• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صبح سویرے اُٹھا، تو حسبِ معمول اپنے موبائل پر پیغامات پڑھنا شروع کیے۔ میرے دانش مند دوست جناب شفیق عباسی بڑی استقامت کے ساتھ مجھے کسی فلسفی کا فکر انگیز مقولہ، کوئی اچھا شعر اور کسی عظیم تاریخی حقیقت کا نچوڑ بھیجتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں قابلِ رشک علمی، ادبی اور تاریخی شعور سے مالامال کیا ہے اور وہ مجھے اپنی طرح سرگرم رکھنا چاہتے ہیں۔ اُس روز اُنہوں نے جون ایلیا کا شعر بھیجا تھا؎

خواب مہنگے بہت پڑے ہم کو

غم کی مقروض ہو گئیں آنکھیں

یہ عجب اتفاق تھا کہ میں ایک رات پہلے جون ایلیا کے شہر میں تین روزہ قیام کے بعد لوٹا تھا اور جو کچھ دیکھا، اس نے آنکھوں کو غم کا مقروض بنا دیا۔ میں اس کراچی کو تلاش کرتا رہا جسے میں نے سب سے پہلے 1958ء میں دیکھا تھا اور جہاں سے جون ایلیا کے جداگانہ لہجے کے اشعار دل میں اُتر جاتے اور زندگی کی اُمنگ پیدا کرتے تھے۔ یہ چاروں بھائی جن میں رئیس امروہی سب سے بڑے بھائی تھے، بہت ساری زبانوں کے ماہر تھے۔ اُنہوں نے شعر و ادب میں بڑے بڑے کارہائے نمایاں سرانجام دیے اور وہ اُردو زبان کا دامن جدید اور نادر خیالات سے وسیع کرتے رہے۔ ان کے گرد ادیبوں، شاعروں اور نقادوں کا ایک حلقہ بن گیا تھا۔ اسی زمانے میں جناب سلیم احمد کی فکری اور ادبی عظمت کا ڈنکا بجتا تھا۔ اُنہوں نے قلم کاروں اور دانش وروں کی ایک بڑی کھیپ تیار کی اور جناب سجاد میر جیسے عظیم ادب شناس پیدا کیے۔ ان دنوں کراچی کے بارے میں یہ عام تاثر تھا کہ وہ غریب پرور اور علم پرور شہر ہے۔ میں اِسی شہر کی تلاش میں سرگرداں رہا، مگر میری ملاقات علم سے زیادہ بلندوبالا پلازوں سے ہوتی رہی۔ ایک زمانہ تھا جب سی ایس ایس کے امتحانات میں کراچی کے طلبہ نمایاں پوزیشن حاصل کرتے اور ملکی انتظامیہ کے مضبوط ستون ثابت ہوتے، مگر پھر کچھ عناصر نے جوانوں کے ہاتھ میں قلم کے بجائے بندوق تھما دی اور چار دہائیوں تک یہ شہر خون میں نہاتا رہا۔ معاملات جب حد سے گزر گئے، تو سیاسی اور عسکری قیادت نے مجرموں کے خلاف آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا اور پانچ برس تک قانون نافذ کرنے والی قوتیں اپنی جانیں ہتھیلی پہ رکھ کر دہشت گردوں کے آگے ڈٹ گئیں۔ اِس آپریشن میں انٹیلی جنس ایجنسیوں نے غیرمعمولی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ اِن کاوشوں کے نتیجے میں کراچی بڑی حد تک پُرامن ہو گیا ہے، چنانچہ ہم نے رات کے دو تین بجے تک گاڑیوں کے قافلے رواں دواں دیکھے۔ یہ بھی دیکھا کہ کھانے پینے کے مقامات کے آس پاس گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور لوگوں کا ذوقِ نفاست دم توڑتا جا رہا ہے۔

