• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا’’ بیوروکریسی کو عوامی نمائندوں کے سامنے جواب دہ بنناہوگا، اگر بیوروکریٹس نے ہی حکومت کرنی ہے تو پھر حکومت ان کے حوالے کر دیتے ہیں، انتخابات کرانے کی کیا ضرورت ہے ‘‘۔ایک منسٹر نے کہا کہ وہ افسر جس کے محکمے کووزیر اعلیٰ پنجاب کا ترجمان ہونا چاہئے تھاوہ اپنے دفتر میں بیٹھ کراُن کا مذاق اڑاتا ہے۔عثمان بزدار کو ابھی تک بیوروکریسی کے کچھ بزرجمہروں نے کیوں قبول نہیں کیا۔یہ بزرجمہر ابھی تک ذات پات ، برادری اور پرانی سیاسی وابستگیوں کے اسیر کیوں ہیں شاید اِس کا سبب کچھ وزراء بھی ہیں ۔وہ جو الیکشن کے دنوں میں کہا کرتے تھے کہ چیف منسٹری تو اپنی رکابی میں پڑی ہے ۔انہی میں کچھ لوگوں نے گورنر پنجاب کو وزیر اعلیٰ سے ٹکرانے کی کوشش کی مگر چوہدری سرور ذہین آدمی ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ آئینی حدود سے تجاوز کرنااچھا عمل نہیں ہوتا۔ان دنوں’’ شاہراہِ نیب ‘‘پر رش بہت بڑھ گیا ہے۔اکہتر سیاسی آفیسروں اورسیاسی سرمایہ داروں کے لشکرآ جا رہے ہیں ۔نواز شریف سے لے کر وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان تک۔

دوسری طرف خود نیب کے بڑوں کے لہجے میں اعتماد اور اعتبار کی کھنک بڑھتی جارہی ہے ۔یہ اعتماد اور اعتبار بلاوجہ نہیں ، سارک کے ایک حالیہ اجلاس میں نیب کی کاوشوں کو جس طرح سراہا گیا اور پاکستان کو سارک کے اینٹی کرپشن فورم کا بلا مقابلہ چیئرمین منتخب کیا گیا ۔اُس پر کسی بھی ادارے کا سربراہ بجا طور پر ناز کر سکتا ہے یہ اعزاز صرف جسٹس (ر) جاوید اقبال کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا اعزاز ہے تاہم تمام مخالفتوں ، سازشوں اور رکاوٹوں کے باوجود چیئرمین نیب نے اس دوران جس طرح اپنے عزم کا پرچم بلند رکھا اُس کی مثال بھی کم کم ملتی ہے ۔شکر ہے کہ چیئرمین نیب کوئی بیوروکریٹ نہیں ۔ویسے توبیورو کریسی نے ہر دور میں پاکستان پر حکومت کی ہے ،تاریخی طور پرجمہوریت کی تباہی کی ذمہ دار بیورو کریسی ہے جنہوں نے قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اس ملک پر قبضہ کرلیا،لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد غلام محمد ملک کے گورنرجنرل بنا دئیے جو بیورو کریٹ تھے وہ کئی سال تک حکمراں رہے۔ ان کے بعد بننے والے حکمراں سکندر مرزا بھی بیورو کریٹ تھے وہ سیکریٹری دفاع ہوا کرتے تھے ، چوہدری محمد علی بھی بیورو کریٹ تھے ۔یعنی ملک کو جمہوریت کی پٹڑی سے اتارنے والے یہی لوگ تھے ،انہی نے ملک کو اس مقام پر پہنچا دیا تھا کہ ایوب خان کو مارشل لا لگانا پڑا۔آخری بیورو کریٹ جسے صدرپاکستان بننے کا موقع ملا وہ صدر اسحاق تھے ۔بیورو کریسی عہدِ غلامی کی یادگار ہے۔یہ برصغیر میں برطانوی سامراج کی آخری نشانی ہے۔ آزادی کے بعد کافی عرصے تک گورنر پنجاب سر فرانسس موڈی صوبہ پنجاب رہے،سر فیڈرک برائون مشرقی پاکستان کےگورنر رہے، سر جارج کونگینگ صوبہ خیبر پختونخوا کے گورنر رہے۔تینوں برٹش بیوروکریٹ تھے،ان کے علاوہ بھی سات سینئر تر ین انگریز بیوروکریٹ ساٹھ کی دہائی تک پاکستان میں کام کرتے رہے ۔

