• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اشفاق نیاز، سیال کوٹ

 علّامہ اقبال کے والد، شیخ نور محمّد اور والدہ، امام بی بی نے بیٹے کی تربیت کچھ اس طرح کی کہ اُن کی زندگی کا ہر پہلو اسلام کا پرتو تھا۔ دینی ماحول میں پرورش، قرآنِ پاک کا گہرا مطالعہ، رسولِ پاک ﷺ سے بے پناہ محبّت اُن کی زندگی کے خاص پہلو تھے۔ یہی وجہ ہے کہ علّامہ اقبال بچپن ہی سے اولیائے کرامؒ سے عقیدت رکھتے تھے۔ اعجاز الحق قدوسی نے اپنی تصنیف ’’اقبال کے محبوب صوفیا ‘‘میں علّامہ اقبال ؒ کی شخصیت کے ایک خاص پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے اُن صوفیائے کرام کے حالاتِ زندگی لکھے ہیں، جن سے وہ متاثر ہوئے۔ اُن میںحضرت اویس قرنیؓ، حضرت فضیل بن عیاضؒ،حضرت بایزیدبسلطامیؒ، حضرت جنید بغدادیؒ، حضرت حسین بن منصورحلّاجؒ، حضرت ابوسعید ابوالخیرؒ، حضرت داتا گنج بخش ؒ، حضرت امامِ غزالیؒ، حکیم سنائیؒ، حضرت سیّد احمد رفاعیؒ، شیخ فرید الدّین عطارؒ، حضرت خواجہ معیّن الدّین اجمیریؒ ، حضرت شمس تبریزؒ، مولانا جلال الدّین رومیؒ، شیخ حسّام الحق ضیاء الدینؒ، حضرت شیخ فخر الدّین عراقیؒ، شیخ محمود شبستریؒ، شیخ بو علی قلندر پانی پتیؒ، خواجہ نظام الدّین محبوب الٰہیؒ، حضرت امیر خسروؒ، حضرت سیّد علی ہمدانیؒ، مولانا جامیؒ، حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ ، حضرت مجدّد الفِ ثانیؒ، حضرت میا ں میرؒ، پیر غلام حیدر علی شاہؒ، حضرت تاج الدّین ناگپوریؒ، حضرت شاہ سلمان پھلواریؒ، حضرت سیّد پیر مہر علی شاہؒ، حضرت حارث بن اسد مجاسی، محی الدّین ابنِ عربیؒ کے نام شامل ہیں۔ تاہم، وہ صوفیائے خام اوررسمی تصوّف کے خلاف تھے۔ اس ضمن میں اکبر الہ آبادی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں’’یہاں لاہور میں ضروریاتِ اسلامی سے ایک متنفّس بھی آگاہ نہیں۔ صوفیا کی دُکانیں ہیں، مگر وہاں سیرتِ اسلامی کی متاع نہیں بِکتی۔‘‘ لیکن جہاں تک خالص اسلامی تصوّف کا تعلق ہے، تو وہ نہ صرف اس کے قائل تھے، بلکہ سلسلۂ قادریہ میں بیعت بھی تھے۔وہ اُن صوفیائے کرامؒ کے بے حد معترف تھے، جنہوں نے ملّتِ اسلامیہ کے جسد میں نئی روح پھونکی اور زوال و انحطاط کے دَور میں احیائے دین کے نئے راستے تلاش کیے۔ اس حوالے سے وہ اپنے کلام میں خاص طور پر حضرت مجدّد الفِ ثانیؒ کی جرأت اور مسلمانوں کی نشاۃِ ثانیہ کے لیے اُن کی کوششوں کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔

علامہ اقبال ؒ نے اپنے شعری اور نثری مجموعوں میں اُن صوفیائے کرام کی نشان دہی کی ہے، جن سے وہ بہت زیادہ متاثر ہوئے اور جن کی کوششوں نے اسلامی روح، اسلامی فکر اور اسلامی کردار کو تباہ ہونے سے بچایا ۔ ماہنامہ’’ الضیاء‘‘ لاہور نے اپریل 1958 ء میں اقبالؒ کے صد سالہ یومِ پیدائش پر ایک نمبر شایع کیا تھا، جس میں اُن کی اُولیائے کرامؒ کے مزارات پر حاضری کی بھی تفصیل درج کی گئی تھی۔علّامہ اقبال نے یورپ جانے سے پہلے خواجہ نظام الدّین اولیاؒءکے مزار پر ’’التجائے مسافر ‘‘کے عنوان سے اپنا الوداعی سلام پیش کیا، جس کے بعد امیر خسرو کے مزار پر بھی حاضری دی۔1934 ء میں سر ہند کا سفر کیا اور حضرت مجدّد الفِ ثانیؒ کے مزار پر حاضری دی۔ اس سفر میں صاحب زادے، جاوید اقبال بھی آپ کے ساتھ تھے۔ سر ہند جانے کے متعلق نذیر نیازی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں’’ آج شام کی گاڑی سے مَیں سر ہند جا رہا ہوں۔ چند روز ہوئے صبح کی نماز کے بعد میری آنکھ لگ گئی، تو خواب میں کسی نے پیغام دیا’’ ہم نے جو خواب تمہارے اور شکیب ارسلان کے متعلق، جو اتحاد اسلامی کے زبردست داعی تھے، دیکھا ہے، وہ سر ہند بھیج دیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ خدا تعالیٰ تم پر بہت بڑا فضل کرنے والا ہے۔‘‘ پیغام دینے والا معلوم نہیں ہو سکا کہ کون ہے۔ اسی خواب کی بنا پر وہاں کی حاضری ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، جاوید جب پیدا ہوا تھا، تو مَیں نے عہدکیا تھا کہ جب وہ ذرا بڑا ہوگا، تو اُسے حضرت مجدّد ؒ کے مزار پر لے جاؤں گا۔‘‘ سر ہند میں حضرت مجدّد الفِ ثانیؒ کے مزار پر فاتحہ پڑھنے کے بعد قرآن مجید منگوایا اور دیر تک تلاوت کرتے رہے، جس کے دوران آنسو اُن کے رخساروں پر بہہ رہے تھے۔ اس موقعے پر اپنے جذبات کو کچھ یوں بیان کیا؎ حاضر ہوا مَیں شیخِ مجدّد کی لحد پر…وہ خاک کہ ہے زیرِ فلک مطلعِ انوار…اس خاک کے ذرّے سے شرمندہ ہیں ستارے…اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحبِ اسرار…گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے…جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیٔ احرار۔مصر گئے تو حضرت امام شافعیؒ اور دیگر بزرگانِ دین کے مزارات پر بھی حاضری دی۔ اس تفصیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ اولیائے کرامؒ کے مزارات پر جانا اُن کا معمول تھا، تاہم اس موقعے پر ذہن نشین رہے کہ اُنھوں نے اپنے اشعار میں صوفیائے کرامؒ کی جس عقیدت و احترام سے تعریف کی ہے، اسی قدر شدّت سے نام نہاد فقیروں اور درویشوں کے مکر وفریب کا بھی پردہ چاک کیا ہے تاکہ عوام اُن کے جھانسے میں آکر غلط راہوں پر نہ چل نکلیں۔

تازہ ترین