• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ثمرقند کے نواح میں دوپہر بہت خنک ہو چلی تھی اور جاڑے میں ٹھٹھرتے درختوں کے جھرمٹ سنہری ہو چلے تھے۔ فضا میں ایک عجب اور ماحول پہ گھمبیر سکوت طاری تھا۔ ایسے میں ہم گناہگار امیر المحدثین عالی جناب امام بخاری کے پُرشکوہ مزار پہ عظیم اسلام محقق کو نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کو حاضر تھے۔ چھ لاکھ احادیثِ نبوی اکٹھی کرنا اور سات ہزار سقہ احادیث کی تصدیق کرنا اور بیس ضخیم کتب کی تصنیف (اور وہ بھی تیسری صدی ہجری میں جب تحقیق و تصنیف کے شعبے ابھی بہت سادہ تھے) ایک بے مثال کام تھا۔ مزار پہ لیکن نذرانے کے پھول تھے، نہ اگربتیوں کی مہک اور نہ منتوں کے دھاگے۔ البتہ کونے کھدروں میں زائرین مقامی علما کی باتیں غور سے سننے میں مصروف نظر آئے۔ ایک کتبے پہ امام بخاری اور اُن کی محققانہ دینی کاوشوں کا مختصر سا ذکر تھا (جس میں صحیح بخاری بھی شامل ہے) اور پھر یہ کہ کس طرح امام بخاری کو اُس وقت کے امیر بخارہ کے ہاتھوں تنگ آ کر بخارہ میں اپنے آبائی مسکن کو خیرباد کہہ کر ثمرقند کے ایک گائوں ہرتانگ میں پناہ لینا پڑی اور وہیں وہ دفن ہوئے جہاں ہم اُن سے خیالی مکالمے کے لیے حاضر ہوئے۔ ہمیں بہت تلاش تھی تو اپنے صوفی بھائی ملا نصر الدین آف بخارہ کی جس کا کوئی مرقد ملا اور نہ نشاں۔ ماضی کے مزار ڈھونڈتے کیا خبر تھی کہ پاکستان میں کیا اودھم مچنے والا ہے۔ ہوٹل پہنچے تو وائی فائی چلا ہی تھا کہ خبر ملی کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے مبینہ توہینِ رسالت کی ملزمہ آسیہ بی بی کو اس خوفناک الزام سے بری الذمہ قرار دیتے ہوئے اس کی رہائی کا حکم صادر کر دیا ہے۔ تفصیلی فیصلہ پڑھا تو معلوم پڑا کہ ایک قبیح ترین جرم سرزد ہی نہ ہوا تھا، بلکہ جسٹس کھوسہ کے مطابق ’’فالسے کے کھیت میں (خواتین کے مابین) ہونے والے جھگڑے کے بعد دروغ گوئی کی دعوت عام ہوئی۔‘‘ ہر عاشقِ رسول ﷺکے دل کا بوجھ تو ہلکا ہو جانا چاہیے تھا کہ رحمت اللعالمینؐ کی شان میں کوئی گستاخی سرے سے ہوئی ہی نہیں۔ اور جب یہ ثابت ہو گیا کہ سرے سے گستاخی کا ارتکاب ہی نہیں ہوا تو کیوں اس پر ناجائز اصرار کر کے گستاخی کا مجرمانہ کاروبار گرمایا جا رہا ہے؟ جناب جسٹس کھوسہ نے اس ضمن میں قرآن سے رجوع کیا ہے کہ: ’’اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لیے سچی گواہی دو خواہ اس میں تمہارا یا تمہارے ماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔‘‘ (سورۃ النسا: آیت 135)۔ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کا فیصلہ قرآن و سنت اور آئین و قانون کی روشنی میں تمام تر شواہد اور اصل سیاق و سباق کو باریک بینی سے چھان پھٹک کر کیا گیا ہے۔ معزز بنچ نے توہین کے مقدمات میں سابقہ فیصلوں سے بھی بھرپور استفادہ کیا ہے۔ فوجداری اُصولِ قانون کے مطابق یا تو کسی بھی الزام کو کسی قسم کے ’’شک و شبہ سے بالاتر ہو کر ثابت کیا جائے‘‘ وگرنہ ’’قیاسِ بے گناہی‘‘ کا فائدہ ملزم کو بطور حق مل جاتا ہے۔ سوال اُٹھتا ہے کہ معزز جج صاحبان کیسے اور کس شرح اور شہادت کی بنا پر ایک ایسے جرم میں سزا دیتے جس کی سزا موت ہے جو سرزد ہی نہیں ہوا۔ اُن کے تئیں ایسا کرنا قتل کے مترادف تھا۔ اس حوالے سے جناب جسٹس ثاقب نثار نے قرآن کا حوالہ دیا ہے کہ: ’’جو شخص کسی کو (ناحق قتل کرے گا) یعنی بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کی سزا دی جائے، اُس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا اور جو اُس کی زندگانی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا۔ اور ان لوگوں کے پاس پیغمبر روشن دلیلیں لا چکے ہیں پھر بھی ان سے بہت سے لوگ ملک میں حداعتدال سے نکل چکے۔‘‘ (آیت، 5:32)۔ جسٹس کھوسہ نے اپنا اضافی نوٹ اس بات پر ختم کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’توہینِ رسالت ایک سنگین جرم ہے۔ لیکن شکایت کنندہ فریق کی جانب سے اپیل گزار کے مذہب اور مذہبی احساسات کی توہین اور پھر اللہ کے نام پر سچ میں جھوٹ ملانا بھی توہینِ رسالت سے کم نہیں۔‘‘ یہ ایک سنگین مذاق ہے کہ عربی زبان میں ’’آسیہ‘‘ لفظ کے معنی ’’گنہگار‘‘ ہیں، لیکن زیرِ نظر مقدمہ میں اس کا کردار شیکسپیئر کے ناول کنگ لیئر کے الفاظ میں ’’گناہ سے زیادہ گناہ کا شکار‘‘ جیسا ہے۔

عدالتِ عظمیٰ نے فیصلے میں یہ سوال بھی اُٹھایا ہے کہ: ’’اگر ہمارا مذہب اسلام، توہین کے مرتکب شخص کے لیے سخت سزا تجویز کرتا ہے تو اسلام اس شخص کے خلاف بھی اتنا ہی سخت ہے جو جرم کے ارتکاب کے متعلق جھوٹا الزام لگائے۔ لہٰذا یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ کسی معصوم شخص کو جھوٹے الزام کی بنا پر تفتیش اور سماعت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘‘ توہینِ رسالت قانون کے اقلیتوں کے خلاف ناجائز استعمال کے حوالے سے فیصلے کے اختتام پر جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس کھوسہ نے اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے قرآن اور سنہ کے نہایت متعلقہ حوالے دیئے ہیں۔ جسٹس نثار نے حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ: ’’جان لو! جو کوئی کسی غیرمسلم اقلیت پر ظلم کرے گا، سختی سے پیش آئے گا، اُن کے حقوق سلب کرے گا، اور اُن کو اُن کی برداشت سے زیادہ ایذا دے گا اور اُن کی مرضی کے خلاف اُن سے کچھ چھینے گا میں (حضرت محمد ﷺ) اُس کے بارے میں روزِ قیامت شکایت کروں گا۔ (ابودائود) جسٹس کھوسہ نے عیسائی مذہب کے جبل سینا کے راہبوں سے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکے ساتھ کیے گئے میثاقِ جبل سینا کا ذکر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم اُن کے (عیسائیوں کے) ساتھ ہیں۔ حقیقت میں مَیں خود خدمتگار اور مددگار اور میرے پیروکار ان کا دفاع کریں گے کیونکہ عیسائی میرے شہری ہیں اور خدا کی قسم میں اس پر عمل کے خلاف ہوں جو انہیں ناخوش کرے گا... اور جو کوئی ان سے کچھ لے کر جائے گا وہ اللہ سے معاہدہ شکنی کرے گا اور اس کے پیغمبر کی نافرمانی کرے گا... نہ ہی ان سے مقدس معاہدوں سے قوم (مسلمانوں) میں کوئی بھی قیامت کے دن تک اس میثاق سے نافرمانی/ روگردانی کرے گا۔‘‘ ان آیات و احادیث کی روشنی میں ہی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسلام سب سے بڑھ کر اقلیتوں کے ہر طرح کے مساوی حقوق کا داعی اور محافظ ہے۔

تاشقند میں فیصلہ پڑھنے کے بعد جب ہم لاہور کے لیے روانہ ہوئے تو معلوم ہوا کہ پورا ملک ہنگاموں کی نذر ہو گیا ہے اور شاید ہم لاہور ایئرپورٹ سے باہر بھی نہ نکل پائیں۔ اگلے روز جمعہ تھا اور ہر طرف ہنگامہ آرائی تھی۔ اب سوال یہ نہیں کہ توہین کے قانون کا غلط استعمال روکا جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ توہین کے ارتکاب کا تعین کون کرے اور کون اس کا فیصلہ کرے۔ کیا اس کا فیصلہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالتیں کریں یا پھر گلی کوچوں میں لوگ کریں۔ اگر عدالتوں کی بجائے گلیوں محلوں میں توہین کے الزامات لگا کر لوگوں کو کھمبوں سے لٹکایا جائے گا تو پھر طوائف الملوکی اور خانہ جنگی کے سوا کیا نتیجہ نکلے گا۔ جو لوگ جوشِ جذبات میں عدلیہ، فوج اور ریاست کے آئین و قانون کو چیلنج کر رہے ہیں، آخر وہ کیا چاہتے ہیں اور اس ملک کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ مشتعل ہجوم علمائے حق کوبھی سننے کو تیار نہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ جو مذہبی جماعتیں آئین کی پاسداری کی حامی ہیں وہ بھی سیاسی مقاصد کے لیے مذہبی شدت پسندی کی آگ لگانے میدان میں اُتر آتی ہیں۔ آگ و خون کے اس کھیل میں ہم چار دہائیوں سے اپنی ہی تباہی اور دینِ اسلامی کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں اور کوئی روکنے والا نہیں۔ مولانا سمیع الحق کا افسوسناک اور بہیمانہ قتل بھی اسی کشت و خون کے کھیل کا شاخسانہ ہے۔ یقیناً تمام مسلمانوں کے لیے ختمِ نبوت، تعظیم رسالت اور عشقِ رسول نہایت جذباتی مسئلہ ہے اور توہین کے سدباب کے لیے نہایت کڑا قانون بھی موجود ہے۔ لیکن بدقسمتی سے عدالت کے بقول اس کا غلط استعمال بھی جاری ہے اور کوئی اس کے خلاف کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ اُلٹا المیہ ہے کہ ریاست جس نے یہ آگ بھڑکائی اور مذہبی شدت پسندی کی جو نرسریاں بنائیں، اب وہ پلٹ کر خرمنِ وطن کو جلا رہی ہیں۔ یقیناً استغاثہ کو ریویو کا حق ہے۔ لیکن کیا مستغیث عدالت کو ماننے کے لیے تیار ہیں۔ اور اصل سوال یہی ہے کہ آئین کی حکمرانی ہو یا پاپائیت۔ چیف جسٹس نے ٹھیک لکھا ہے کہ: ’’مزید برآں یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ سزا دینا ریاست کی ذمہ داری ہے، کسی بھی فرد کو قانون اپنے ہاتھوں میں لینے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘ کہاں امام بخاری کے مزار پہ حاضری اور کہاں پاکستان کے حالات۔ اللہ معافی!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین