• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چھوٹے بھائی آج آپ مجھے بتا ہی دیں کہ اس مرتبہ کونسی پارٹی الیکشن جیتے گی۔ صوبوں میں کس کی حکومت بنے گی اور خاص طور پر پنجاب کا معرکہ کون مارے گا؟ان صاحب نے ایک ہی سانس میں یہ سارے سوالات کر ڈالے اور وہ یہ سوال کئی ہفتوں سے کر رہے ہیں۔ میرے ایک دوست کے چچا ہیں اور کبھی کبھی میرے دفتر آجایا کرتے ہیں۔ پنجاب میں ان کی کافی ساری زمینیں ہیں۔ بڑے شہروں میں کمرشل پلازے بھی ہیں۔ مجھے میرے نام کی بجائے ہمیشہ چھوٹے بھائی کہہ کر پکارتے ہیں۔ سیاست کا بے انتہا شوق ہے اور ہر ملاقات میں مجھ سے یہ پہلا سوال ضرور کرتے ہیں کہ الیکشن میں کونسی پارٹی جیتے گی؟سر آپ بار بار کیوں پوچھتے ہیں کہ کون سی پارٹی الیکشن جیتے گی، آپ بس اس پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دے دیجئے گا جس کو آپ اچھا سمجھتے ہیں اور آپ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پارٹی یا شخص جو الیکشن جیت کر ملک کی زیادہ اچھے طریقے سے خدمت کرسکے گا۔ ملک کو مسائل سے نکال سکے گا۔ میرا یہ جواب سن کر انہوں نے نیم غصے اور جھنجلاہٹ میں زور زور سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہاکہ چھوٹے بھائی۔۔ چھوٹے بھائی۔۔ تم نہیں سمجھو گے اور پھر وہ ہمیشہ کی طرح اپنی آواز کو دباتے ہوئے کہنے لگے چھوٹے بھائی وچلی گل سمجھو(اندر کی بات سمجھو) میں نے کہاکہ سر آپ نے کبھی ”وچلی گل“ سمجھائی ہی نہیں۔ آج آپ مجھے ”وچلی گل“ سمجھا ہی دیں۔ انہوں نے میرے آفس میں ادھر ادھر دیکھا کہ کہیں کوئی اورہماری بات سن تو نہیں رہا۔ تسلی ہونے پرکہنے لگے غور سے سنو۔۔۔!لیکن پھر کچھ یاد آنے پر کہنے لگے چھوٹے بھائی میں تجھے آج ”وچلی گل“ ضرور بتاؤں گا۔ پہلے تو بھی آج مجھے بتا ہی دے کہ الیکشن کونسی پارٹی جیتے گی، میں نے بھی ”وچلی گل“ جاننے کیلئے انہیں بتانا شروع کیا کہ ابھی وثوق سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کونسی پارٹی الیکشن جیتے گی لیکن میرے تجزیے کے مطابق عوام پیپلزپارٹی کے سخت خلاف ہیں لیکن پیپلزپارٹی کی اصل طاقت اس کا جیالاکلچر ہے، اتنی تنقید کے باوجود وہ اپنی پارٹی کو الیکشن میں ہارتا نہیں دیکھنا چاہتے اور ناراضی کے باوجود اپنی پارٹی کو ووٹ دے جاتے ہیں لیکن پھربھی عوام نے مہنگائی، بجلی، سی این جی اور اس طرح کے جو مسائل ان گزشتہ پانچ سالوں میں دیکھے ہیں، اس سے پیپلزپارٹی کے ووٹ بنک کو نقصان پہنچے گا۔
مسلم لیگ ”ن“ کے حالات بھی کچھ زیادہ اچھے نہ تھے کیونکہ عوام کا خیال ہے کہ مسلم لیگ”ن“ نے اس پانچ سالہ دور میں اپوزیشن کا کردار اچھی طرح نہیں نبھایا اور پیپلزپارٹی کی حکومت کی مبینہ کرپشن کے خلاف بات صرف اخباری بیانات تک رکھی ہے اور اس خدشے سے کہ پنجاب کی حکومت نہ چھن جائے، مسلم لیگ ”ن“ نے بھی ہتھ ہولا رکھا ہے لیکن ان ساری باتوں کے باوجود وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی محنت نے پارٹی کو بہت سنبھالا ہے اور عوام ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ ”ن“ کی طرف دیکھنے لگے ہیں اور پارٹی کے متوالوں کی ایک بڑی تعداد میاں نوازشریف سے محبت بھی کرتی ہے۔
تیسری سیاسی قوّت کے طور پر تحریک انصاف کو دیکھا جا رہا ہے جس نے گزشتہ کئی سالوں سے اپنی پوزیشن بہت بہتر بنائی ہے لیکن ان کی جس عوامی طاقت نے دوسری سیاست پارٹیوں کی نیندیں حرام کی تھیں اب وہ صورتحال تبدیل ہو گئی ہے ، لیکن ”کپتان“ کسی وقت آخری اوور میں وکٹیں لے کر میچ کو ایک مرتبہ پھر دلچسپ بنا سکتا ہے۔
اس سے پہلے کہ میں بات آگے بڑھاتا، ان صاحبنے بے قراری سے پوچھا مسلم لیگ”ق“ ۔۔۔۔میں نے بھی اسی اسپیڈ سے جواب دیا کہ مسلم لیگ ق ٹیم کا وہ بارہواں کھلاڑی ہے۔جو پسینہ خشک کرنے کیلئے تولیہ، پیاس بجھانے کیلئے پانی کی بوتل اور کسی تھکے یا ان فٹ کھلاڑی کو ریلیف دینے کیلئے کچھ دیر فیلڈنگ تو کرسکتا ہے لیکن اس کی آئندہ الیکشن میں کوئی مستقل پوزیشن نظر نہیں آرہی۔بلکہ عبوری حکومت کے آتے ہی ق کے کئی پرندے تتر بتر ہوسکتے ہیں اور باقی چھوٹی سیاسی جماعتیں حصہ بقدر جثہ حاصل کریں گی۔ میں خاموش ہو گیا اور ان کی طرف دیکھنے لگا کہ اب وہ خوش ہوکر مجھے ” وچلی گل“ بتا دیں گے لیکن وہ اب بھی مسلسل میری طرف دیکھ رہے تھے اور کہنے لگے چھوٹے بھائی اب یہ بھی بتاؤ نہ کہ الیکشن کون جیتے گا؟میں نے کہا کہ سر آپ کو بتا تو دیا ہے کہ میرے خیال میں الیکشن کی پوزیشن ابھی واضح نہیں ہے۔بس اب آپ کی باری ہے کہ آپ نے مجھے ”وچلی گل“ بتانی ہے۔
انہوں نے ایک مرتبہ پھر میرے آفس میں ادھر ادھر دیکھا کہ کہیں ہماری گفتگو تو نہیں سن رہا اور پھر قدرے میرے قریب ہوتے ہوئے کچھ کہنے لگے لیکن پھر رک گئے اور کہنے لگے چھوٹے بھائی یہ بتا کہ تیرا بھائی جھنڈے والی کار میں کیسا لگے گا؟میں ابھی ان کے سوال کو سمجھتے ہوئے جواب دینے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ کہنے لگے اگر پرویز مشرف نے بی اے کی شرط عائد نہ کی ہوتی تو آج تمہارا بھائی تمہارے پاس جھنڈے والی کار میں بیٹھا ہوتا۔اور میرے قریب ہوتے ہوئے رازداری سے کہنے لگے کہ اسی لئے تو جھوٹے بھائی آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ کونسی پارٹی جیتے گی کیونکہ اب بی اے کی شرط بھی ختم ہوچکی ہے بس میں نے پارٹی جوائن کرنی ہے ٹکٹ لینا ہے اور الیکشن جیت کر وزیر بننا ہے۔ میں ان کی ”وچلی گل“ سمجھ چکا تھا لیکن میں نے کہاکہ فوری طور پرکوئی بھی سیاسی پارٹی جوائن کرتے ہوئے آپ کو کون ٹکٹ دے گا؟ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ سب ہو جاتا ہے،آپ کے پاس نوٹ ہونے چاہئیں۔الیکشن میں لگانے کیلئے بھی اور اپنے لیڈر کوخوش کرنے کیلئے بھی پھر انہوں نے مجھے دوچار نام گنوائے کہ ان لوگوں نے کیسے پارٹی ٹکٹ حاصل کئے اور الیکشن بھی جیت گئے۔ وہ صاحب بات کہہ کر چلے گئے لیکن میں سوچ میں ڈوب گیا کہ کب تک ہمارے ملک میں ”وچلی گل“ والی سیاست چلتی رہے گی یا ان الیکشن میں تبدیلی آئے گی۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارا نوجوان ووٹر ”وچلی گل“ کی سیاست کو اب نہیں چلنے دے گا بلکہ اہل امیدواروں کو ووٹ دے کر ملک کی تقدیر بدلے گا۔ کیونکہ لیڈروں نے نہیں بلکہ ووٹرز نے تقدیر بدلنے کیلئے پہلا قدم اٹھانا ہے۔
تازہ ترین