• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج سے تقریباً 35سال قبل انشورنس کمپنی کے ایک چیف ایگزیکٹو سے ملنے کا اتفاق ہوا، کافی گپ شپ ہونے لگی ایک دن میں نے اُس سے پوچھا کہ وہ اس بڑے عہدے تک کیسے پہنچے ۔اُس نے بتایا کہ میں اسکول کے زمانے ہی سے بہت ڈھیٹ قسم کا طالب علم تھا جو بات میرے دماغ میں سما جاتی تھی میں جب تک اُس کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا دیتا مستقل لگا رہتا تھا ۔یہاں تک کہ کالج کی ڈگری بھی مل گئی ۔بہت جگہ نوکری کی کو شش کی مگر نہیں ملی ۔ایک دن اخبار میں انشورنس کمپنی کا اشتہار پڑھا نہ چاہتے ہوئے بھی درخواست دے ڈالی ۔سوچا کہ اگر نوکری مل گئی تو صحیح بعد میں اچھی نوکری ملنے پر چھوڑ دونگا۔چند دن بعد انٹرویو کا خط ملا کمپنی بہت بڑی تھی، کافی لمبی قطار میں نوجوان اپنی باری کے لئے انتظار کررہے تھے ۔کافی دیر بعد میرا نمبر آیا ۔تین افراد انٹرویو لے رہے تھے تو رہے سہے اُوسان بھی خطا ہوگئے کس کس کو مطمئن کرپائو ں گا ۔دل میں سوچ لیا کہ یہ نوکری تو اب لینی ہی ہے ۔انٹرویو شروع ہوا پہلا سوال یہ تھا کہ عام افراد انشورنس کروانے سے کتراتے ہیں توآپ کیسے ان کو انشورنس کروانے پر آمادہ کرینگے ۔میں نے جواب دیا کہ میں انشورنس کے فوائد گنوائوں گا ۔مثلا ً آپ کو بچت کے ساتھ رقم مع منافع آپ کو واپس ملے گی اگر وہ نہ مانے تو میں اور دلیلیں دونگا۔دوسرا سوال اگر آپ کو وہ غصہ سے دفتر یا گھر سے نکل جانے کو کہے تو آپ کیا کہیں گے ۔تو میںنے کہا کہ میں پھر بھی اپنے دلیلیں اور فوائد کا سلسلہ بڑھادونگا ۔اور اگر وہ اُٹھ کر آپ کا ہاتھ پکڑ کر زبردستی گھریادفتر سے نکال دے۔ میں پھر بھی اپنا موقف بتانے کی بھر پور کوشش کرونگا ۔میر ا جوا ب سنتے ہی وہ تینوں اُٹھ کھڑے ہوئے ہاتھ بڑھایا اور نوکری کی مبارک باد پیش کی ۔پھر میں نے اتنی محنت کی کہ ترقی کرتے کرتے چیف بن گیا ۔میںنے سوال کیا کہ آپ کے ساتھ اس دوران کبھی کوئی ایسا واقعہ ہوا کہ آپ ناکام بھی ہوئے ۔وہ ہنسا اور کہنے لگا کہ صرف ایک مرتبہ ناکام ہوتے ہوتے رہ گیا ۔مجھے ایک کلائنٹ نے ایک مرتبہ گھر سے اُٹھاکر باہر پھینکا دوسری مرتبہ دفتر سیڑھیوں سے اور تیسری مرتبہ چلتی گاڑی سے مگر چوتھی مرتبہ تنگ آکر انشورنس کروالی۔

قصہ سنانے کامقصد یہ تھا کہ ہم سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی سیاسی زندگی کی یادیں تازہ کررہے ہیں ۔اُن کو پہلے غلام اسحاق خان نے 2مرتبہ بد عنوانی پر پھر پرویز مشرف نے سبکدوش کردیا پھر وہ دوبارہ 2013میں اقتدار میںآئے تو عمران خان نے دھرنے دینے شروع کردیئے ۔اُن سے بمشکل نکلے تھے کہ درمیان میںپاناما کا کیس آگیا اور سپر یم کورٹ نے اُن کو برطرف کردیا ۔اب عمران خان صاحب کی حکومت آئی تو ابھی اپوزیشن آل پاکستان پارٹی کانفرنس بلانا چاہ رہی تھی۔مولانا فضل الرحمٰن صاحب بڑے زوروشور سے زرداری صاحب اور نواز شریف صاحب کو منانے میں لگے ہوئے تھے مگر دونوں پارٹیوں نے فی الحال موجودہ حکومت کے خلاف کوئی بھی احتجاج کرنے سے انکار کردیا اور اس طرح اے پی سی ملتوی کردی گئی ۔ابھی شور جاری تھا کہ سپر یم کورٹ نے آسیہ کیس کا فیصلہ سنا دیا اور اُس کو بری کردیا ۔پھر کیا تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں جلسے و دھرنے دینے شروع کردیئے گئے۔آسیہ مسیح کیس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم تین رُکنی بینچ نے ذیلی عدالت اور بعد آزاں ہائی کورٹ کی توثیق کردہ سزا ئے موت کے فیصلے کے خلاف اپیل سنتے ہوئے آسیہ مسیح کو توہین رسالت کیس میں بری کردیااور اس کی رہائی کا حکم دے دیا ہے وزیراعظم عمران خان صاحب کو بھی چاہئے تھا کہ وہ ٹی وی پر آکر کوئی اعلان نہ کرتے انہوں نے بھی تقریباً2مہینے دھرنا دیا مگر اُس وقت کے وزیراعظم نے ٹی وی پر آکر کوئی بیان نہیں دیاتھا ۔عمران خان کو چاہئے کہ وہ ایسے بیانات سے گریز کریں۔ہر حکومت میں جلسے اور دھرنے ہوتے رہتے ہیں ۔

ملک کو موجودہ معاشی بحران سے نکالنے کے لئے حکومت جو کوششیں کررہی ہے ۔اُن میں ایک مثبت پیش رفت تو سعودی عرب کے جانب سے 6ارب ڈالر کے پیکج کے ذریعے ہو چکی ہے ۔اور دیگر دوست ممالک کی طرف سے بھی مثبت اشارے مل رہے ہیں ۔البتہ اس حوالے سے پاکستان کے قدیم دوست ملک چین کا کردار سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔سی پیک کے ذریعے پاکستان خطے کا معاشی طور پر ایک اہم ملک بننے جارہا ہے ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لئے وزیراعظم عمران خان چینی حکوت کو اعتماد میں لینے کے لئے چین میں ہیں ۔ جہاں چین کے صدر سے ملاقات کی اور اُس کے بعد پیپلز کانگرس کے چیئر مین سے بھی ملاقات کی ۔اُس کے علاوہ عمران خان کی چین کے سرمایہ کاروں اور کمپنیوں کے سربراہوں سے ملاقات اور چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو میں بھی شرکت طے تھی اور چین کے صدر امپورٹ ایکسپو میں شریک رہنمائوں کے اعزاز میں ضیافت دینگے عمران خان کی شنگھائی میں ویت نام کے وزیراعظم سے ملاقات اور پاکستانی بزنس فورم سے بھی خطاب طے ہے وزیراعظم کی مصروفیات یہ ظاہر کررہی ہیں کہ ان کی کائوشوں کی نتائچ جلد سامنے آجائیں گے اور وطن عزیز موجودہ اقتصادی بحران سے کافی حد تک باہر آجائے گا ۔اور اگر ایسا ہوگیا تو حکومت کی تمام تر توجہ عوام کی فلاح وبہبود اور اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانے کی جانب مبذول ہوجائے گی ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین