• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یو این ایچ سی آر اور حکومت کی جانب سے نومبر، دسمبر 2012ء تک افغان مہاجرین کی رضاکارانہ وطن واپسی کیلئے عارضی معاونتی پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے۔ ایسے تمام افغان مہاجرین خاندان جن کے پاس PRO کارڈز موجود ہیں اور وہ نومبر، دسمبر2012ء میں رضاکارانہ طور پر پاکستان سے واپس افغانستان جانا چاہتے ہیں ان کو UNHCR کی جانب سے اضافہ شدہ واپسی پیکیج پیش کیا جا رہا ہے ۔یہ پیکیج وطن واپس جانے والے خاندانوں کو صوبہ بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا میں بلیلی، چمکنی اور تیمرگرہ کے رضاکارانہ واپسی کے مراکز سے فراہم کیا جائے گا جبکہ سندھ میں کراچی شیڈولنگ سینٹر افغان بستی جونجھار گوٹھ ،گڈاپ ٹاؤن معاونت کرے گا۔1979ء سے شروع ہونے والی روسی مداخلت سے لیکر آج تک افغانستان میں امن و امان کا مسئلہ نہایت پیچیدہ رہا ہے اور سیاسی و معاشی مسائل کا لامتناہی سلسلہ تاحال جاری ہے۔ لاکھوں مہاجرین نے پاکستان میں پناہ حاصل کی خاص طور پر بلوچستان کے پانچ اضلاع میں7جنوری 1987ء تک کل 5,92,716/افراد کل 67 کیمپ میں منتقل ہوئے تھے جس میں صرف کوئٹہ میں 93,740 مہاجرین رجسٹرڈ ہوئے تھے۔گزشتہ دنوں پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سرحدی امور انجینئر شوکت اللہ کی جانب سے بھی پشاور میں افغان مہاجرین کے حوالے سے حکمت عملی کی پریس کانفرنس میں اس بات کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ افغانوں کی وطن واپسی کا عمل بدستور عزت اور رضاکارانہ ہوگا اور پاکستان کی نیک نامی اور قربانیوں کو ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا۔وہ اس عزم کا اعادہ کر رہے ہیں تو اس کی بنیادی وجوہات میں بالا امور ایک ٹھوس حقیقت بھی رکھتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین "یو این ایچ آر" کا کہنا اپنی جگہ درست ہوگا کہ افغان پناہ گزینوں کو دی جانے والی ضروری اشیاء میں مزید اضافہ اس لئے کیا جارہا ہے تاکہ مہاجرین کی واپسی میں تیزی آئے اور پاکستان کی جانب سے سال کے اختتامی ایام اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں کامیابی ہو لیکن زمینی حقائق اس کے برخلاف ہیں کہ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد جو پاکستانی شہریت حاصل کر چکی ہے ان کی واپسی کا عمل آسان نہیں ہوگا۔ اس سے قبل 1980ء میں قائم ہونے والا جلوزئی مہاجر کیمپ کو افغانوں نے 2008ء میں حکومتی ڈیڈ لائن کے باوجود خالی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ضلع نوشہرہ میں قائم جلوزئی کیمپ سے مہاجرین کی افغانستان کو واپسی کا عمل 2008ء میں شروع کیا گیا تھا اس وقت کیمپ میں مقیم اسّی ہزار سے زائد افراد میں سے چوہتر ہزار رضاکارانہ طور پر وطن واپس جاچکے تھے جبکہ اس وقت صوبائی و مرکزی حکومت کی ہدایت پر چھ سو سولہ ہنرمند خاندانوں کو قالین بافی کی صنعت کی وجہ سے کیمپ میں رہنے کی اجازت دی گئی کیونکہ حکومت قالین بافی کی صنعت کے فروغ سے پاکستانیوں کو تربیت کا اہتمام کرنا چاہتی تھی ۔اہم قابل ذکر بات یہ ہے کہ جلوزئی کیمپ افغان جہاد کے دوران عرب جنگجوؤں اور افغانستان کی سات جہادی تنظیموں کا اہم مرکز رہا ہے اس کیمپ میں عبداللہ عظام نے جہاد یونیورسٹی بھی قائم کی تھی جس میں جہاد سے متعلق فکری تربیت دی جاتی رہی اور خود عبداللہ عظام ، خالد شیخ کے بھائی عابد شیخ اور شیخ تمیم جیسے عرب مجاہدین رہنما جلوزئی کیمپ میں سپردخاک ہیں۔ حکومت اس سے قبل 2009ء تک تمام افغان کیمپ بند کرنے کا دعویٰ کرچکی تھی لیکن اقوام متحدہ کے ادارے این ایچ سی آر کے مطابق 2009ء تک ان تمام کیمپوں کو بند کرنا ممکن نہیں تھا ۔پاکستان میں دوملین کے قریب افغان مہاجرین کے ہونے کا کہا جاتا ہے جو غیر سرکاری اعداد و شمار سے بہت کم ہیں ۔پاکستان میں لاکھوں افغانی چاہے وہ رجسٹرڈ ہوں یا غیر رجسٹرڈ، اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کے ساتھ پاکستانی شہریت بھی حاصل کرچکے ہیں بلکہ لاکھوں افراد افغانستان اور پاکستان کے درمیان تجارت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ان کے لئے یہ ناممکن ہے کہ امن و امان سے ناپید افغانستان کی سرزمین میں واپس جا کر اپنے معاشی مستقبل کو خطرے میں ڈالیں ۔ خاص طور پر افغان مہاجرین کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ افغانستان میں نیٹو افواج کے موجودگی کے باوجود امن کی صورت حال بہتر ہو جائے گی۔
اگرافغانستان میں 2014ء کے الیکشن بروقت ہوجاتے ہیں اور ایسی حکومت کا قیام عمل میں آجاتاہے جو افغانیوں کو امن و سکون اور روزگار کا آئیڈیل ماحول فراہم کرسکے تو ممکن ہے کہ آبائی وطن ہونے کے سبب اپنے بزرگوں کے آگے سرتسلیم خم کر لیں لیکن پاکستان میں افغان مہاجرین کی دوسری نوجوان ایسی نسل موجود ہے جو پاکستانی ماحول میں رچ بس گئی ہے ۔ ان کی تعلیم و تربیت سمیت ان کا رکھ رکھاؤ بھی مقامی علاقوں کے مطابق ڈھل چکا ہے ۔ شہری آسودہ زندگی کے مقابلے میں افغانستان میں ماضی کی روایات، افغان گروپوں میں انتشار اور اقتدار کیلئے نہ رکنے والی خانہ جنگی کے مضمرات سے افغان نوجوان نسل آگاہ ہے اور وہ اپنی پُرامن زندگی کو خطرات میں ڈالنے کا رسک رضاکارانہ بھی لینے کے لئے تیار نہیں ہے کیونکہ نیٹو یا امریکی افواج کے انخلا کے باوجود خانہ جنگی کا خطرہ موجود رہے گا اور چاہے سیاسی عناصر ہوں یا مذہبی گروہ ، افغانستان میں امن کی صورت حال فوری طور پر بحال ہونے کے کوئی امکانات نہیں ہیں کہ افغان مہاجرین کی واپسی کامیابی کے ساتھ ممکن ہوسکے گی ۔
نئی نسل نے مقامی اسکولوں ، کالجوں میں تعلیم حاصل کرکے پاکستانی شہریت کو مستحکم کرلیا اس بنا پر افغان مہاجرین کے نام پر تمام افغانیوں کا انخلا بآسانی ممکن ہو سکے گا۔ دوسری جانب جہاں مقامی شہریت حاصل کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے تو پاکستان کے مرکزی اقتصادی شہروں میں تجارتی بنیادوں پر کپڑے، قالین کی تجارت پر افغانیوں کی اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کے باعث ممکن نہیں ہے کہ افغان مہاجرین رضاکارانہ طور پر وطن واپسی کے عمل میں کسی قسم کا تعاون کریں کیونکہ بنیادی طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ افغان مہاجرین کی لاکھوں کی تعداد نے جہاں وقتی طور پر رجسٹریشن کرائی لیکن پاکستانی اداروں میں کرپشن کی وجہ سے مقامی شناخت کو سہل انداز میں بھی حاصل کر لیا بلکہ ملکی سیاست میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ سابقہ ناظمین کے مقامی حکومت کے نظام میں افغانیوں کی بڑی تعداد نے نہ صرف ووٹر لسٹوں میں اندراج کرایا بلکہ ایک بڑی کثیر تعداد بھی یونین ناظم اور کونسلرز کی شکل میں منتخب ہوئی۔
ماضی کی حکومتیں افغان مہاجرین کو کیمپوں میں محدود رکھنے میں ناکام رہیں یا دانستہ غفلت برتی لیکن اس کے نتائج مقامی معیشت اور آبادی پر بُرے مرتب ہوئے ۔ غیر مقامی لاکھوں افراد کی آمد کے باعث پاکستان کی افرادی قوت کو بے روزگاری کا سامنا رہا اور کم اجرت کے باعث افغان مہاجرین کے کام کرنے کے رجحان نے مقامی آبادیوں کے مکینوں کو مشکلات سے دوچار کیا۔ جہاں پاکستانی عوام معاشی مسائل کا شکار ہوئے تو دوسری جانب امن و امان سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے ملکی سلامتی اور سیکورٹی کے خدشات بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے ایک چیلنج کا درجہ رکھتے ہیں۔ افغان مہاجرین ہمارے بھائی ہیں اور مصیبت میں کام آنا پڑوسیوں کا فرض بنتا ہے لیکن پاکستان جس اندوہناک صورت حال کا شکار اور شمالی مغربی سرحدیں غیر محفوظ ہیں اس صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ افغان مہاجرین کی رضاکارانہ و عزت مندانہ واپسی کے عمل میں زمینی حقائق کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے مستقبل کو بھی محفوظ بنانے کی حکمت عملی طے کی جائے۔ بہرصورت افغانی جس شکل میں پاکستان میں قیام پذیرہیں انہیں واپس جانا ہوگا کیونکہ یہ پاکستان کے استحکام اور معاشی و سماجی دشواریوں سے نکلنے کے لئے اہم ہے۔ افغانستان میں بدلتی صورت حال کے پیش نظر پاکستان میں مقیم تمام افغانیوں کو تحفظ کی فراہمی ان کے اپنے مملکت کی ذمہ داری ہے اور مستحکم مملکت کے لئے افغان عوام کو اپنے ملک جاکر ہی کردار ادا کرنا ہوگا۔ افغانستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے مختلف جنگیں جاری رہیں ہیں ۔ گروپوں کے درمیان خانہ جنگیوں نے سب سے زیادہ افغانستان کی عوام کو نقصان پہنچایا ہے لہٰذا اب افغانستان میں اپنی روایات و ثقافت کے تحفظ کے لئے ان لاکھوں افغان مہاجرین کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا جو اپنی سرزمین سے دور ہیں ۔ انہیں اپنے وطن واپس جاکر اپنی صدیوں کی تاریخ کو زندہ کرنا ہوگا۔
تازہ ترین