• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

minhajur.rab@janggroup.com.pk

وزیرخزانہ نے قومی اسمبلی میں پراعتماد تقریرکرتے ہوئے فرمایا کہ اب وقت آگیا ہے کہ آئی ایم ایف کو خداحافظ کہاجائے اور اس کے لیے ہمیں اپنی برآمدات کو بڑھانا ہے۔ پھر " آواز" دی جو کوئی برآمدات کو بڑھاسکتا ہے آگے آئے حکومت اسے مدد دے گی۔ پڑھنے اور سننے میں کتنا اچھالگ رہا ہے کہ بس اب برآمدات بڑھ جائیں گی اور قرضوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔۔۔۔۔لیکن یہ جادو ہوگا کیسے؟؟؟مرض کی تشخیص کئے بغیر علاج کیسے ممکن ہے؟کیا صرف کہہ دینے سے برآمدات بڑھ جائیں گی؟ برآمدکنندگان مستعداور پھرتیلے ہوجائیں گے؟مشینیں بڑی تیزی سے برآمدی مال تیار کرنے لگیں گی؟؟۔۔۔۔۔۔۔یقیناً نہیں! ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہمیں ہر چند مہینوں کے بعد قرضے حاصل کرنے کے لیے بھیک کیوںمانگنی پڑتی ہے؟ ادھار کشکول پھیلا کر کیوں لینا پڑتا ہے؟ ایک طرف حکومتی اخراجات حکومتی آمدنی سے زیادہ ہیں تو دوسری طرف درآمدات کا بل برآمدات کے بل سے زیادہ ہے۔ یعنی دونوں طرف وصولیاں ادائیگیوں سے کم ہیں۔ ایسے میں ادائیگی کیسے کی جائیں جس کے لیے قرضوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ حکومتی اخراجات زیادہ ہونے کی وجوہات یہ ہیں کہ حکومت نے اپنا دائرہ کار بہت زیادہ پھیلا یا ہوا ہے۔ جن شعبوں میں نجی ادارے بہتر کارکردگی دکھاسکتے تھے وہ بھی حکومت ہی کے کنٹرول میں ہیں۔ اسی طرح حکومتی اور پارلیمانی ارکان اور بیوروکریسی کی شاہ خرچیاں جنکی بدولت اخراجات کا بوجھ بڑھتا ہی جارہا ہے جنہیں کنٹرول کرنا اور متوازن سطح پہ لانا بہت ضروری ہے۔ جس کے لیے بہت سوچ بچار کے بعد بڑے فیصلے لینے ہوں گے جو کہ یقیناً ایک مشکل امر ہوگا۔ لیکن اگر کامیاب ہوگئے تو بہت سے غیرضروری اخراجات کو کم کیا جاسکے گا۔ اب آتے ہیں کرنٹ اکاؤنٹ یا تجارتی خسارہ کی طرف ہماری درآمدات مسلسل بڑھتی جارہی ہیں اور برآمدات میں خاطرخواہ اضافہ نہیں ہورہا ہے۔ اصل وجہ سرمایہ کاروں کا اعتماد ہے۔ جو 70کی دہائی میں قومیائے گئے ادارے یعنیNationalization Policyکی بدولت ٹوٹاتھا۔پھر80 کے آخر اور90 کے اوائل میں Denationalizationکی بدولت کچھ بحال ہونا شروع ہواہی تھا کہ 90 کی دہائی میں پی پی پی اور مسلم لیگ کی سیاسی جنگ کی بدولت بار بار معاشی پالیسیوں کی تبدیلی کے باعث نجی سرمایہ کاروں کا اعتماد اٹھ گیا جس کی وجہ سے شرح سود بہت کم ہونے کہ باوجود 2000 کے اوائل میں سرمایہ کارمتاثر نہ ہوئے۔ سرمایہ کاری میں اضافہ نہ ہوسکا جس کی وجہ سے Consumer اورHousing financingمیں پیسہ لگایا گیا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ زرعی زمینوں کو ختم کرکے ہاؤسنگ اسکیمیں نکالی جارہی ہیں ۔ کیونکہ اس میں سب محفوظ اور منافع بہت زیادہ ہے۔ لیکن اس کا نقصان پیداواری شعبہ میں واضح طور پر نظرآرہا ہے ۔ مقامی سرمایہ کاری میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے اور آبادی بڑھتی جارہی ہے۔ یعنی طلب میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔بنیادی ڈھانچہ( Infrastructure)کی رسد بھی طلب سے کم ہے۔ یوں ان کی قیمتیں مسلسل بڑھتی جارہی ہیں۔ تیسرے حکومتی پالیسیوں میں کوئی تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے سرمایہ کاری میں خطرے(Risk) کا امکان بڑھتاجارہا ہے۔ چوتھے ماحولیاتی خطرے کے پیش نظرحفاظتی اقدامات پہلے کرنے ہوتے ہیں۔(کرنے نہ بھی ہوں لیکن دیکھا نے توپڑھتے ہیں)۔یوںCost of doing business بڑھتی چلی جارہی ہے۔ لہذا بزنس کمیونٹی بہتر یہ سمجھتی ہے کہ بجائے یہاں سرمایہ کرنے کے باہر کے ملکوں سے مال منگواکر یہاں تقسیم کردے یوں درآمدات کا بل بڑھتا ہی چلا جارہاہے۔ اس وقت سب سے ضروری امر یہ ہے کہ کسی طرح سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا جائے۔ مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں سے ملاقاتیں کی جائیں۔ ان کے مسائل سنے جائیں ، انکی ضروریات کیا ہیں، انہیں دیکھا جائے اور پھر اس کے تحت لمبی مدت منصوبہ بندی کی جائے جس میں سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی شامل ہو۔ یوں کاروباری حضرات اور خواتین کو کاروبار میں آسانیاں دے کر انہیں راغب کیا جائے تاکہ ملکی پیداوار میں اضافہ ہو اورپیداواری (صنعتی اورزرعی) شعبہ کی شرح پیدائش اور حصہ کل قومی پیداوار GDP میں خدمات کے شعبہ سے زیادہ ہوسکے۔ زرعی اورصنعتی شعبوں کی اہمیت کوتسلیم کرتے ہوئے ان کی قومی آمدنی میںحصہ کو بڑھانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ سترسالوں سے ہم مخصوص اشیاء ہی برآمد کرتے چلے آرہے ہیں یا مخصوص ممالک کے ساتھ۔ اب برآمدات میں " تنوع" پیدا کرنا ہوگا۔ اس کے مختلف Destination تلاش کرنے ہوں گے۔ خاص طور پر زرعی شعبہ کی اجناس کو اب Value Addution کے ساتھ برینڈ نیم کے ساتھ بین الاقوامی مارکیٹ میں لانا ہوگا۔ اور اسی طرح ٹیکسٹائل انڈسٹریز کو اپنے پاؤس پر کھڑاکرنا ہوگا تاکہ دوسری صنعتیں مقابلہ کی فضا کو دیکھتے ہوئے آگے آئیں جس کے لیے سب سے ضروری ہے کہ اب برآمدات کے ساتھ ساتھ Import substitute industries (ISI)کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ درآمدات کے مدمقابل پیدا کرکے درآمدی بل کو کم کیا جاسکے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک دفعہ پھر انڈسٹریل Zones قائم کئے جائیں جہاں سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے سڑکوں کاجال بچھایا جائے ۔ بجلی، گیس، پانی کی مسلسل ترسیل کم قیمتوں پر کی جائیں۔ کاغذی عمل Documentation Processکو مشکل نہ رکھا جائے۔اور اس کے لیے سی پیک کا منصوبہ موجود ہے۔ لہذا اب سے زیادہ ضروری ہے کہ اب روڈ کی تعمیر کے بعد اب انڈسٹریل زون تعمیر کرنے کے لیے " معاشی ڈپلومیسی" والی خارجہ پالیسی اختیارکی جائے، چین کے ساتھ ساتھ جاپان، ملائیشیا، انڈونیشیا، کوریا، سنگاپور، ہانگ کانگ، بھارت، یواے ای، سعودی عربیہ کے ساتھ ساتھ یورپین ممالک اور امریکہ کے ساتھ تجارتی رشتے استوار کئے جائیں۔ کشکول قرضوں کے لیے نہیں سرمایہ کاری کے لیے پھیلائیں، جس میں " ٹیکنالوجی ٹرانسفر" سب سے اول درجہ پہ ہو۔ اس کے لیے بھلے سے ان کی منافع کی شرح زیادہ ہی کیوں نہ ہو آنے دیا جائے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اب صرف چین پر انحصار نہیں کرنا بلکہ سی پیک کے مخالفین کو بھی ملاکر ہی ان کی شمولیت کی بدولت ہی سی پیک کو کامیاب کروایا جاسکتا ہے ۔ ورنہ ایسا نہ ہو کہ ہم تنہائی کاشکار ہوکر بندگلی میں ہی پھنس جائیں اور دیوار سے ٹکرانے کے علاوہ کوئی اورراستہ نہ ہو۔ کیونکہ اب وقت دشمنوں کی تعدادبڑھانے کا نہیں بلکہ کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے معاشی مفادات کو سرفہرست رکھناہوگا۔ معاشی ڈپلومیسی پہ عمل کرتے ہوئے ملک کو ترقی دینی ہے جیسے کہ ترقی یافتہ ممالک کررہے ہیں اور کرتے ہیں۔

تازہ ترین