• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے محکمہ تعلیم میںا سکولوں کی سطح پر سائنس ٹیچرز کی کمی پوری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں واپس لانا ہے وزیراعلیٰ کا یہ عزم ایک خوش آئند پیش رفت ہے تاہم اساتذہ کی بھرتی اور اسکولوں میںزیادہ سے زیادہ بچوں کی انرولمنٹ ہی کافی نہیں، سندھ سمیت پورے ملک میں اس وقت سرکاری اسکولوں کی کارکردگی ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے گوکہ ا ٓج بھی ان کی فیسیں کم ہونے کی وجہ سے بیشتر سرکاری اداروں میں بچوں کی تعداد گنجائش سے زیادہ ہے تاہم گزشتہ کم وبیش چار دہائیوں سے جب سے نجی اسکولوں کی تعداد بڑھنے لگی ، ملک بھر میں اب تک 15 فیصد سے زائد سرکاری اسکول بند ہو چکے ہیں دوسری طرف ملک کی آبادی میں اتنے برسوںمیں جو اضافہ ہوا ہے اس شرح سے اسکول کھولنے کی اوسط پانچ فیصد سے زیادہ نہیں۔ بلوچستان میں آج بھی 40فیصدا سکول بجلی سے محروم ہیں 28فیصدا سکولوں میں ٹائلٹ نہیں،25فیصد چار دیواری سے محروم ہیں جہاں بااثر لوگوں کے مال مویشی باندھے جاتے ہیں۔ اندرون سندھ کے حالات بلوچستان سے زیادہ مختلف نہیں۔ سندھ میں اب تک 45555 میں سے5483 اسکول بند ہو چکے ہیں ملک بھر کے دیہی علاقوں میں اکثریت ایسے اسکولوں کی ہے جہاں صرف ایک ہی ٹیچر پڑھا رہا ہے۔ دوسری طرف تعلیم اب لگی بندھی نہیں رہی، پوری دنیا کا تعلیمی نظام ایک دوسرے سے مربوط ہو چکا ہے۔ اس معیار پر پاکستان کے نجی سطح سے تعلق رکھنے والے محض گنے چنے اسکول پورا اترتے ہیں ملک کے بیشتر پرائمری اسکولوں میں آج بھی اساتذہ 70سال پہلے کے طرزپر بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔ اب دنیا کے ساتھ چلنا ناگزیر ہو چکا ہے، اس کے لئے ہمیں اپنے تعلیمی ڈھانچے پر نظر ثانی کرنا ہو گی گوکہ پاکستان میں تعلیم اب صوبائی معاملہ ہے تاہم معروضی حقائق سامنے رکھتے ہوئے سب کو ایک معیار اپنانا ہوگا۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین