• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجیب الرحمٰن صدیقی

ترکی، عثمانی دَور میں خلافتِ اسلامیہ کا مرکز تھا۔ اس وقت اِس کا شمار دنیا کی عظیم ترین مملکتوں میں ہوتا تھا۔ اس کی سرحدیں یورپ، ایشیا اور افریقا تک پھیلی ہوئی تھیں، لیکن سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کے ساتھ ہی اس مملکت کے اجزاء منتشر ہوگئے۔ 1919ء میں ترکی کو ’’یورپ کا مردِبیمار‘‘ کہا جانے لگا اور یورپ کی سامراجی طاقتیں اس کی تکّا بوٹی کرنے کے دَر پے ہوگئیں۔ مسلمانوں کی زبوں حالی ضرب المثل بن چکی تھی اور عام طور پر یہی سمجھا جانے لگا تھا کہ اب دنیا میں مسلمان بہ حیثیت مسلمان آبرو مندانہ زندگی نہیں گزارسکتے، اگر انہیں زندہ رہنا ہے، تو جدید قدروں کو اختیار کرنا پڑے گا۔ یہی خیال ترکی کے مصطفیٰ کمال پاشا کا بھی تھا (جو بعد میں اتاترک کہلائے)۔ انہوں نے مذہبی اقدار کو کسی حد تک جھٹک کر جدیدیت اور جمہوریت کی تحریک چلائی اور لڑبِھڑ کر سلطنتِ عثمانیہ کے اس حصّے کو اغیار سے بچانے میں کام یاب ہوگئے، جسے آج ’’ترکی‘‘ کہا جاتا ہے۔ 23اپریل 1920ء کو ترکی کی عظیم قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس مصطفیٰ کمال پاشا کے زیرِ صدارت منعقد ہوا۔ اس اسمبلی نے 20جنوری 1921ء کو ایک دستور منظور کیا، جس میں عوام کی مطلق العنانی اور خودمختاری کو تسلیم کرتے ہوئے جملہ اختیارات کا سرچشمہ عوام کو قرار دیا گیا۔ عاملہ اور مقننّہ کے جملہ حقوق بھی عوام ہی کو تفویض کردیئے۔ شروع میں مملکت کو ’’سلطنتِ عثمانیہ‘‘ ہی کہا گیا، لیکن یکم نومبر 1922ء کو قومی اسمبلی نے ملک کا نام ’’جمہوریہ ترکیہ‘‘ رکھ دیا اور 29اکتوبر 1923ء کو ترکی عملاً ایک جمہوریہ بن گیا۔ ترکی کے اس انقلاب کے ساتھ نہ صرف سلطنتِ عثمانیہ ختم ہوگئی، بلکہ مصطفیٰ کمال نے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی اسلامی خلافت کا بھی خاتمہ کردیا۔ اس طرح دنیائے اسلام کی مرکزیت ختم ہوگئی۔ مصطفیٰ کمال نے اقتدار سنبھالتے ہی ایسے متعدد اقدامات اور اصلاحات کیں، جن کے سبب دنیائے اسلام میں یہ خیال ظاہر کیا جانے لگا کہ ترکی اسلام سے برگشتہ ہوگیا ہے، لیکن ان حالات میں بھی علامہ اقبال نے اس خیال کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ترکی دین سے برگشتہ نہیں ہوسکتا، وہ ایک دن پھر کعبےکا رخ کرے گا۔اور آج علّامہ اقبال کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہورہی ہے۔

یہ درست ہے کہ کمال اتاترک کی تحریک کے سبب ترکی میں اسلام کی چمک دمک کچھ ماند پڑگئی ، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہاں کے عوام کے قلب و ذہن سے اسلام کسی طور نکالا نہ جاسکا۔ جدیدیت اور اشتراکیت نے ترکوں کے دلوں سے دینِ اسلام کو محو کرنے کی بڑی کوشش کی، لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ بعدازاں، انہیں عربی میں اذان دینے اور نماز ادا کرنے کا حق واپس مل گیا۔ 1923ء سے 1946ء تک ترکوں کے لیے حج پر جانے کی پابندی تھی، لیکن 1947ء میں یہ پابندی بھی ہٹادی گئی، چناں چہ اب دنیا کے دوسرے خطّوں کی طرح ترکی کے مسلمان بھی ہر سال ہزاروں کی تعداد میں جوق در جوق سفر حج و عمرہ پر روانہ ہوتے ہیں۔ اسکولوں میں عربی میں قرآن مجید کی تعلیم لازمی قرار دے دی گئی ہے۔اور ترکوں میں دوبارہ یہ اسلامی روح بیدارکرنے میں دیگر عوامل کے ساتھ’’ یوسف ضیاء کوروکن‘‘ کی ایک کتاب ’’مسلمان یک‘‘ کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ اس کتاب نے پورے ترکی کو گویا اپنے سحر میں لے لیا۔دراصل اس کتاب میں اسلامی زندگی کو بڑے حسین پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب شہروں کے علاوہ دیہات میں بھی بڑے ذوق و شوق سے پڑھی گئی اور اس کے ذریعے ملک میں ہر طرف اسلامی طرزِ حیات کا چرچا ہونے لگا۔ عوام تو اسلام اور اسلامی زندگی کے خواہاں تھے ہی،اربابِ سیاست و سیادت کاقبلہ بھی درست ہونے لگا۔

1961ء سے 1977ء تک پے درپے متعدد انتخابات ہوئے، لیکن کوئی ایک پارٹی ایسی واضح اکثریت حاصل نہ کرسکی کہ یک سوئی سے حکومت کی میعاد پوری کرتی۔ تقریباً ساری حکومتیں مخلوط ہی بنیں۔ آئے دن حکومتیں بدلتی رہیں، یکے بعد دیگرے آتی، جاتی رہیں، لیکن بے چینی اور سیاسی استحکام کا فقدان ہی رہا۔ تاہم، دو دہائی قبل، آج کے مقبول حکمران طیب اردوان جب استنبول کے میئر منتخب ہوئے، توانہوں نے جیسے استنبول کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔ چند ہی برسوں میں شہر کو ہر قسم کے جرائم اور کرپشن سے پاک کردیا۔ اس طرح کی سیّاحتی اصلاحات کیں کہ لاکھوں کی تعداد میں سیّاح وہاں کا رخ کرنے لگے۔ ان کی بیش بہا خدمات دیکھ کر عوام نے ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور پھر وہ وقت بھی آیا، جب وہ پہلے ملک کے وزیراعظم بنےاور بعدازاں صدارت کے منصب تک جاپہنچے۔ طیب اردوان ترکی کو جدید فلاحی اور اسلامی اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں۔ 15 جولائی 2016ءکو فوجی بغاوت ہوئی، تو عوام نے ان کا بھرپور ساتھ دیااور حالات پلٹ گئے۔ بلاشبہ، عوام ہمیشہ اسی کا ساتھ دیتے ہیں، جو ان کے مسائل حل کرتا ہے۔ جو ان کے دُکھ درد میں شریک ہوتا ہے، جو ان کے آنسو پونچھتا ہے، جو ان کی فلاح و بہبود کے لیے اپنا دن رات ایک کرتا ہے۔ طیب اردوان نے اپنے دورِ حکومت میں آئی ایم ایف کا 23.5 ارب ڈالر کا ملکی قرضہ ادا کرکے کرکے الٹا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو قرضہ دینے کی پیشکش کردی۔ تعلیمی نظام میں اصلاحات کیں۔ نتیجتاً جن اسکولوں میں طلبہ کی تعداد 65 ہزار تھی، وہ 8 لاکھ تک پہنچ گئی۔ ملکی یونی ورسٹیز کی تعداد 98 سے بڑھاکر 190 کردی۔ ساری قوم کے لیے گرین کارڈ کا اجرا کیا، جس کے تحت کسی بھی ترک باشندے کو ملک کے کسی بھی اسپتال میں ہمہ وقت مفت علاج کی سہولت حاصل ہوگئی۔ 2002ءسے 2011ءکے درمیان ترکی میں 13500 کلومیٹر طویل سڑکیں بنائی گئیں۔ 2009ءمیں تیز رفتار ریل گاڑیاں چلنے لگیں۔ 1076 کلومیٹر لمبی نئی ریلوے لائنیں بچھائی گئیں۔ تعلیمی بجٹ 7.5 ارب ترک لیرا سے بڑھاکر 34 ارب لیرا ہوگیا۔ ترکی کو آلودگی، جرائم اور مختلف مافیاز سے پاک، ایک رواں دواں ٹریفک والا ملک بنادیا گیا۔ پانی، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ ختم ہوگئی اور بلوں میں بھی نمایاں کمی آئی۔ ترکش ائرلائن یورپ کی بہترین اور دنیا کی ساتویں بڑی ائرلائن بن گئی۔ ناپ تول میں کمی، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی ختم ہوگئی اور ترکی پہلی بار دنیا کے اقتصادی لحاظ سے مضبوط 20 ممالک کے گروپ’’ G-20‘‘میں شامل ہوا۔ 2013ء میں ترکی کی سالانہ قومی پیداوار 1100 ارب ڈالر تک جاپہنچی۔ ایک عام تُرک کی سالانہ آمدن 3500 ڈالر سے بڑھ کر 11ہزار ڈالر تک پہنچ گئی۔ اسی اقتصادی خوش حالی کے نتیجے میں لوگوں کی تنخواہوں میں 300فی صد اضافہ ہوا۔ بنیادی تن خواہ، جو کسی دَور میں 340لیرا تھی، بڑھ کر 957لیرا تک پہنچ گئی۔ ورلڈ بینک کے قرض میں جکڑے ہوئے ملک نے ورلڈ بینک کو 5 ارب ڈالر قرضہ دیا۔گزشتہ دو دہائیوں سے ملک و قوم کے لیے بیش بہاخدمات انجام دینے والے ترکی کے موجودہ صدر، رجب طیب اردوان، 2023ء تک ملک کو دنیا کی بڑی اقتصادی، سیاسی قوت بنانے کا عزم رکھتے ہیں۔ ان کی حکومت نے ملک بھر میں دو ارب 77 کروڑ درخت لگائے ہیں۔ کچرے کو ری سائیکل کرکے توانائی حاصل کرنےکے منصوبوں پر کام شروع کیا، جس سے ایک تہائی آبادی فائدہ اٹھا رہی ہے۔ یورپ میں آنے والے اقتصادی بحران کے نتیجے میں یورپ اور امریکا بھر میں یونی ورسٹیز اور اسکولوں کی فیسوں میں بے تحاشا اضافہ کیا گیا۔ تاہم، اس کے برعکس رجب طیب اردوان نے سرکاری حکم نامہ جاری کیا کہ یونی ورسٹیز اور اسکولوں کی تعلیم مفت ہوگی اور تمام تر اخراجات حکومت برداشت کرے گی۔ ترکی کا ہدف ہے کہ 2023ء تک تقریباً 3لاکھ محققّین تیارکیے جائیں گے، تاکہ ملک میں نت نئی تحقیقات کا دروازہ کھل سکے۔ ملک میں تعلیم کا بجٹ، دفاع کے بجٹ سے بھی زیادہ کردیا گیا ہے۔ ایک استاد کو ڈاکٹر کے مساوی تن خواہ دی جاتی ہے اور جدید ٹیکنالوجی پر تحقیق کے لیے 35ہزار لیبارٹریز قائم کی گئیں۔ یہ وہ چند کارہائے نمایاں ہیں، جن کی بدولت آج کا ترکی، جوہری طاقت نہ ہونے کے باوجود اسلامی دنیا کا ایک اہم ترین ملک بن چکا ہے۔ 

تازہ ترین