• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

27 اکتوبر 1948ءبھارت کی فوج جموں و کشمیر میں داخل ہوئی تھی- بھارتی مؤقف کے مطابق یہ فوج قانونی طور پر وارد ہوئی کیونکہ یہ اسوقت کے بادشاہ ہری سنگھ کے ساتھ باضابطہ الحاق کی دستاویز پر دستخط کرنے کے بعد ان کی گزارش پر وارد ہوئی- پاکستان اور کشمیریوں کے موقف کے مطابق ہری سنگھ بھگوڑے ہوچکے تھے اور اس سے پہلے ہی وہ عوامی اعتماد سے عاری ہوچکے تھے جسکی وجہ سے کشمیریوں کی جانب سے انکے کسی بھی اقدام کو کوئی تائید یا پذیرائی حاصل نہیں تھی- اسلئے مہاراجہ کے کسی بھی عمل کو قانونی یا اخلاقی تائید نہیں مل سکتی- کچھ حلقے پورے الحاق کو ہی فریب تصور کرتے ہوئے اس طرح کی کسی بھی دستاویز کے وجود سے ہی انکاری ہیں- حق تو یہ ہی ہے کہ بھارتی حکومت کافی مدت تک اپنے دعوے کے حق میں اس طرح کی کسی بھی دستاویز کو عوامی عدالت میں پیش نہیں کرسکی ۔اگرچہ اب چند سال پہلے ایک ایسی دستاویز کے منظر عام پر آنے کی اطلاعات ہیں مگر اسکی صحت کے بارے میں کافی شک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے جن کا خاطر خواہ ازالہ نہیں کیا جاسکا ہے-

فریقین کی جانب سے مسابقانہ بیانیوں سے قطع نظر اس بات پر سب متفق ہیں کہ موجودہ شکل میں سابقہ ریاست جموں و کشمیر کی تقسیم حتمی نہیں اور یہ کہ بھارت کے ساتھ الحاق کی وجہ سے نہ صرف ریاست میں قتل و غارتگری کی شروعات ہو ئی جو ہنوز جاری ہے بلکہ اس سے پورے خطے کے حالات مستقل طور پر کشیدہ اور دگرگوں رہتے ہیں- اگرچہ بھارت کی موجودہ حکومت بلکہ اس سے پہلے کانگریس اور دیگر جماعتوں کی حکومتیں بھی مسئلے کی موجودگی سے گاہے بہ گاہے انکاری ہیں مگر پھر بھی وہ علاقے میں جاری کشیدگی اور قتل و غارتگری پر جس طرح کا مؤقف اپناتی ہیں یا اپنے مخصوص بیانیے کو تقویت دیتی ہیں اس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ بے پناہ ریاستی ظلم اور جبر کے باوجود مسئلہ کشمیر نہ صرف زندہ ہے بلکہ اس سے پیدا ہونیوالی کشیدگی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے- یہ نہ صرف ڈیڑھ کروڑ کشمیریوں کے مستقبل کا مسئلہ ہے بلکہ اس سے پیدا ہونے والے غیر مستحکم حالات کی وجہ سے پورے خطے میں رہنے والے ڈیڑھ ارب سے زائد لوگوں کا مستقبل بھی غیر محفوظ بنادیا ہے- ستر سال سے کشمیری غیر یقینی صورتحال میں جی بھی رہے ہیں اور مر بھی رہے ہیں- مجھے اب تک یاد ہے کہ 1990ءکی عوامی بغاوت کی ابتدا میں میں ایک بار ایک دیہاتی بستی میں رپورٹنگ کیلئے گیا تو ایک عمر رسیدہ شخص نے میرے اس سوال کے جواب میں کہ وہ کیسے ہیں بتایا کہ ’’ہم زندہ تو ہیں مگر موت کے محاصرے میں ہیں‘‘- تب سے بار بار مجھے انکی بات یاد آتی ہے-

اسطرح کے جذبات کم و بیش سارے کشمیری رکھتے ہیں حتیٰ کہ بھارت سے الحاق کی حامی کشمیری سیاسی قیادت بھی- یہاں کے ادیبوں اور دانشوروں نے بھی الحاق کی موجودہ حقیقت اور اس سے پیدا ہونیوالی مخصوص صورتحال کو اپنی نگارشات کے توسط سے بیان کرنے کی سعئ کی ہے- والد مرحوم پروفیسر غلام محمّد شاد نے اسکو یوں بیان فرمایا ہے:

اس رشتہ الحاق کی تعریف کیا کریں

ہے اسکی ابتدا بھی غلط، انتہا غلط

ہم نے دلائی یاد جب ایفائے عہد کی

ہر بار جو جواب ملا ہے، ملا غلط

زنجیر برہمن میں جب سے شیخ بندھ گئے

سب جانتے ہیں شاد تھا یہ سلسلہ غلط

الحاق کے بعد کشمیر کو کس صورتحال سے دوچار ہونا پڑا اسکے بارے میں آپ کہتے ہیں:

اجڑتا جارہا ہے کشمیر آہستہ آہستہ

بنی جاتی ہے ہر بستی کھنڈر آہستہ آہستہ

جواں فرزند، دختر، بوڑھے غائب ہوتے جاتے ہیں

ملے الحاق کے کیا کیا ثمر آہستہ آہستہ

کشمیریوں سے کئے گئے وعدوں کے بارے میں آپ رقمطراز ہیں:

ہم نے آزادی کا پروانہ دکھانے کو کہا

کان بہرے سنتے سنتے لن ترانی ہوگئے

اس نے ہم سے جو لیا، تحریر میں آیا نہیں

جتنے بھی وعدے ہوئے وہ منہ زبانی ہوگئے

اور اس کے بعد حالات نے جو پلٹا کھایا اس سے زمینی سطح پر کافی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں:

زبان غیر ہے کس کس دھن میں کیا کہئے

عجیب لہجہ ہے ہر اک سخن میں کیا کہئے

ہر اک مکان پہ طاری ہے زلزلہ پیہم

ہر اک مکین ہے رنج و محن میں کیا کہئے

نئے لباس ترنگے پہن کے آئے ہیں

گئے تھے گھر سے سبز پیرہن میں کیا کہئے

مہیب مردنی کیا گلستاں پہ چھائی ہے

نہ جان گل میں نہ ہے گلبدن میں کیا کہئے

ہمارے شہر میں سنسان ہیں گلی کوچے

سکوت شب کا ہے دن میں صحن میں کیا کہئے

وادی کے معروف شاعر اور ڈرامہ نویس بشیر دادا نے حالات کی عکاسی کچھ اس طرح کی ہے:

خود غلط، انشا غلط، املا غلط

تو سراپا ہے پس پردہ غلط

راکھ کرسکتا نہ دشمن آشیاں

کیا کروں ہے دوست ہی اپنا غلط

عشق میں مجھ سے بھی کوتاہی ہوئی

تھا مگر معشوق بھی تھوڑا غلط

ایسے ہی حالات کی عکاسی کرتے ہوئے چند سال پہلے میں نے ایک طویل نظم کہی تھی جس کا ایک بند پیش خدمت ہے:

‎ہر ایک دن ہے ارغواں

‎ہر ایک شب اندھیر ہے

‎ہر ایک شے کا زاویہ

‎ہر ایک چشم خبث ہے

‎ہر اک شمار نحس ہے

‎ہر ایک پل وبال ہے

‎تخلیؤں پہ زنگ ہے

‎سکوں کو احتیاج ہے

‎تصّور غنیم میں

‎ہر ایک دل کثیف ہے

‎ہر اک نمو کے زمزمے

‎ہر ایک پل پہ ثبت ہے

‎ہر اک خبر پہ اہرمن کے

‎حاشیوں کی چھاپ ہے

‎ہر ایک برج پر

‎قضائے بے پناہ سوار ہے

‎گئے رتوں کی برکتیں

‎ہر اک خیال خوشنما

‎ستمگروں کے خوف سے

‎غنود رنگ ہوگیا۔

‎سحر کے دائروں میں گم

‎ہر ایک سوچ قید ہے

‎تھکے ہوئے ہیں فاصلے

‎رکی ہوئی ہیں منزلیں

‎ہر اک گھڑی جو معتبر تھی

‎خوف سے ہے منجمد

‎کوئی بھی لمحہ معتدل نہیں

‎کہ جس کی چھاؤں میں

‎پنپ سکیں امید و آشتی

‎کی کوئی کونپلیں

‎نمو کے سارے سلسلوں پہ

‎سایۂ خریف ہے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین