• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک گائے نے اپنے ’’ جانور پن ‘‘ میں وہ کام کر دیا، جو ہم انسان اپنی اعلیٰ فہم و دانش کے ساتھ بھی نہیں کر سکتے ۔ اس گائے نے پاکستانی سماج کی وہ تصویر کشی کی ہے ، جو کوئی بڑا فلسفی یا ادیب بھی نہیں کر سکتا ۔ گائے نے یہ بھی بتا دیا کہ فرسودہ اقدار اور روایات کی عہد نو پاسداری نہیں کرے گا ۔ واقعی کمال کردیا ، اس گائے نے۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں نیاز محمد نامی ایک شخص کی ایک گائے ، جس کا کوئی مخصوص نام نہیں ، وفاقی وزیر اعظم خان سواتی کے فارم ہاؤس میں چلی گئی ۔ جانور کو کیا پتہ کہ وفاقی وزیر کیا ہوتا ہے اور اعظم خان سواتی کون ہیں ۔ رپورٹس کے مطابق فارم ہاؤس کے چوکیدار اور محافظوں نے گائے کو پکڑ کر بند کر دیا ۔ گائے کے مالکان اپنی گائے واپس لینے آئے تو چوکیدار اور محافظوں سے ان کا جھگڑا ہو گیا ۔ اعظم خان سواتی کہتے ہیں کہ گائے کے مالک نیاز محمد اور اس کے اہل خانہ نے ان کے چوکیداروں اور محافظوں کو مارا پیٹا ۔ نیاز محمد کا 12 سالہ بیٹا کہتا ہے کہ وفاقی وزیر کے محافظوں نے ان سب پر تشدد کیا ۔ اس واقعہ پر وفاقی وزیر کے صاحبزادے عثمان سواتی نے نیاز محمد اور اس کے اہل خانہ کے خلاف تھانہ کیپٹل میں ایف آئی آر درج کرا دی اور پولیس سے کہا کہ گائے کے مالک خاندان کو گرفتار کریں ، جو فارم ہاؤس کے قریب جھگیوں میں رہتے ہیں اور وزیرستان میں خراب حالات کی وجہ سے یہاں ہجرت کرکے ’’ آباد ‘‘ ہوئے ہیں ۔ پولیس نے کسی وجہ سے کارروائی نہیں کی ۔ یہاں سے یہ کہانی دوسرا رخ اختیار کرتی ہے ۔ وفاقی وزیر کی حیثیت سے اعظم خان سواتی نے آئی جی اسلام آباد جان محمد کو فون کال کی ۔ وفاقی وزیر کہتے ہیں کہ ’’ میںنے آئی جی پولیس کو یہ بتایا کہ گائے کے مالکان نے ان کے ملازمین پر تشدد کیا ہے لیکن آئی جی نے 22 گھنٹے تک کچھ نہیں کیا ۔ اس کے بعد میں نے درجنوں مرتبہ انہیں کال کی لیکن میری کال ریسیو نہیں کی ۔ اس پر میں نے وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کو فون کرکے صورت حال سے آگاہ کیا ۔ شہریار آفریدی خود چل کر میرے پاس آئے ۔ پھر میں نے سیکریٹری داخلہ کو کال کی اور بتایا کہ آئی جی کال ریسیو نہیں کر رہا ۔ اس پر سیکرٹری نے معذرت کی ۔ اس پر میں نے وزیر اعظم عمران خان اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو تحریری طور پر آگاہ کیا ۔ اس طرح آئی جی پولیس اسلام آباد کو ہٹا دیا گیا ۔ گائے کا معاملہ وزیر اعظم تک پہنچا اور آئی جی پولیس عہدے سے ہٹ گیا ۔ یہاں تک لوگوں کو پتہ نہیں چلا ۔ یہیں سے ففتھ اسٹیٹ میڈیا کود پڑا ۔ پھر اچانک فورتھ اسٹیٹ میڈیا پر خبریں چلنے لگیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے آئی جی اسلام آباد کو ہٹانے کا ازخود نوٹس لے لیا اور کیس کی سماعت کے دوران آئی جی کو عہدے پر بحال بھی کر دیا ۔ اس پر وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد کو یہ کہتے ہوئے لوگوں نے سنا کہ اگر وزیر اعظم آئی جی کو نہیں ہٹا سکتا تو پھر الیکشن کرانے کی کیا ضرورت تھی ۔ آئی جی اسلام آباد جان محمد کے ہٹتے ہی نیاز محمد ، اس کے 12 سالہ بیٹے ضیاء الدین ، بیٹی اور بیوی کو بھی گرفتار کرلیا کیونکہ عثمان سواتی نے ایف آئی آر میں ان کے نام دیئے تھے اور ان پر الزام تھا کہ انہوں نے وفاقی وزیر کے ملازمین پر تشدد کیاہے ۔

کہانی اس قدر دلچسپ تھی کہ سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے انویسٹی گیشن شروع کی ۔ پتہ چلا کہ جس مذکورہ فارم ہاؤس کی زمین پر غیر قانونی قبضہ ہے ۔ یہ زمین سی ڈی اے کی ہے ۔ وفاقی وزیر نے وزیرستان سے آئے ہوئے لوگوں پر بھی قبضے کا الزام عائد کیا اور انہیں سیکورٹی رسک بھی قرار دیا ۔ عثمان سواتی نے عدالت میں جا کر فریقین سے صلح کر لی اور وہ رہا ہو گئے لیکن چیف جسٹس نے معاملہ ختم نہیں ہونے دیا انہوں نے نہ صرف اس معاملے کی تحقیقات کے لئے ’’جے آئی ٹی ‘‘ بنا دی ہے بلکہ چیف جسٹس نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ اعظم خان سواتی کو استعفیٰ دینا چاہئے ۔ انہوں نے وفاقی وزیر پر آئین کے آرٹیکل 62 ۔ ون ایف کے اطلاق کی بھی بات کی ۔

ایک گائے نے یہ بتایا دیا کہ پاکستان میں دولت مند اور طاقتور لوگ غریب اور لاوارث لوگوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں ۔ گائے کی اس کہانی میں لوگوں کو یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اب پاکستان میں اعلیٰ سیاسی عہدوں کے لئے نظریات اورقربانیوں کی ضرورت نہیں ۔ پیسہ بہت اہم ہو گیا ہے ۔ میں نے کئی سیاسی جماعتوں کے قائدین کیساتھ وقت گزارا ہے ۔ وہ کسی ایسے شخص سے اپنے آپ کو دور رکھتے تھے ، جس کی ساکھ کسی بھی وجہ سے اچھی نہ ہو ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو میری نظر میں وہ آخری لیڈر تھیں ، جو اس بات کا خاص طور پر خیال کرتی تھیں ۔ اس کے بعد یہ سلسلہ نہ رہا ۔ گائے نے یہ بھی بتا دیا کہ ایک چھوٹے سے معاملے میں وزیر اعظم تک کود جاتے ہیں ۔ یہ بھی سب کچھ پاکستا ن میں ہوتا ہے ۔ گائے نے یہ بھی بتا دیا کہ اسلام آباد کے مہنگے علاقے میں بھی کئی ایکڑ سرکاری اراضی پر اجازت حاصل کئے بغیر فارم ہاؤس بنائے جا سکتے ہیں اور اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی ۔ پولیس بھی بچوں اور خواتین کو مردوں پر تشدد کے الزام میں گرفتار کر لیتی ہے ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ گائے نے اس سیاسی جماعت کو بے نقاب کر دیا ، جس نے ہمیشہ پاکستانی سماج کی ان کمزوریوں کو ختم کرنے اور تبدیلی لانے کا دعویٰ کیا تھا ۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے جس طرح وزیر اعظم کے اقدام اور اعظم خان سواتی کے کردار کا دفاع کیا ، اس پر ایک دوسرے سے لوگ پوچھنے لگے کہ ’’ یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں ؟ ‘‘ یہ ساری باتیں پاکستانی سماج کا خاصا ہیں لیکن نیاز محمد کی گائے نے یہ بھی بتا دیا کہ اب وقت تبدیل ہو گیا ہے ۔ اب باتیں نہ چھپتی ہیں اور نہ دبتی ہیں ۔ اب لوگوں میں ابلاغ کا ایک ذریعہ پیدا ہوچکا ہے، جس پر سرمایہ داروں، جاگیرداروں، کثیر الاقوامی کمپنیوں ، حکمرانوں ، خفیہ ایجنسیوں اور اسٹیبلشمنٹ کا کنٹرول بھی نہیں ہے ۔ خوش قسمتی سے پاکستان میں وہ حالات بھی ہیں ، جنہیں کچھ لوگ عدالتی سرگرمی سے تعبیر کرتے ہیں اور میاں ثاقب نثار جیسا قاضی بھی ہے ۔ نیاز محمد کی گائے نے وہ کام کر دیا ہے ، جو ہم کئی کالم اور کتابیں لکھ کر نہیں کر سکتے تھے ۔ یہ کام سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی حربوں سے انجام نہیں دے سکتیں اور یہ کام فلسفی اور ادیب بھی اس طرح نہیں کر سکتے ۔ پہلے بھی کسی گائے سے ایسا کام نہیں ہوا ۔ نیاز محمد کی گائے کو فائدہ ( Advantage ) یہ ہے کہ وہ ایک ایسے دور کی گائے ہے ، جس میں سوشل میڈیا اور آزاد عدلیہ ہے ۔ یہ دور ازخود تبدیل ہو گیا ہے اور اس میں تبدیلیوں کے مزید کئی طوفان جنم لے رہے ہیں ۔ نیاز محمد کی گائے کی کہانی سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ اس عہد میں لوگوں کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین