؤں پڑگیا تھا اور اس گاؤ ں کے لوگ اس بات پر بڑا فخر کرتے تھے کہ انکے گاؤں نے اتنے شہید پیدا کئے ہیں لیکن وہ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پہلے والے جہاد کے شہید تھے۔ آج ہماری افواج کے جوان اور انہی علاقوں کے مجاہد ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں اور نتیجہ دونوں اطراف سے ہمارے ہی نوجوان شہید ہو رہے ہیں۔
پاکستانی قوم اس وقت ایک تقسیم شدہ قوم کا منظر پیش کر رہی ہے ، یہ تقسیم نہ صرف ایک طرف ریاست اور دوسری طرف جہاد کی حمایت کرنے والے گروہوں کے درمیان ہے بلکہ یہ تقسیم ایک عام پاکستانی کے ذہین کے اندر بھی موجود ہے۔ایک طرف وہ پاک فوج کے شہید سے بھی ہمدردی رکھتا ہے اور دوسری طرف وہ اس حریت پسند مجاہد سے بھی ہمدردی رکھتا ہے جو اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جہاد میں مصروفِ عمل ہے۔ایک عام پاکستانی کا بٹا ہوا ذہن کوئی آج کے حالات کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ہمیں معاشرتی علوم کی کتابوں میں پڑھایا جاتا تھا کہ سید احمد شہید اور شاہ اسما عیل شہید نے راہ حق میں جہاد کیا اورا پنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ برصغیر کے تقریباً تمام مسلم تاریخ دانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان کا جہاد قابلِ تحسین تھا ، حالانکہ ان کا جہاد کسی ریاست کی طرف سے شروع کیا ہوا جہاد نہیں تھا بلکہ سکھوں کی طرف سے مسلمانوں پر ہونے والے مبینہ ظلم و ستم کے خلاف چند علمائے دین کی طرف سے شروع کیا گیا جہاد تھا۔ان کے جہاد کو بھی اسی طرح ایک خاص مذہبی مسلک کے علماء کی حمایت حاصل تھی (اور ایک دوسرے کے مسلک کی مخالفت کا سامنا تھا)جو پورے ہندوستان سے ان کے لئے افرادی قوت اور دیگر ضروریات کا انتظام کرتے تھے۔ٹھیک آج کے حالات کی طرح ان مجاہدین کے مدِ مقابل سکھوں اور انگریزفوج کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار کلمہ گو افغانی مسلمان بھی ہوتے تھے۔اسی جہاد کے دوران1830 ء کے آخر میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ان جہادیوں نے پشاورفتح کر کے اسلام کی اپنی تشریح کے مطابق وہاں اسلامی حکومت قائم کرکے قاضی اور تحصیلدار مقرر کر دےئے جو سید صاحب کے احکامات کے پابند ہوتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مقامی افغان مسلمانوں نے ان جہادیوں کا شریعت کا نظام ماننے سے انکار کر دیا اور پشاور اور اس کے گرد و نواح میں سید صاحب کے مقرر کردہ تمام قاضیوں اور تحصیلداروں کو ایک ہی رات میں بے دردی سے قتل کر دیا۔سید احمد شہید کے بعد مولوی نصیر الدین دہلوی، مولوی ولایت علی ،مولوی عنایت علی غازی اور مولانا عبداللہ عظیم آبادی نے جہاد کو ان علاقوں میں جاری رکھا۔ جہاد کا آخری دور انگریزوں کے خلاف تھا اور انگریزوں نے جہادی حریت پسندوں کی کارروائیوں کو بہت بری طرح کچل دیا۔ انہوں نے نہ صرف جہادی حریت پسندوں کے خلاف سخت فوجی کارروائیاں کیں بلکہ ان کے معاونین کی جائیدادیں ضبط کیں اور ان پر سازش کے مقدمے چلا کر سخت سزائیں دیں۔ ان مقدمات کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کو ”عمر قید کالا پانی “ کی سزائیں بھی سنائی گئیں۔
