• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عالمی تنظیم کے جاری سیشن میں مغربی ممالک کی جنیوا میں تخفیف اسلحہ کی کانفرنس کے دوران ایٹمی ہتھیار بنانے والے فژل مواد پر پابندی کے معاہدے پر مذاکرات میں آئے ڈیڈ لاک کو توڑنے کی نئی کوششیں سامنے آئی ہیں۔ 2009ء سے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے اس جمود پر بات چیت کو جاری رکھنے کیلئے متعدد سفارتی کوششیں کی ہیں۔ ان کوششوں میں پاکستان پر دباؤ بڑھانا بھی شامل ہے جس نے بات چیت کو ان بنیادوں پر معطل کر دیا ہے کہ مجوزہ معاہدہ جو صرف ہتھیاروں کی آئندہ تیاری پر پابندی لگاتا ہے اور فژل مواد کے موجودہ ذخیروں میں کمی کی کوئی بات نہیں کرتا ایک امتیاز کن پیمانہ بن جائیگا۔ یہ جنوبی ایشیاء میں تذویراتی توازن کو درہم برہم کردیگا اور تخفیف اسلحہ کے ضمن میں بھی ناکام ہو جائیگا کیوں کہ اس کا تعلق صرف ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ سے ہے۔ کچھ مغربی ممالک کی سفارتی کوششوں میں ان مذاکرات کو ’سی ڈی‘ سے باہر منعقد کرنے کی دھمکیاں بھی شامل ہیں جو تخفیف اسلحہ پر مذاکرات کا واحد کثیر سطحی فورم ہے۔ رواں سال جنرل اسمبلی کے سیشن میں کینیڈا نے تخفیف اسلحہ کی فرسٹ کمیٹی میں ایک قرارداد پیش کی جو اس کی1993ء میں اسپانسر کردہ قرارداد سے مماثل تھی۔ اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ جنیوا میں ’فژل مٹیریل کٹ آف ٹریٹی‘ پر فوراً مذاکرات شروع کئے جائیں۔ حالیہ قرارداد میں کینیڈا نے ایک نئی اور بے حد متنازع شق کا اضافہ کیا ہے کہ (اس سلسلے میں) حکومتوں کے ماہرین کا ایک گروپ(GGE)تشکیل دیا جائے۔ یہ تبدیلی ایف ایم سی ٹی پروسیس کو سی ڈی سے باہر منتقل کرنے کی پہلی سنجیدہ کوشش کے طور پر سامنے آئی۔ اب تک مذاکرات کو سی ڈی سے باہر منتقل کرنے کی دھمکیاں عمل سے زیادہ الفاظ تک محدود تھیں۔ گزشتہ سال ان منصوبوں نے اس وقت دم توڑ دیا تھا جب امریکی حکام نے اعادہ کیا کہ ایف ایم سی ٹی پر مذاکرات کے لئے سی ڈی ہی ایک مناسب مقام ہے۔ مگر اس سال فرسٹ کمیٹی کی میٹنگ کی تیاریوں کے دوران امریکی تشویش کا جواب دینے کے لئے قرارداد کی تشکیل نو کے تحت ایک مسودہ تیار کیا گیا جسے کینیڈا نے اسپانسر کیا تھا اور جس میں متعدد نئی شقیں شامل کی گئیں۔ اس کا مقصد کیا تھا؟ ایف ایم سی ٹی مذاکرات پر ضرورت سے زیادہ دباؤ ڈالنا۔ نئی قرارداد میں دو مرحلوں پر مبنی پروسیس کی تجویز دی گئی ہے۔ پہلے مرحلے میں عالمی تنظیم کے جنرل سیکریٹری سے ایف ایم سی ٹی پر ’رکن ریاستوں کی آراء کے حصول اور اس سلسلے میں جنرل اسمبلی کے آئندہ سیشن میں رپورٹ پیش کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ قرارداد کا بنیادی یا فعال پیرا گراف ’سیکریٹری جنرل سے 2014ء میں25 ریاستوں کی رکنیت کے ساتھ گورمنٹل ایکسپرٹس کے ایک گروپ کی تشکیل کی مزید درخواست کرتا ہے‘ جو ’ایسے ممکنہ اقدامات کی‘سفارشات پیش کرے ’جو ایف ایم سی ٹی پر ’مذاکرات نہیں بلکہ (اس سلسلے میں) معاونت کر سکیں‘۔ یہ رپورٹ جنرل اسمبلی کے2015ء کے سیشن میں پیش کی جانی ہے۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر سی ڈی درمیانی عرصے میں ایف ایم سی ٹی پر مذاکرات شروع کر سکتی ہے تو ماہرین کا گروپ اس کی کارروائی سے نتیجہ اخذ کرنے کے بعد اسے سی ڈی کے حوالے کرے گا۔ قرارداد کے متن پر شدید سفارتی مول تول کے بعد اسے5نومبر 2012ء کو جنرل اسمبلی میں اڈاپٹ کیا گیا۔ اس اقدام کی پوشیدہ اہمیت کے باوجود ووٹنگ کے دو پہلو تجویز کردہ راہ عمل کی معقولیت کے بارے میں سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ مجموعی قرارداد پر ووٹنگ میں زیادہ تر عرب گروپ کے ممالک نے حصہ نہیں لیا، پاکستان کا ووٹ نفی میں تھا جب کہ148/اقوام نے ہاں میں ووٹ دیا۔ یہ کیفیت گزشتہ سال کی ووٹنگ کے طرز عمل کی عکاس تھی جس سے قرارداد کی بابت اتفاق رائے میں مزید کمی کا اظہار ہوا۔ جن ممالک نے رائے دہی سے احتراز کیا ان کی تعداد سے زیادہ اہمیت ان ممالک کے سیاسی وزن کی ہے جن میں خاص طور پر چین (بھی) شامل ہے۔ رائے دہی سے گریز کرنے والے ممالک کی تعداد اور سیاسی حیثیت اس بات کا اشارہ ہے کہ قرارداد اسپانسر کرنے والوں کے تصور کے برخلاف آئندہ کی راہ اتنی ہموار نہیں ہو گی۔ یہ کیفیت قرارداد کے فعال پیرا گراف کے بارے میں جداگانہ ووٹنگ سے مزید نمایاں ہے جس میں25رکنی گورمنٹل ایکسپرٹس کے گروپ کی تشکیل کی تجویز دی گئی ہے۔ چین نے یہاں بھی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور روس اور اسرائیل نے بھی ایسا ہی کیا۔ اس سے ان ممالک کے ایف ایم سی ٹی کو سی ڈی سے باہر منتقل کرنے اور تخفیف اسلحہ کی مضبوط مشینری کے کردار کو گھٹانے پر اعتراض کا اظہار ہوا۔ حکومتی ماہرین کا گروپ کس طرح ایف ایم سی ٹی پر پیشرفت کر سکتا ہے جب کہ پاکستان اور اسرائیل اس راہ پر چلنے کے لئے تیار نہیں اور پانچ مستقل اراکین میں سے دو نے رائے دہی سے گریز کیا ہے؟ تخفیف اسلحہ کے کچھ دیگر معاہدوں کے بر عکس ایف ایم سی ٹی کو موثر ہونے کے لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ فژل مواد تیار کرنے والے تمام ممالک کنونشن میں شریک ہوں۔ کسی بھی ایک جوہری ملک کی معاہدے میں عدم شرکت سے اسکے معنوں میں تو کمی نہیں آئے گی مگر یہ کمزور ہو جائیگا۔ جنرل اسمبلی میں سامنے آنے والا سوال یہ ہے کہ یہ ’نیا‘ عمل سی ڈی سے باہر کس طرح کارگر ہو گا جب کہ اسکے خلاف دو مستقل اراکین کے علاوہ دیگر ممالک سمیت پاکستان، ایران اور اسرائیل کو تحفظات درپیش ہیں۔ ایف ایم سی ٹی کیلئے دیگر مقامات پر بات چیت کے انعقاد کی کوششوں کے تمام تر سابقہ غیر رسمی اقدامات بے سود ثابت ہوئے ہیں۔ اپنے منفی ووٹ کی وضاحت کرتے ہوئے فرسٹ کمیٹی میں پاکستان کے وفد نے حکومتوں کے ماہرین کے گروپ کی تشکیل کو ’خراب مشورہ‘ قرار دیا۔ اس سے پروسیس میں کسی قدر کا اضافہ نہیں ہوا اور اسکے بجائے ’سی ڈی کی اہمیت کم ہو گئی‘۔ قرارداد پر ووٹنگ سے قبل سی ڈی کے لئے پاکستانی وفد کا بیان نہایت مفصل تھا۔ سفیر ضمیر اکرام نے علامتوں کا علاج کرنے کے بجائے جنیوا میں سامنے آنے والے جمود کے اسباب کو سامنے لانے کیلئے ”معروضی جائزے“ کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس مشکل سے نمٹنے کے لئے پیش کردہ نام نہاد ’حل‘ چنیدہ اور امتیاز کرنے والے ہیں اور یہ توقعات کہ کسی معاہدے کو طے کر لیا جائے گا…جو متعدد رکن ممالک کے مفادات کے خلاف ہے… غیر حقیقی ہیں کیوں کہ وہ اصل ایشوز سے نمٹنے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ اس سب کے باوجود کینیڈین قرارداد کے جنرل اسمبلی میں منظور کئے جانے کے ساتھ ساتھ توقع ہے کہ مغربی اقوام ایف ایم سی ٹی پر مذاکراتی عمل کی رفتار میں اضافے کے لئے اپنی کوششوں کو بڑھا دیں گی۔ ماہرین کے گروپ کی تشکیل کی تجویز کے امکانی طور پر دو اہداف ہو سکتے ہیں (الف) سی ڈی کے رکن ممالک بطور خاص پاکستان پر مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کے لئے دباؤ میں اضافہ اور (ب) ایک حتمی معاہدے کے لئے گروپ کو جہات کی وضاحت کے اوزار کے طور پر استعمال کرنا۔ اگر ایسا آئندہ دو سال کے اندر کر لیا جاتا ہے تو انہیں عالمی تنظیم میں تصدیق کے لئے بھیجا جا سکتا ہے۔ یہ عمل اس طریق کار کی مثل ہو گا جس پر 1996ء میں ’کمپری ہینسو ٹیسٹ بین ٹریٹی‘ کو اڈاپٹ کرنے کے لئے عمل کیا گیا تھا جب بھارت نے سی ڈی میں اس کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کر دی تھی۔ مگر آج اس عمل کو دہرانے کی توقعات مدہم ہیں کیوں کہ اہم جوہری ممالک میں اس کے لئے درکار سپورٹ ناکافی ہے۔ درحقیقت سی ڈی میں در آئے جمود سے نمٹنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ مجوزہ معاہدے کو اس طرح تشکیل دیا جائے کہ وہ تمام نہ کہ کچھ رکن ممالک کے سیکورٹی مفاد میں ہو۔ پاکستان ایک طویل عرصے سے سی ڈی میں موجود دشواری کی شناخت اور اس کا حل پیش کر چکا ہے۔ معاہدے پر پاکستان کے تحفظات کی جڑیں ناگریز سیکورٹی مفاد سے جڑی ہیں نہ کہ تذویراتی ضد سے، جس کا اکثر مخالفین چرچا کرتے ہیں۔ موجودہ حالت میں ایف ایم سی ٹی بم تیار کرنے کے مواد کے ذخیروں کی غیر مساوی مقدار کے اہم مسئلے سے نمٹنے میں ناکام ہے جس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان عدم توازن ایک ہی جگہ پر رہ جائے گا۔ اس طرح پاکستان کی ڈیٹرینٹ استعداد کو دبایا جا رہا ہے جب کہ دوسری طرف بھارت کو امریکہ اور نیوکلیئر سپلائی گروپ کی طرف سے دیئے گئے جوہری استثنیٰ کے ذریعے اس سے بچاؤ کی راہ فراہم کر دی گئی ہے۔ بھارت کے متعدد ممالک سے ایندھن کی فراہمی کے معاہدے (جوہری مواد کی) فراہمی کو یقینی بنائیں گے اور بھارت کو ری ایکٹر گریڈ مواد کو پروسیس کرنے کے قابل بنا دیں گے کیوں کہ بھارت کو ایسا کرنے سے باز رکھنے کے لئے کوئی قواعد موجود نہیں ہیں۔ بھارت کو جب بھی ضرورت ہو گی وہ اس مواد کو ایٹمی ہتھیار تیار کرنے والے مواد میں تبدیل کر دے گا جس سے اس کے تذویراتی اثاثوں میں اضافہ ہو گا۔ جنیوا میں مذاکرات کے دوبارہ آغاز کا واحد راستہ جمود کے ذمہ دار ایشوز سے نمٹنا ہے۔ تمام ممالک کی سیکورٹی کی ضمانت معاہدے کی بنیاد ہونی چاہئے۔ اس اصول کو نظر انداز کرنے اور تخفیف اسلحہ کی قائم شدہ کثیر جہتی مشنری کا طواف کرتے رہنے کی کوشش محض متضاد نتائج کو جنم دے گی۔ ایف ایم سی ٹی کا مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک کوئی بھی جوہری ریاست خود کو معاہدے سے دور رکھتی ہے کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے اپنے سیکورٹی مفادات کیخلاف تصور کرتی ہے یا پھر ایک ایسے معاہدے کے طور پر جسے اس کی عدم موجودگی میں طے کیا گیا ہو۔
تازہ ترین