• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرت علی کرم اللہ وجہہ علم کے دروازے ہیں، ان کی عظمت کے حوالے سے بہت سی احادیث ہیں، ان کی شخصیت کا تذکرہ کئی چہروں کو بے نقاب کردیتا ہے۔ معاشرے کی اصلاح کے لئے ان کے ارشادات یقیناً سیاہ رات میں روشن چراغ کی مانند ہیں، آج میں ان کے دو اقوال کی روشنی میں اپنے معاشرے کو دیکھنے کی کوشش کروںگا مثلاً ان کا فرمان ہے کہ ’’زندگی کی اصل خوبصورتی یہ نہیں کہ آپ کتنے خوش ہیں بلکہ اصل خوبصورتی تو یہ ہے کہ دوسرے آپ سے کتنا خوش ہیں‘‘ دوسرا فرمان کچھ اس طرح ہے ’’تم کسی کے ساتھ بھلائی کرو، تمہیں اس کا بدلہ برائی کی صورت میں ملے تو سمجھ لو کہ تمہاری نیکی قبول ہوگئی‘‘۔

پتہ نہیں ہمارے حکمرانوں نے کبھی یہ اقوال پڑھے ہیں یا نہیں مگر میں ان اقوال کے آئینے میں حکمرانوں کا ’’چہرہ‘‘ پڑھ رہا ہوں، میں جانتا ہوں کہ میری زندگی اور موت کسی حکمران کے ہاتھ میں نہیں، عزت اور ذلت کے مقام بھی دنیاوی حکمرانوں سے کہیں دور ہیں۔ مذکورہ بالا اقوال میں سے پہلے قول کودیکھئے اور پھر سوچئے کہ ہم پر حکومتیں کرنے والے تو بہت خوش رہے، انہوں نے کبھی سوچا کہ کیا دوسرے لوگ ان سے خوش ہیں؟ موجودہ حکمران بھی ماضی کے حکمرانوں کی روش پر چل پڑے ہیں۔ بڑ ی بدقسمتی ہے کہ موجودہ حکومت کے حصے میں عوام دوست وزیر خزانہ نہ آسکا بلکہ ایک ایسا وزیر خزانہ براجمان ہے جس کے فیصلوں سے عوام دشمنی کی بو آتی ہے۔ اس وزیر خزانہ کے دور میں اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی، ڈالر تیزی سے بڑھا، گیس اور بجلی مہنگی ہوئی۔ چلو ان سب باتوں کو سابقہ حکومتوں سے منسوب کر بھی دیا جائے تو پٹرول کی قیمتوں کے بارے میں کیا کہا جائے گا، کیا یہ غریب عوام پرظلم نہیں؟ اب جبکہ ایک برادر اسلامی ملک سے تیل کے سلسلے میں سہولیات بھی مل چکی ہیں تو ایسے میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ سمجھ سے باہر ہے۔ یہ غریب دشمنی ہے، اس سے مہنگائی کے طوفان میں مزید تیزی آئے گی۔ موٹر سائیکل سواروں کی مشکلات اپنی جگہ، غریب عوام کیلئے پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ بھی ہوگا، مہنگا پٹرول ظاہر ہے ٹرکوں کے لئے بھی مہنگا ہے، ایک شہر سے دوسرے شہر تک مختلف چیزوں کولے جانے والے ٹرک اب زیادہ کرایہ لیں گے۔ یہ سارا اثر عوام پر پڑے گا۔ کیا یہ سب کچھ عوام کی زندگیوں میں آسانی پیدا کرے گا، کیا موجودہ حکمرانوں کے اس عمل سے لوگ خوش ہوں گے؟ اگر آج پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہے تو کیا اس قرضے سے لوگوں کی زندگیوں میں آسانی آئی؟

نہیں صاحب! ایسا نہیں، پاکستان بہت اچھا ملک ہے، کاش اسے حکمران اچھے مل جاتے، اس کے سابقہ حکمرانوں نے اسے بہت لوٹا، لوٹ مار ہی سے پاکستان مقروض ہوا۔ سابقہ حکمران عوامی زندگیوں میں خوشیاں نہ لاسکے، رہے موجودہ حکمران تو وہ بھی پرانے حکمرانوں کی روش پر چل پڑے ہیں، وزیراعظم نہ سہی وزیر خزانہ تو چل پڑا ہے، کیسا انوکھا وزیر خزانہ ہے جو بات بات پر اپنے پیش رو اسحٰق ڈار کی تعریفیں کرتا ہے، کبھی اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہتا ہے کہ ’’احسن اقبال نے سی پیک کیلئے بہت کام کیا، میں ان سے تجاویز لوں گا، شاہد خاقان عباسی سے بھی تجاویز لوں گا‘‘۔ اگر آپ نے انہی پرانے لوگوں سے تجاویز لینی ہیں تو آپ خود کس مرض کی دوا ہیں یا پھر آپ کو آتا جاتا کچھ نہیں۔

مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے برصغیر پر 51برس حکومت کی، نصف صدی پر مشتمل اس حکومت کی کامیابی کا راز اکبر کے نو رتن تھے، اس کے یہ نو مشیر بہت لائق فائق تھے، کئی معاملات میں دنیا آج بھی مجبور ہے کہ وہ اکبر کے مشیروں کے متعین کردہ راستوں پر چلے مگر عمران خان اس حوالے سے بدقسمت دکھائی دیتے ہیں، ان کی ٹیم ہی میں ان کے دشمن چھپے ہوئے ہیں، ان کے وزیر خزانہ نے اڑھائی ماہ میں کوئی کام ایسا نہیں کیا جسے بھلائی کہا جاسکے۔

خواتین و حضرات! اگر میں برے عمل کو اچھا لکھوں تو یہ قلم کے ساتھ ظلم ہوگا اور اگر میں اچھے عمل کو برا لکھوں تو یہ بھی زیادتی ہوگی، قلم و قرطاس کے رشتے میں سارے لفظ خدائے لم یزل کے عطا کردہ ہیں، سب اسی کی امانت ہے تو کیا میں حکمرانوں کی خوشنودی کیلئے امانت میں خیانت کروں؟ نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا، خیانت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

ہمارے معاشرے میں ظلم ہوئے، میں کیسے کہہ دوں کہ یہاں ظلم نہیں ہوئے،کیا یہاں یتیموں اور بیوائوں کی جائیدادوں پر قبضے نہیں ہوئے، کیا یہاں میرٹ کا قتل نہیں ہوا، کیا اس معاشرے کے مسائل میں حکومتیں کرنے والوں نے اضافہ نہیں کیا۔ آج وہ کس منہ سے کہتے ہیں کہ ’’منشا بم اور نیب میں کوئی فرق نہیں‘‘۔ کیا آپ کے دور میں منشا بم نےظلم نہیں کیا تھا، کیا آپ کے عہد میں منشا بم نے لوگوں کی جائیدادوں پر قبضے نہیں کئے تھے اور کیا آپ منشا بم کو گرفتار کرنے میں ناکام نہیں رہے؟ منشا بم بھی آپ کا پیدا کردہ ہے، چیئرمین نیب بھی آپ نے لگایا۔ ظلم کی بانہیں دراز ہوتی ہیں اور ایک دن ظلم مارا جاتا ہے، رہی بھلائی تو عرصہ دراز سے حکمرانوں نے عوام سے بھلائی کی ہی نہیں، بقول منصور آفاق؎

اس نے میرے ہاتھ پہ رکھا تھا اک وعدہ

جاتے ہوئے کچھ اور مسائل چھوڑ گئی تھی

تازہ ترین