جس طرح تاریخی حوالے سے یہ بات واضح ہے کہ برصغیر کے مجاہدین کی تحریکو ں میں ہمیں اسلام کے تصورِ جہاد اور غیر مسلموں کے تسلط کے خلاف جذبہ حریت پسندی کی آمیزش نظر آتی ہے اور مختلف ادوار میں مجاہدین کے مد مقابل قوتیں بھی تبدیل ہوتی رہی ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ دونوں اطراف سے مسلمانوں نے مسلمانوں کی گردنیں کاٹی ہیں۔ٹھیک اسی طرح آج کل کی جہادی سرگرمیاں بھی یہ ساری خصوصیات اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔میری نظر میں تو آج کا طالبان جہاد سید احمد شہید کے زمانے سے برصغیر میں مسلمانوں کے سیاسی زوال سے شروع ہونے والی اسی جہادی حریت پسندی کی تحریک کا تسلسل ہے ، جس کا محرک (مسلمانوں کا سیاسی زوال) آج تک وہیں کا وہیں ہے۔ صرف انگریز کے عروج کے زمانے میں اس تحریک میں چند عشروں کیلئے ٹھہراؤ آیا تھا اور پاکستان کے وجود میں آتے ہی یہ تحریک ایک دفعہ پھر زور پکڑنے لگی اور آج اس تحریک کا زور اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ہماری ریاست اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لانے کے باوجوداسکے سامنے بے بس محسوس ہو رہی ہے۔ اس تحریک کا ایک اور پہلوبھی غور طلب ہے ، اس محاذ پر ایک طرف انگریز حکومت کے ہاتھوں اپنی جائیدادیں ضبط کروانے اور عمر قید کالا پانی کی سزائیں پانے والوں کے فکری جاں نشین برسرِ پیکار ہیں اور دوسری طرف انگریز حکومت کی چاپلوسی کرنے اور انکی ایماء پر حریت پسندی کی جہادی و دیگر تحریکوں کو کچلنیپر انگریز حکومتوں سے جاگیریں پانے والے غدارانِ قوم کی اولادیں ہماری ریاست کے حاکموں کی شکل میں برسرِ پیکار ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت برصغیر کے مسلمانوں کے آقا انگریز تھے اور آج کل پاکستان کے مسلمانوں کا آقا امریکہ بہادرہے۔طالبان کی طرف سے جاری جہاد کے مستقبل قریب میں ختم ہونے کی کوئی صورت مجھے نظر نہیں آتی۔فرض کر لیں کہ کسی وجہ سے اگر طالبان تحریک کو ختم بھی کر دیا جاتا ہے توبھی جہادی حریت پسندی کی فکر زندہ رہے گی اور کوئی دوسری شکل اختیار کر لے گی۔لیکن اتنا ضرور ہے کہ اگر ہماری ریاست امریکہ کے ہاتھوں اپنے حقِ حاکمیت کو گروی رکھنے کے طرزِ عمل سے دستبرداری کا آغاز کر دے ، تو اس تحریک کے جذبات کافی حد تک ٹھنڈے ہو سکتے ہیں۔لیکن اسکی بھی کوئی صورت فی الحال نظر نہیں آ رہی۔اس وقت ہماری حکمران اشرافیہ کے جتنے بھی موجودہ اور متوقع قائدین ہیں ، سب کے سب اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ امریکہ بہت زور آور ہے اور پاکستان کے اوپر اسکے حقِ حکمرانی کو چیلنج کرناممکن نہیں۔ اوپر سے ان سب کی اخلاقی حالت یہ ہے کہ اللہ کی پناہ!!! اگر کوئی معجزہ ہو اور اسٹیٹس کو کی حامی حکمران اشرافیہ کا پاکستان سے دھڑن تختہ ہوجائے، تو بہتری کی کوئی صورت نکل سکتی ہے۔کیا ایسا ہو سکے گا؟؟ کیا وطن کی حفاظت کرنے والے پاک افواج کے جوانوں اور جہادی حریت پسندی کے مجاہدوں کی گردنیں ایک دوسرے کے ہاتھوں محفوظ بنانے کی کوئی صورت نکل پائے گی؟؟شائد اس کیلئے ایک بہت بڑے پیمانے کی تحریک کو جنم دینا ہوگا۔ لیکن 18کروڑ کی اس قوم میں ہے کوئی ایسا دیدہ ورجس کے لئے نرگس ہزاروں سال سے روتی رہی ہو؟؟ اس سوال کا جواب وقت پر چھوڑتے ہیں۔
تازہ ترین