• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شماریات کی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ اس وقت برطانیہ میں مسلمانوں کی کل تعداد کا تقریباً ستر فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ یہ نوجوان بیس سے پینیس سال کی عمر کے ہیں۔ بوڑھی نسل آہستہ آہستہ نظروں سے اوجھل ہو رہی ہے اور نوجوان ہر طرف نظر آرہے ہیں۔ سکولوں میں کالجوں میں یونیورسٹیوں میں ریستورانوں میں گلیوں میں سڑکوں پر آپ کی ہر طرف مسلمان نوجوانوں کے گروہ نظر آئیں گے ۔ حتیٰ کہ آپ کسی مسجد میں چلے جائیں تو جمعہ کے دن آپ کو اکثریت نوجوانوں کی نظر آتی ہے۔ لیکن یہ نوجوان عام طور پر مسجد کے باہر کھڑے ہوکر اس بات کا انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کب امام صاحب اپنا اردو کا خطبہ مکمل کریں اور عربی خطبہ شروع کریں تاکہ یہ اندر جاکر مسجد میں نماز ادا کرسکیں۔ کیونکہ برطانیہ میں پیدا ہونے والے اور یہاں پروان چڑھنے والے نوجوانوں کو اس طرح کی مشکل اردو سمجھ نہیں آتی جو عام طور پر مساجد کے خطیب صاحبان استعمال فرماتے ہیں۔ اس لئے آپ دیکھتے ہیں کہ جن مسجدوں میں انگریزی میں امام صاحب تقریر کرتے ہیں وہاں نوجوان شوق سے جاتے ہیں اور پہلی صفوں میں جاکر بیٹھتے ہیں اور توجہ سے سنتے لیکن ایسی مساجد جہاں جمعہ کو انگریزی میں تقریر کی جاتی ہے برطانیہ کی کل مساجد میں بہت کم تعداد میں ہیں۔ یوں سمجھے کہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ اس لئے نوجوانوں کا مسجدوں سے آہستہ آہستہ رابطہ منقطع ہوتا جارہا ہے اور جیسے ہی وہ کالجوں اور یونیورسٹیوں پر جاتے ہیں۔ تو وہاں اجنبی لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ جو انہیں یا تو ڈرگ مافیا کے حصہ بنا دیتے ہیں اوریا پھر انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ کر دہشت گردی کے منصوبوں کے ذریعے اپنی نوجوان خون کے جوش کو تسکین پہنچانا چاہتے ہیں برطانیہ میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ تین فیصد ہے۔ یعنی کل آبادی میں ہر سومیں تین مسلمان ہیں لیکن جیلوں میں ہر سو میں تیرہ مسلمان ہیں برطانیہ کی جیلیں مسلمانوں سے بھری پڑی ہیں اور جیل حکام اور حکومت کے محکمے اس معاملے میں سوچ بچار کرتے رہتے ہیں کہ کس طرح مسلمان نوجوانوں میں جرائم کی تعداد میں کمی کی جاسکتی ہے اور کس طرح انہیں برطانوی معاشرہ کا مفید اور کارآمد شہری بنایا جاسکتا ہے تاکہ جو اپنی قید کی مدت مکمل کرکے رہا ہوں تو وہ معاشرے میں مفیصد صحت مند سرگرمیوں کا حصہ بنیں اور اسی طرح دوبارہ جرائم کرکے واپس جیلوں میں نہ آئیں۔ اس سلسلے میں جیلوں میں مسلمان کمیونٹی کے نمائندہ اور اہم افراد کو دعوت دی جاتی ہے کہ تاکہ وہ جیلوں میں اپنے مسلمان قیدیوں کی رہنمائی کریں یورپین پارلیمنٹ کے پہلے مسلمان ممبر سجاد کریم برطانوی مسلمانوں کے لئے مختلف پہلوؤں سے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں سجاد کریم برطانیہ میں پیدا ہوئے یہیں پر تعلیم حاصل کی۔ ان کے والدین محنت مزدوری کے لئے برطانیہ آئے تھے۔ سجاد کریم نے برطانیہ میں سکول کی تعلیم مکمل کرکے خود محنت مزدوروں سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ آج کا ایک کامیاب سولیسٹر ایم ای پی سجاد کریم ایک فیکٹری میں مزدور کی حیثیت سے کام کرتا رہا ہے۔ اور سجاد کریم کو اپنے اس پس منظر پر فخر ہے اور ان کی خود اعتمادی کا اظہار ہے۔ لیکن سجاد کریم نے زندگی میں حوصلہ نہیں ہارا ایک محنت کش سے لیکر ایک فرم آف سالیسٹر چلانے تک ایک کونسلر سے لیکر ممبر آف یورپین پارلیمنٹ تک سجاد کریم کی زندگی ایک بھرپور جدوجہد اور انتھک محنت سے عبارت ہے۔ اپنے جذبات احساسات اور اپنی زندگی کے تجربات مسلمان قیدیوں کے سامنے بیان کرتے ہوئے ایک اجتماع میں جب انہوں نے اپنی مثال دے کر بتایا کہ کس طرح انہوں نے زندگی میں مختلف مرحلہ پر مرحلہ قدم بہ قدم کامیابی اور کامرانی کی سیڑھی پر قدم رکھتے گئے تو مسلمان قیدیوں کے چہرے امید کی روشنی سے چمک اٹھے ان کے چہروں سے عزم و یقین کی نئی کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔ دراصل کمیونٹی کا لیڈر وہی ہوتا ہے جو اپنی کمیونٹی کی حوصلہ شکنی کرنے کی بجائے انہیں آگے بڑھتے زندگی کے تلخ تجربات سے نبرد آزما ہونے اور مسلسل جدوجہد کا سبق دے جس طرح اقبال نے امت مسلمہ کو خواب غفلت سے بیدار کرتے ہوئے کہا تھا۔#
یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں
ایم ای پی سجاد کریم بتاتے ہیں کہ انہیں زندگی میں محنت کرنے مسلسل جدوجہد کرنے اور معاشرہ میں اپنا مقام بنانے کا درس ان کے دادا نے دیا تھا۔ ان کے دادا نے جن کے ساتھ ساجد کریم اپنے بچپن میں چند مہینے گرمیوں کی چھٹیوں کے گزارے تھے انہیں بتایا تھا کہ اگر برطانیہ میں مستقل طور پر رہنا ہے تو بھر اسے اجنبی ملک اور پردیس سمجھ کر نہ رہنا بلکہ اسے اپنا مستقل وطن سمجھتے ہوئے اس کی بہتری کے لئے کوشش کرنا اور اس میں اپنا نام پیدا کرنا۔ میں سوچتا رہا کہ سجاد کریم کے دادا جو ایک پاکستان کے ایک دیہات کے عام انسان تھے کتنی بڑی عقلمندی اور دانش والی بات کی تھی جسے لڑکپن کی ابتدائی منزل پر قدم رکھتے ہوئے سجاد کریم نے ہمیشہ یاد رکھا اور ہمیشہ زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھتا رہا ۔ کاش برطانیہ میں مسلم کمیونٹی کے بزرگ اور والدین اپنی کمیونٹی اور اپنے بچوں کو برطانوی معاشرہ کا حصہ بنتے اور یہاں اپنی تہذیب اپنے کلچر اور ثقافت اپنی تاریخ اپنے مذہب، اپنے عقیدے اور نظریئے کے ساتھ جڑے رہنے کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کے ساتھ بھی باہمی تعلق اور رابطہ INTERACTION کا درس دیں تو ہمارے نوجوان بے راہ روی کا شکار نہ ہوں۔ ان کی زندگی کا کوئی مقصد ہو اور ان کے اندر منزل کے پالنے کی آرزو اورجستجو ہو۔ یہ بے مقصد بازاروں گلیوں میں گھومتے ہوئے نظر نہ آئیں۔ اگر ”وائٹ کالر“ جاب نہیں ملتی تو محنت مزدوری کریں جدوجہد کو اپنا شعار بنائیں اس سلسلے میں علماء کرام اور مساجد بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہیں اور نوجوانوں کو MOTIVATE اور متحرک کرسکتی ہیں۔ ہمیں سجاد کریم جیسے نوجوان چاہئیں جو مزدور سے ایم ای پی اور سالیسٹر کا سفر طے کریں اقبال نے کہا:
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
تازہ ترین