• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضورؐ ! بر سر پیکار ہم ہیں آپس میں

حضورؐ ! شہر ہمارے ہیں خوف میں ڈوبے

حضورؐ ! ہم نے صداقت کا رستہ چھوڑ دیا

حضورؐ ! ہم نے تعلق خرد سے توڑ لیا

حضورؐ ! ہم نے اخوت کی خود رگیں کاٹیں

حضورؐ ! ہم نے زمانے کو آگے جانے دیا

حضورؐ ! ہم نے ہدایت کی روشنی کھودی

حضورؐ ! علم کا دامن بھی ہم سے چھوٹ گیا

حضورؐ ! جذبۂ تحقیق ہم بھلا بیٹھے

حضورؐ ! ہم نے دھماکوں میں جنّتیں ڈھونڈیں

حضورؐ ! ہم کہ خطا کار بھی ہیں جاہل بھی

حضورؐ ! ہم پہ عنایت ۔ حضورؐ ہم پہ کرم

حضورؐ ! بھٹکے ہوئے حاکموں کو راہ ملے

حضورؐ ! فتح مقدر ہو لشکرِ حق کی

میری آنکھیں نم ہیں۔ سر ندامت سے خم ہیں۔ پھر مسلمان مسلمان کی املاک جلارہا ہے۔ فریضۂ علم ادا کرنے والوں کے راستے رُک رہے ہیں۔ آگے بڑھتا ملک پھر پیچھے جارہا ہے۔

چنگاریاں ہمارے ہاں ہمیشہ سلگتی رہتی ہیں۔ ذرا ہوا لگے تو وہ جاگ اٹھتی ہیں۔ کوئی تیل ڈال دے تو بھڑک اٹھتی ہیں۔ ان چنگاریوں کو پوری طرح بجھانے کی کوشش نہیں ہوتی ہے۔ حکومتیں تو آنی جانی ہیں۔ ریاست دائم و قائم رہتی ہے۔ ریاست لوگ ہیںجیتے جاگتے۔ ہر انسان اللہ کا نائب ہے۔ قابل احترام ہے۔ اشرف المخلوقات ہے۔ اپنی ماں کی آنکھ کا تارا ہے۔ اپنے باپ کے دل کاسکوں۔

اس غریب اور بے یقینی والے ملک میں جہاں جاگیردار۔ اشرافیہ۔ سرمایہ کار۔ اعلیٰ سول و فوجی عہدیدار۔ قومی خزانے کو بے دریغ لوٹتے ہیں۔ جہاں غریب اور غریب ہوجاتا ہے۔ بڑی مشکل سے دن رات محنت کرکے ایک موٹر سائیکل خریدتا ہے۔ چھوٹی گاڑی لیتا ہے۔ رکشہ قسطوں پر لاتا ہے۔ یہ اچانک بھڑکتی چنگاریاں اسکی آنکھوں کے سامنے اس کی عمر بھر کی جمع پونجی جلادیتی ہیں۔ وہ گھر سے نکلنے پر مجبور ہے۔ کیونکہ اس کے اسٹور میں گندم نہیں ہے۔ چاول نہیں ہے۔ گھی نہیں ہے۔ چینی نہیں ہے۔ وہ تو کمائے گا پھر یہ سب چیزیں لائے گا۔

ان چنگاریوں کو ہم سلگنے کیوں دیتے ہیں۔ یہ اکیسویں صدی ہے۔ اس میں مسائل حل کرنے تنازعات طے کرنے کے بہت سے طریقے ایجاد ہوچکے ہیں۔ اکثر قومیں اپنے بنیادی مذہبی۔ سماجی۔ سیاسی قضیے طے کرکے پُر سکون زندگی گزار رہی ہیں۔ وہاں سب نے مل جل کر ایک مذہبی پالیسی بنالی ہے۔ سب اس پر عمل کرتے ہیں قانون کی حکمرانی ہے۔جہاں خلاف ورزی ہو۔ قانون خود حرکت میں آجاتا ہے۔ مقامی آفیسرز شورش پر قابو پالیتے ہیں۔ وزیر اعظم۔ چیف جسٹس۔ آرمی چیف کو حرکت میں نہیں آناپڑتا۔ کیونکہ وہاں قواعد و ضوابط کےاصول طے ہیں۔ ضابطے ہمارے ہاں بھی موجود ہیں مگر رینجرز۔ پولیس کو ہدایت دے دی جاتی ہے کہ خاموش تماشائی بنے رہنا۔ ان شہریوں کو آپس میں لڑنے دو۔ تھک ہار جائیں گے۔ خود ہی گھروں کو چلے جائیں گے۔ قانون شکنی کا معیار بہت بلند کردیا گیا ہے۔ راستہ روکنا۔ موٹر سائیکل جلانا۔ گاڑیاں۔ بسیں۔ٹرک نذر آتش کرنا قابل دست اندازیٔ پولیس نہیں رہے۔