حکومت کی رٹ قائم رکھنا بنیادی طور پر بیورو کریسی کا کام ہے۔ہمیشہ سے ایساہوا ہے کہ جب عدالت ِ عظمیٰ کوئی ایسا فیصلہ دینے لگتی ہے جس پر ردعمل کا خدشہ ہوتا ہے تو بیورو کریسی اپنا لائحہ عمل بنا کرایسے تمام اقدامات کرلیتی ہے جس سے احتجاج پوری طرح کنٹرول میں رہےیا ایسی جگہ ہو جہاں عوام کوکوئی تکلیف نہ پہنچے ،مجھے ایسا لگاہے جیسے عدلیہ اور انتظامیہ میں روابط بالکل رہے ہی نہیں اگر انہیں معلوم تھا کہ ایسا کوئی فیصلہ آنے والا ہے۔پھر بھی اُس نےکچھ نہیں کیا تو پھر یہ طے ہے کہ بیورو کریسی حکومت کو ناکام بنانے پر تلی ہوئی ہے۔میرا خیال ہے موجودہ حکومت بھی جب تک بھٹو کی طرح سینکڑوں کرپٹ اور نا اہل سیاسی افسروں سے نجات حاصل نہیں کرے گی نیا پاکستان وجود میں نہیں آ سکے ۔صدر پرویز مشرف نے بیورو کریسی کے اختیار کم کرکے کام چلا لیا تھا۔ڈی سی او کو ڈسٹرکٹ ناظم کے ماتحت کردیا گیا تھامگر ان کے بعد آنے والی حکومتیں پھربیورو کریسی کے دام میں آ گئیں اور وہ قانون منسوخ کرادیا۔وہ حکمراںجو بادشاہی کرنا چاہتے ہیں اُن کےلئے انگریزوں کی دی ہوئی طاقتور بیورو کریسی بہت فائدہ مند ہوتی ہے۔اگرچہ وزیر اعظم عمران خان کاکوئی ایسا ارادہ نہیں ہے مگر ان سے ایک غلطی ہو گئی ہے کہ انہوں نے جس شخص کو اپنا اسٹیبلشمنٹ کا ایڈوائزر بنا لیا ہے وہ بیوروکریسی کے اُس گروپ سے متعلق ہے جس کا نگہبان گزشتہ حکومت میں فواد حسن فواد تھا۔سو وہی بیورو کریسی بڑے بڑے عہدوں پر دوبارہ لگ رہی ہے جو ہمیشہ سےنون لیگ کے ساتھ ہے۔یہ شخصیت جب خیبر پختون خواہ میں تھی تو پرویز خٹک نے بڑی مشکل سے اسے واپس وفاق میں بھیجا تھا۔عمران خان کو چاہئے تھاکہ وہ کسی ایسی شخصیت کو اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے اپنا مشیر بنائے جو خود اسٹیبلشمنٹ کاحصہ نہ ہو ۔ جس کی بیوروکریسی میں اپنی دوستیاں اور دشمنیاں نہ ہوں ۔اس وقت جن بیورو کریٹ کو عہدوں پر لگایا گیا ہے ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں جن کےکورسز ابھی مکمل نہیں ہوئے ۔وہاں سے انہوں نےدوماہ بعد فارغ ہونا ہے مگرابھی سے پوسٹنگ کر دی گئی ہے ۔کئی اہم جگہوں پر بہت ہی جونیئر افسران کو لگا دیا گیا ہے ۔اس سلسلے میں پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اراکین اسمبلی نے وزیر اعظم سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ۔تقریباً تمام اراکین قومی اسمبلی بیورو کریسی کے خلاف پھٹ پڑے۔اس موقع پر عمران خان نے کہاکہ ’’ پاکستان سٹیزن پورٹل بیورو کریسی کی کارکردگی کا پیمانہ طے کرے گا‘‘اب دیکھتے ہیں عوامی شکایات پر بیوروکریسی میں کتنی تبدیلیاں ہوتی ہیں بیوروکریسی کے کردار کا اندازہ لگانے کےلئے یہی کافی ہے کہ پنجاب کے جب ایک کرپٹ ترین بیورکریٹ و احد چیمہ کو نیب نے گرفتار کیا گیا تو پنجاب کی تقریباًتمام بیورو کریسی نے اُس کرپٹ بیورو کریٹ کے حق میں قرارداد پاس کرنے کی کوشش کی ، ہڑتال کی ، سیکریٹریٹ کو تالے لگا دئیے ۔یہ سارے کام ڈی ایم جی گروپ نے کیا تھا جو اپنے آپ کو بہت اعلی تر سمجھتے ہیں ۔کتنے ستم کی بات ہے کہ اُن ا فسران کو ملازمتوں سے فارغ کرنے کی بجائے بڑے بڑے عہدے دئیے جارہے ہیں ۔

تازہ ترین