• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرزا شاہد برلاس

اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ انٹر گورنمنٹل پینل آف کلا ئمیٹ چینج(آئی پی سی سی) کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ میں عالمی حِدّت (گلوبل وار منگ ) سے مقابلہ کرنے کے لیے زمینی ماحول میں کی جانے والی کچھ درستگیاں منظر عام پر لائی گئی ہیں ۔گو کہ اس میں جیو انجینئرنگ کی بابت مختصر طور پر بتا یا گیا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ کلا ئمیٹ ماڈل سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی حِدّت کو 2 ڈگری سینٹی گر یڈ سے زیادہ نہ بڑھانے کے لیے جیو انجینئرنگ کے اقدامات نا گذیر ہیں ۔ جیو انجینئرنگ کی زیادہ تر ٹیکنالوجیز میں یا تو شمسی شعاعوں (دھوپ ) کو مصنوعی بادلوں سے فضا میں منعکس کیا جا تا ہے یا ماحول میںموجود گرین ہائوس گیسوں کی کشید کرکے ا ن کی مقدار میں کمی کی جاتی ہے ۔بعد ازاں ٹیکنالوجی کو منفی اخراج کے نام سے معنون کیا جا تا ہے ،جس میں مینار بنا کر فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کشید کیا جا تا ہےجو پسی ہوئی چٹا نو ں سے ری ایکٹ کرکے فضا سے رفع ہو جاتی ہے ۔ لیکن بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجیز ابھی تک غیر ثابت شدہ ہیں جن کے اثرات غیر معلوم ہیں ۔آئی پی سی سی کی رپورٹ تیار کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس بات کے سائنسی شواہد سامنے آئے ہیں کہ صرف اخراج میں کمی نتیجہ خیز نہیں ہو گی ۔

ماہرین کےمطابق اس رپورٹ میں خاص طور پر اس بات کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بڑے پیمانے پرآب وہوا کی معکوس تبدیلی کے لیے ایک لمبے عر صے تک زمینی ماحول سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کشید ضروری ہو گی ۔ چند کلائمیٹ ماڈل سے اندازہ لگا یا گیا ہے کہ ٹیمپر یچر کو 2 ڈگری سینٹی گر یڈ سے کم کررکھنے کے لیے ماحول سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا منفی اخراج لازمی ہوگا ۔ اس کے بعد شمسی انعکاس تر تیب solar radiation management اورکاربن ڈائی آکسائیڈ کے منفی اخراج carbondioxide removal جیسے اقدامات کا مکمل جائزہ لے کر ان کی آب وہوا کی تبدیلی پر افادیت کے ثبوت حاصل کرنے ہوں گے ۔بر طانیہ میں قائم لیڈزکی یونیو رسٹی میں کلائمیٹ چینج کے پر وفیسر پائرس فارسٹر جو اس رپورٹ میں بھی شامل تھے ،ان کا کہنا ہے کہ اس بات کی شہادت موجود ہےکہ اگر آپ اخراج میں کمی کی پالیسی نہیں اپناتے تو مستقبل میں ایسے ناگوار اقدامات کرنے پڑیں گے۔موجودہ وقت میں بہت چھوٹے پیمانہ پر جیو انجینئرنگ کے پائلٹ منصوبے کام کر رہے ہیں، جس میں ماحول سے کاربن نکالنے کے لیےدوبارہ جنگلات لگانے کے علاوہ بایو فیول حا صل کرنے والےپودوں سے کاربن کو ختم کرنا ہے۔ان منصوبوں پر ریسرچ کرنے والے سائنس داں اس پر شاکی ہیں کہ ان منصوبوں پر ریسرچ کرنے کے لیےفنڈز کی انتہائی کمی ہے۔لیکن اس رپورٹ کے بعد یہ رویہ تبدیل ہو سکتا ہے۔اس رپورٹ سےیہ واضح ہوتا ہے کہ اب کسی حد تک ان تجاویز پر عمل در آمد کے لیے حکومتوں کی دل چسپی بڑھ رہی ہے ۔یہ بات کین کالڈیرانے کہی تھی جو کیلی فور نیا کے اسٹینفورڈیونیورسٹی کے کار نیگی انسٹی ٹیوشن آف سائنس میں کلا ئمنٹ پر ریسرچ کرتے ہیں ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کا اندازہ لگا نا مشکل ہوگا کہ کتنے فنڈ کا اضافہ حکومتی دل چسپی بڑھنے کے باعث ہوگا اور کتنا رپورٹ آنے کے بعد ہوگا ۔ ماہرین کے مطابق جیو انجینئرنگ تیکنیک کی بابت صرف فنڈز کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کی ٹیکنیکل ممکنات ،سماجی قبولیت ،وسعت اور اس کے ذیلی اثرات کی بابت کئی سوالات پیدا ہو تے ہیں ۔بر طانیہ کی آکسفورڈیونیورسٹی کے جیوانجینئرنگ پروگر ام کے مینیجر کا کہنا ہے کہ پالیسی ساز ایسے ضروری سوالوں کے جواب حاصل کیے بغیر ہی مطمئن ہیں ۔ جیو انجینئرنگ کے بہت سے ماہرین کویہ شکایت ہے کہ اس میدان میں تحقیق کی شدید کمی ہے ،اس لیے ا ن ٹیکنالوجیز کا بڑے پیمانے پر استعمال بہت کم ہو رہا ہے ۔فی الحال اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ ریسرچ او ر ڈیولپمینٹ کے بعد کون سی ٹیکنالوجی مناسب تر ین ہیں اور آرکٹک کی برف پر ریسرچ سے ماہرین کو یہ جاننے کو بھی ملے گا کہ کس طر ح مداخلت کر کے سمندر کی سطح میں اضافے کو سست کیا جاسکتا ہے ۔علاوہ ازیں بادلوں پر ریسرچ کر کے یہ معلوم کیا جاسکے گا کہ شمسی شعاعوں کی ریڈیشن کو کس طر ح کنٹرول کیا جا سکتا ہے ۔

تازہ ترین
تازہ ترین