• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عدلیہ کے سربراہ کو عام طور پر مسٹر چیف جسٹس کہا جاتا ہے لیکن یہ عہدہ کسی خاتون کے پاس ہو تو وہ مس چیف جسٹس ہوجائیں گی مگر مس چیف جسٹس زیب نہیں دیتا بلکہ انگریزی لفظ”مس چیف“ سے توہین عدالت کا اندیشہ بھی لاحق ہوسکتا ہے۔ سارک معاہدے کے رکن ملک سری لنکا کی مس چیف جسٹس شیرانی باندرانا ئیکے شاید چیف جسٹس کی بجائے”ٹاپ جج“(چوٹی کی جج ) کہلاتی ہیں مگر ان کا مستقبل کچھ زیادہ محفوظ دکھائی نہیں دیتا کیونکہ بتایا گیا ہے کہ وہاں کی حکمران سیاسی پارٹی”یونائیٹڈ پیپلز فریڈم الائنس“ جو ا پنے ملک کی پارلیمنٹ کی دوتہائی اکثریت پر قابض ہے اپنی”چوٹی کی جج“ کو تین بڑی بے ضابطگیوں کی مرتکب قرار دے چکی ہے اور پارلیمانی پینل آٹھ دسمبر کو انہیں ان کے عہدے سے ہٹا دینے کی سفارش کرچکا ہے چنانچہ وہ ایک مہینے کے بعد مس چیف جسٹس سے سابق مس چیف جسٹس ہوسکتی ہیں اگر سری لنکا کے گیارہ ہزار وکیلوں نے اپنی چوٹی کی جج کے حق میں تحریک چلانے میں کامیابی حاصل نہ کرلی تو شیرانی باندرانا ئیکے کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔
شریمتی شیرانی باندرانائیکے کے خلاف عائد کی گئی تین بڑی بے ضابطگیوں میں سے ا یک بے ضابطگی یہ بتائی جاتی ہے کہ انہوں نے ان کے خلاف تحقیقات کے دوران اپنے نو خفیہ بنک اکاؤنٹس کو چھپانے کی کوشش کی۔ دوسری بے ضابطگی یہ بتائی جاتی ہے کہ انہوں نے ایک مکان کی خریداری کے سلسلے میں مالکان مکان کے خلاف اپنی ہمشیرہ کے مقدمے میں اپنی ہمشیرہ کی مدد کے لئے اپنے عہدے کے اختیارات کو ناجائز طور پر استعمال کیا۔ تیسری بے ضابطگی یہ بتائی گئی کہ شیرانی باندرانائیکے نے2009ء میں تامل باغیوں کو کچلنے کی واردات کے بعد سری لنکا کے حکمرانوں پر یہ الزام لگایا کہ وہ اپنی عدلیہ کے اختیاراتمیں کمی لانے کی سازش میں مبتلا ہیں۔شیرانی باندرانائیکے کے خلاف یہ الزام بھی عائد کیاگیا تھا کہ انہوں نے ناجائز طور پر اڑھائی لاکھ ڈالرز بھی کمائے مگر پارلیمانی پینل نے اس چھوٹے سے الزام کو مشکوک قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔
سری لنکا کے آئین کے تحت اگر پارلیمانی پینل چیف جسٹس کے بے ضابطگی کے الزامات کو صحیح تسلیم کرلے تو ایک ماہ کا عرصہ گزرنے کے بعد وہ اپنے عہدے سے محروم ہوجاتے ہیں لیکن سری لنکا کے گیارہ ہزار وکیلوں کی تنظیم نے اپنی چیف جسٹس کے خلاف حکومتی پارٹی کے مذکورہ بالا فیصلے کے خلاف تحریک چلانے کے فیصلے کا اعلان کیا ہے چنانچہ آنے والے تیس دنوں میں پتہ چلے گا کہ سری لنکا کے وکیلوں میں پاکستان کے کالے کوٹوں جتنی ہمت، طاقت اور حوصلے موجود ہے یا نہیں اور اس ہمت،طاقت اور حوصلے کے ذریعے وہ اپنی چیف جسٹس کو ا ن کے عہدے پر برقرار رکھ سکتے ہیں یا نہیں۔ اس معاملے میں صرف وکیلوں کی تنظیم کی ہمت، حوصلے اور طاقت کا ہی امتحان نہیں ہوگا یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہاں کی حکومت کی اپوزیشن جماعتوں اور قومی اقتدار کے دوسرے فریقوں اور ریاست کے ستونوں کا کیا رویہ ہے اور وہ کیا چاہتے ہیں اور کیا کچھ کرسکتے ہیں۔
تازہ ترین