ہم غور نہیں کرتے کہ ان چنگاریوں کا سلگتے رہنا خود ان کے لیے بھی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ گردش ایّام کو پیچھے لے جائیں۔ کتنی تحریکیں اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچیں۔ زخم مندمل نہیں ہوئے۔ نظام مصطفیٰ ؐ نہیں آیا۔ اس تحریک میں شہید ہونے والے۔ زخمی ہونے والے۔ بے گھر ہونے والے ہی تو چنگاریاں ہیں۔ تحریک بحالی جمہوریت کے نتیجے میں جمہوریت بحال نہیں ہوئی۔اس میں شہید ہونے والوں کے لواحقین کے دُکھ درد بھی تو چنگاریاں ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف ۔ضرب عضب۔ ردّ الفساد میں کتنے فوجی، کتنے شہری شہید ہوئے۔ زخمی ہوئے۔ معذور ہوئے۔ شدت پسندی اب بھی ہے۔ مذہب کے نام پر کفر کے فتوے۔ زہریلی تقریریں اب بھی ہوتی ہیں۔ یہ سب چنگاریاں سلگتی رہتی ہیں۔ملک میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوتی۔ قانون سب کے لیے ایک سا نہیں ہے۔ قائدین سیاسی ہوں ۔ سماجی۔ علمی۔ دینی۔ ایک بڑا طبقہ ان کا گرویدہ ان کا عقیدتمند ہوتا ہے۔ ان کے خلاف بد زبانی ہوگی تو چنگاریاں بھڑکیں گی۔

ریاست کا کام ہوتا ہے۔ حفظ ماتقدم۔

اتنی انٹیلی جنس ایجنسیاں موجود ہیں۔ ریاست اور حکومت کو تو پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ کہاں کہاں طوفان جنم لے رہا ہے۔ پاکستان جذباتی ملک ہے۔ خواندگی کی شرح بہت کم ہے۔ معاشی بے چینی ہے۔ برداشت کم ہے۔ حکمرانوں پر ریاستی اداروں پر کسی نہ کسی تاریخی المیے کے بعد اعتبار اٹھ گیا ہے۔ اب تو سوشل میڈیا آگیا ہے۔ تھڑوں ۔ چوپالوں۔ ڈیروں پر ہونے والی باتیں اب اسمارٹ فون سے گھر گھر پہنچ رہی ہیں۔ سیاستدان غیر ذمہ دارانہ باتیں کررہے ہیں۔ مسجدوں۔ مدرسوں۔ یونیورسٹیوں میں غیر دانشمندانہ لیکچرز ہوتے ہیں۔ مجموعی طور پر ماحول ذمہ دار قوم والا نہیں ہے۔ ایک خطرناک رُجحان کو ختم کرنے کے لیے دوسرا خطرناک رُجحان تخلیق کرنے کا تجربہ تباہ کن رہا ہے۔ اسی لیے لوگ کہہ رہے ہیں۔ ’جب پال نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو۔‘

ریاست سب کی ماں ہے۔ ماں ممتا۔ لاڈ پیار سے کام لیتی ہے۔ سب بچے ایک سا پیار مانگتے ہیں۔ تقسیم کسی سطح پر بھی قابل تحسین نہیں ہے۔ تقسیم در تقسیم کا مرحلہ شروع ہوجائے تو ریاستیں تقسیم ہوجاتی ہیں۔ ایک ایٹمی ریاست میں تو اور بھی زیادہ محتاط اور ذمہ دار ہونا پڑتا ہے۔

یہ جو کچھ ہورہا ہے اس کا سبب فوری نہیںہے یہ برسوں کی نفرتوں۔ بے چینیوں کا کڑوا پھل ہے ۔ عقل و دانش کی بات نہیں سنی جاتی۔

ہم نے ایسا ماحول پیدا کیا جس میں نفرت ہی پھلتی پھولتی ہے۔ ٹیکنالوجی بھی آسانی کی بجائے زندگی میں مشکلات پیدا کرتی ہے۔ اس لیے ہم موبائل فون بند کرتے ہیں۔ موٹر سائیکل پر ڈبل سواری منع کرتے ہیں۔

میڈیا نے ان دنوں جس ذمہ داری اور متانت کا مظاہرہ کیا وہ اگر ہمیشہ ایسا ہی رویہ اختیار کرے تو نفرت جڑ پکڑنا چھوڑ دے۔

ہم سب کو سوچنا چاہئے غور کرنا چاہئے۔ ہم ایک عظیم پیغمبرؐ جو دونوں جہانوں کے لیے رحمت بن کر آئے۔ جن سے عشق ہی دنیا اور آخرت کی متاع ہے۔ ہم ان کے اُمتّی ہیں۔ کیا ہم علم کے راستے میں رُکاوٹیں کھڑی کرسکتے ہیں۔ بچوں کو اسکول جانے سے روک سکتے ہیں۔ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی املاک جلاسکتے ہیں۔

احتجاج انسان کا حق ہے۔ لیکن مسلمان وہ ہے جس کی زبان سے ہاتھ سے دوسرے کو ایذا نہ پہنچے ۔ مستقل بنیادوں پر طویل المیعاد منصوبے بنائیں۔ جن کے ذریعے ایسے ذہن بنیں جہاں اُلفت ہی اُلفت ہو ۔ مقامی افسروں کو اپنے اختیارات استعمال کرنے دیں۔ انہیں نہ کہا جائے کہ وہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے دیں کچھ کو نہ لینے دیں۔سلگتی چنگاریوں کو ہمیشہ کے لیے بجھا نے کی کوئی تدبیر کریں۔

تازہ ترین