کراچی پہنچتے ہی میں نے اپنے عزیز ترین دوست جناب نصیر احمد سلیمی کو فون کیا جنہیں میں پاکستان کی تاریخ کا انسائیکلوپیڈیا سمجھتا ہوں۔ اُن کے صحافیوں، ادیبوں اور شاعروں سے اچھے تعلقات ہیں۔ ان کے توسط سے خواجہ رضی حیدر اور جناب یوسف تنویر سے ملاقات ہوئی۔ خواجہ صاحب جنہوں نے علمی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا تھا، وہ تاریخ کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔ اُنہوں نے تیس سال کی عمر میں شہرۂ آفاق کتاب ’قائداعظم کے بہتر سال‘ لکھی جس کے سات ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اِن دنوں وہ قائداعظم اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل ہیں اور قوم کو بتاتے رہتے ہیں کہ قائد اعظم کا تصورِ پاکستان کیا تھا۔ اُنہی کے ہمراہ جناب یوسف تنویر سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ اُنہوں نے تخلیقی سطح پر ایک فن کار کی حیثیت سے خود کو نہایت انہماک سے متعارف کرایا ہے اور ڈیجیٹل مصوری اور کمپیوٹر کا تازہ ترین جمالیاتی اظہار اپنا کر ایک انفرادیت قائم کی ہے۔ اُن کی خودنوشت ’لکیروں کا سفر‘ قاری کا دل مسخر کرنے کے وصف سے مزین ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ ان کی زندگی کے بہت سارے سال جون ایلیا کی صحبت میں گزرے ہیں جنہوں نے احساسات کی دولت سے سرشار کیے رکھا۔ اُن کے عہد کا کراچی اہلِ جفا کی بےحسی میں ڈوبتا چلا جا رہا ہے۔ جون ایلیا کو دنیا سے رخصت ہوئے سولہ سال گزر چکے ہیں۔

جناب حسن امام نے ظہرانے پر دعوت دی اور درجن سے زائد صحافی اور اربابِ فہم جمع کر لیے۔ اُن سے میرا رشتہ بہت گہرا اَور پرانا ہے۔ نومبر 1971ء میں ہم دونوں ڈھاکہ سے کراچی آخری پرواز میں آئے تھے۔ کراچی میں وہ کے ایم سی میں ڈائریکٹر انفارمیشن رہے۔ صحافی برادری سے وہ جڑے ہوئے ہیں۔ کھانے کی میز پر صحافیوں سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ اُنہوں نے بتایا کہ فاضل چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی توجہ سے کراچی کے معاملات میں قدرے بہتری آ رہی ہے، مگر عمران خان کے اندازِ حکمرانی سے سنجیدہ حلقے سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔ میں نے کہا کہ تحریکِ انصاف انتخابات کے ذریعے برسرِ اقتدار آئی ہے، اِس لیے اُسے کام کرنے کا موقع دینا ہو گا۔ یہ عجب معاملہ تھا کہ ایک درجن صحافیوں میں سے ایک بھی جناب عمران خان کی سیاسی بصیرت پر اعتبار کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھا، حالانکہ اُن کا تعلق مختلف اخبارات سے تھا اور ان میں وہ بھی شامل تھے جو تحریکِ انصاف کے زبردست حامی رہے تھے۔ مجھے محسوس ہوا کہ ذہنی تبدیلی حیرت انگیز تیزی سے آ رہی ہے اور کراچی کے بطن سے کوئی بڑا واقعہ رونما ہو سکتا ہے۔

ایک دوپہر میں نے میجر (ر) عبدالواحد غوری کے ساتھ گزاری۔ اُن کے والد عبدالستار غوری جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کے رکن تھے اور ٹنڈوآدم یونین کونسل کے آٹھ سال چیئرمین رہے۔ میں 80کی دہائی میں جماعت اسلامی سندھ کے امیر مولانا جان محمد عباسی اور جناب نصیر احمد سلیمی کی معیت میں اُن سے ملنے ٹنڈو آدم گیا تھا۔ اُنہوں نے غیرمسلموں کی فلاح وبہبود کے لیے بڑے بڑے کام کیے تھے، یہی وجہ ہے کہ اُن کا جنازہ شہر کا سب سے بڑا جنازہ تھا جس میں ہندو برادری بھی شامل ہوئی تھی۔ میجر صاحب کے تین کورس میٹس کور کمانڈرز اور درجن سے زائد جنرل کمانڈنگ آفیسرز ہیں۔ اُن کا خیال تھا کہ موجودہ حکمرانوں کی گردنوں میں سریا ہے جس کے باعث انتظامی افراتفری پھیل رہی ہے۔ کراچی میں جو تجاوزات ختم کی گئی ہیں، اُن کی زد میں غریب آدمی ہی آیا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین