• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطنِ عزیز پاکستان الحمد للہ ایک جمہوری و دستوری مملکت ہے جس کا قیام ایک سیاستدان کی جمہوری جدوجہد کا ثمر ہے۔ بانی پاکستان جہاں آئین اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے تھے وہیں کسی نوع کے مذہبی، نسلی یا جنسی امتیاز کے بھی مخالف تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی یہ اعلان کر دیا کہ آپ کا جو بھی عقیدہ ہے وہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے مملکت کے شہری کی حیثیت سے ریاستِ پاکستان کا اس سے کوئی سروکار یا واسطہ نہیں ہوگا۔ وہ پاکستان کو اقوامِ عالم میں سربلند ہوتا دیکھنا چاہتے تھے اور یہ تب تک ممکن نہ تھا جب تک پاکستان دشمنی، نفرت اور تعصب کی آلائشوں سے پاک نہ ہو جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اُن سے مستقبل میں پاک ہند تعلقات کے متعلق پوچھا گیا تو جواب دیا کہ یہ ایسے ہی ہوں گے جیسے امریکہ اور کینیڈا کے تعلقات ہیں۔ قائد نے کبھی سوچا تک نہیں ہوگا کہ اُن کے اس جمہوری پاکستان میں آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیری جائیں گی۔ جس شخص نے اپنی قومی آزادی کی تمام تر جدوجہد میں کسی ایک موقع پر بھی آئین اور قانون کی خلاف ورزی کا سوچا نہ تھا آج اس کے ملک میں آئین اور قانون کو مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔

کسے معلوم نہیں ہے کہ کسی بھی دستوری مملکت میں آئین وہ دستاویز ہوتی ہے تمام طاقتور سے طاقتور ادارے اور محکمے اس کی پاسداری کے پابند ہوتے ہیں، ہر بڑے سے بڑا عہدیدار اپنی ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے آئین کے تحفظ اور اس کی شقوں پر کاربند رہنے کی قسم کھاتا ہے مگر مابعد جب وہ اپنے اس حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آئین شکنی کا مرتکب ہوتا ہے تو ہمارا کمزور نظام اس آئین شکن کو تادیبی سزا دینے کے بجائے اسے تحفظ فراہم کرنے پر کمربستہ ہو جاتا ہے۔ جسے ہماری اس بات پر شک ہے وہ ہر مارشل لاء کے بعد جاری ہونے والے جوڈیشری کے فیصلوں کا مطالعہ کر لے۔ اگر آپ کے سامنے کوئی سیاستدان کھڑا ہو تو آپ کا غصہ کم ہونے کو نہیں آتا ہے اسے جیلوں میں بھیجنے سے لے کر پھانسی گھاٹ تک بھیج سکتے ہیں، سسلین مافیا سے لے کر جو منہ میں آئیں اُن سب القابات سے نواز سکتے ہیں لیکن اگر کیس کسی طاقتور ادارے سے منسلک فرد کا آجائے تو لب ولہجہ بدل جاتا ہے یہاں کونسا قانون اور کونسا احتساب ہو رہا ہے۔

آئینی لحاظ سے پارلیمنٹ وہ سپریم طاقت ہے جو آئین کی بھی ماں ہے۔ کیا اس کی عظمت کے سامنے تمام اداروں کو سرنگوں نہیں ہو جانا چاہیے۔ کیا پارلیمنٹ کا یہ استحقاق نہیں ہونا چاہیے کہ اس کا ایک پارلیمانی کمیشن بنے اور جس کی کہیں شنوائی نہیں ہو سکتی اس کی وہاں شنوائی ہو۔ چوری ڈکیتی کے ملزموں پر ہمیں شدید غصہ ہے لیکن اگر کوئی عوامی مینڈیٹ چوری کرے یا اس پر ڈکیتی کا مرتکب ہو تو اس پر بھی ویسا ہی غصہ کیوں نہیں آتا؟

آج ایک کمزور گائے نے طاقتور وزیر کی مقبوضہ جات میں منہ مارا ہے تو نہ صرف اس گائے کے وارثان معصوم بچوں اور خواتین کو جیل یاترا پر جانا پڑا بلکہ یہ وزیر چونکہ وزیراعظم تک رسائی رکھتا تھا اس لیے اس نے آئی جی پولیس کا بھی تبادلہ کروا دیا۔ اس کا اگر سپریم جوڈیشری نے نوٹس لیا ہے تو ہمارے وفاقی وزیر اطلاعات کو شکایت ہے کہ وزیراعظم اگر آئی جی کو بھی نہیں بدل سکتا تو پھر جمہوریت کا کیا فائدہ پھر تو بیورو کریٹس ہی حکومت کریں۔ ہم اپنے وزیر اطلاعات کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اگر جمہوری ہاتھ ڈالنا ہے تو سابق وزیراعظم کی طرح کسی تگڑے غیر جمہوری پر ڈال کر دیکھیں، شام تک آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔ کمزور طبقات پر ہاتھ ڈالنا اور وزارتوں کا رعب دکھانا تو کوئی بات نہیں ہے۔ ابھی کل کی بات ہے آپ لوگوں نے جو کچھ پاکپتن شریف میں کیا اور جس پر آپ لوگوں کو معافی مانگنا پڑی۔ سمجھدار بندہ وہ ہوتا ہے جو ایسی حرکات ہی نہ کرے جن پر بعد ازاں معذرتیں کرنا پڑیں۔ آپ لوگ تو گڈ گورننس کے بڑے بڑے دعوے لے کر حکمرانی میں آئے ہیں انتظامی امور میں سیاسی مداخلت نہیں ہونے دیں گے، کسی سرکاری افسر کا سیاسی بنیادوں پر تبادلہ نہیں ہو سکے گا، کارکردگی اور میرٹ کو ہر حالت میں ملحوظِ خاطر رکھا جائے گا۔ ترقیاتی فنڈز ممبران اسمبلی کے ذریعے نہیں منتخب بلدیاتی اداروں کے ذریعے خرچ کیے جائیں گے، کشکول توڑ دیا جائے گا، قرضے نہیں لیے جائیں گے، مہنگائی کا گراف نیچے لائیں گے، پٹرول سستا ہوگا۔ بیرون ملک سے نہ صرف یہ کہ لوٹی ہوئی دولت واپس آئے گی بلکہ بیرونی سرمایہ کاری کا سونامی آئے گا جس سے لوگ بیرون ملک سے نوکریاں چھوڑتے ہوئے پاکستان کی طرف دوڑیں گے وغیرہ وغیرہ۔

آج حالت یہ ہے کہ آپ کی اپنی سپریم کورٹ یہ فرما رہی ہے کہ پختونخوا کے اسپتال سندھ سے بھی بدتر ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار صاحب فرما رہے ہیں کہ میں کے پی میں خود دیکھ کر آیا ہوں آپ لوگوں کا وہاں دوسرا دورِ حکومت ہے، جے آئی ٹی کو جعلی اکاؤنٹس میں معلومات ملنے لگی ہیں، منرل واٹر کے نام پر لوگوں کو دھوکا دیا جا رہا ہے۔ امن عامہ کا یہ عالم ہے کہ چکوال میں ہائیکورٹ کے سابق جج کو قتل کر دیا گیا ہے، اوکاڑہ میں ایک شخص نے چار خواتین کو قتل کر دیا ہے، ایک وزیر کے پروٹوکول کی گاڑی سے نوجوان مرتا ہے تو کسی کو پروا نہیں، گوجرانوالہ میں باپ بیٹا قتل ہوئے ہیں تو عام سی بات ہے، ڈالر کے بالمقابل روپے کی جو پتلی حالت ہوئی ہے اس کی مثال تو ہماری 70سالہ معاشی تاریخ میں نہیں ملتی۔ نتیجتاً مہنگائی کا طوفان امڈ رہا ہے حالانکہ ابھی تو آپ کو سو دن بھی نہیں ہوئے۔ معاملات بجائے بہتری کی طرف جانے کے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔

آئین قانون اور جمہوریت پر یقین رکھنے والے کی حیثیت سے درویش کی یہ تمنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کامیابی کے ساتھ اپنے فلاحی ایجنڈے پر عمل پیرا ہو ہمارے عام عوام کے دکھوں کا مداوا ہو سکے۔ سابقہ حکومت سے لوگوں کو سب سے بڑی شکایت یہ تھی کہ عام آدمی کی وہاں رسائی یا شنوائی نہیں ہوتی تھی اب بھی اگر صورتحال وہی ہو کہ اثر رسوخ رکھنے والوں کے کہنے پر آئی جی تک کا تبادلہ ہو جائے، پولیس عام غریب شہریوں کو پکڑ کر تھانے لے جائے، سرکاری ملازمین کو کوئی تحفظ نہ ہو تو پھر اسے گڈگورننس تو نہیں کہا جا سکتا۔ اس سے آپ نیچے تھانے لیول تک کیا مثال قائم کررہے ہیں کہ جو آپ کی ناجائز بات نہ مانے اس کا تبادلہ کر دیا جائے۔ گڈ گورننس کا اولین تقاضا تو بلا امتیاز قانون کی عملداری اور عوامی دکھوں کا مداوا ہے لیکن یہاں حالت یہ ہے کہ کل بھی جنتا روتی تھی اور آج بھی جنتا رو رہی ہے البتہ ہمارے وزراء کل بھی خوش تھے اور آج شاید زیادہ خوش ہیں۔

تازہ ترین