• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمّد اعجاز سلیم

’’ فصلِ گُل ہو یا فصلِ دل، جس کی برداشت زیادہ ہوتی ہے، وہی بار آور بھی زیادہ ہوتی ہے‘‘، ’’ زمین کی قوّتِ نمو، اس کی قوّتِ برداشت کے سبب ہے۔ یہ زمین کی کشادگی ہے کہ بدبودار کو ڈھانپ لیتی ہے اور خُوش بودار اجناس پیدا کیے چلی جاتی ہے‘‘، ’’کسی معاشرے میں قوّتِ برداشت کا ہونا اُس کے تہذیب یافتہ ہونے کی علامت ہے اور عدم برداشت، جہالت کی نشانیوں میں سے ہے۔‘‘ یہ خُوب صورت اقوالِ زریں پڑھ کر آپ لو اندازہ ہو رہا ہوگا کہ انفرادی اور معاشرتی طور پر’’ برداشت‘‘ کس قدر مفید رویّہ ہے۔ بلاشبہ برداشت، دانائی کی علامت ہے، لیکن اگر ہم اپنے اردگرد نظر دَوڑائیں، تو عدم برداشت کی ہزاروں مثالیں گویا پَر پھیلائے نظر آئیں گی، بلکہ اب تو برداشت، تحمّل اور صبر جیسے اعلیٰ اوصاف کے حامل افراد خال خال ہی ملتے ہیں اور یہ حال صرف ہمارے معاشرے ہی کا نہیں، بلکہ پوری دنیا کچھ اسی طرح کی صُورتِ حال سے دوچار ہے۔ سو، عوام میں برداشت جیسے انسانی جوہر کی اہمیت اُجاگر کرنے کے لیے پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال16 نومبر کو ’’ عالمی یومِ برداشت‘‘ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا ۔

دنیا میں عدم برداشت کے رویّے کیسے زور پکڑ رہے ہیں اور تنزّلی کا سفر کس رفتار سے جاری ہے، اس کی ایک تازہ مثال میانمار کی ہے۔ ایک وقت تھا، جب بُدھ مت کے ماننے والوں کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ امن پسند اور متحمّل مزاج سمجھا جاتا تھا، مگر اُنھوں نے ایک علاقائی مسئلے کو بنیاد بنا کر جس سفّاکی سے میانمار کے مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے، وہ سب کے سامنے ہے۔ پھر پڑوسی مُلک بھارت کو دیکھ لیجیے، جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعوے دار ہے، مگر وہاں اکثریت، اقلیت کو برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ روز مُلک کے کسی نہ کسی حصّے میں کسی اقلیتی گروہ کو تشدّد کا نشانہ بنانا معمول ہے۔ مختلف سروے رپورٹس کے مطابق، بھارت اقلیتوں کے لیے انتہائی خطرناک مُلک بن چکا ہے، جہاں اُنھیں بات، بے بات انتہاپسندی اور عدم برداشت کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ یورپ اور امریکا بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہے۔ کسی زمانے میں وہاں مذہبی اختلافات کےنام پر ایک دوسرے کے گلے کاٹے جاتے تھے، مگر پھر وقت بدلا اور عدم برداشت کی جگہ، برداشت نے جنم لیا۔ آج وہاں مذہب کے نام پر تو قتل و غارت گری نہیں ہوتی، مگر پھر بھی ہیٹ کرائمز کے عنوان سے شرم ناک داستانیں ضرور رقم ہو رہی ہیں۔ ان ممالک میں گوروں کی جانب سے کالوں کے ساتھ جو رویّہ برتا جاتا ہے، وہ کوئی راز تو نہیں۔ پھر یہ بھی کوئی کم افسوس ناک بات نہیں کہ ایک ایسے مذہب کے پیروکار ہونے کے باوجود، جس میں انفرادی اور معاشرتی طور پر برداشت کی صفت اختیار کرنے کو انتہائی اہمیت دی گئی ہے، بدقسمتی سے ہم بھی اس ضمن میں کوئی اچھی مثال پیش نہیں کر پا رہے۔ کیا ہم اس حقیقت سے انکار کر سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کا سب سے بڑا سبب ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کا رویّہ ہی ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے گھرانوں مین طلاق کی صورت میں بربادی کی ایک اہم وجہ میاں، بیوی میں برداشت ہی کی کمی ہوتی ہے۔ نیز، مارکیٹس، ملازمت کے مقامات اور دَورانِ سفر چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے الجھنے کے پیچھے بھی دراصل برداشت ہی کے مادّے کی کمی ہے۔ دراصل تحمّل اور برداشت سے عاری افراد بھی ایک لحاظ سے معاشرے کے لیے’’ سیکوریٹی رسک‘‘ ہیں کہ وہ ہر وقت مارنے مرنے پر تُلے رہتے ہیں۔ جب اختلافِ رائے حد سے بڑھ کر دشمنی اور عدم برداشت کی صُورت اختیار کر لے، تو اس سے دہشت گردی، بدامنی اور افراتفری جنم لیتی ہے۔ آپ نے ایسی خبریں پڑھی ہوں گی کہ پچاس، سو روپے پر کسی کو قتل کر دیا گیا، دراصل مسئلہ پیسوں کا نہیں ہوتا، بلکہ یہ سب عدم برداشت کا کیا دھرا ہے۔

لہٰذا،معاشرے میں قیامِ امن کے لیے تحمل اور برداشت کے جذبے کو فروغ دینا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ یہی ہمارے دین کا دَرس ہے، لیکن آج ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا مطالعہ کریں، تو ہمیں اس میں عدم برداشت کا عُنصر واضح طور پر نظر آتا ہے۔ برداشت کے عالمی دن کے موقعے پر ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کو برداشت کریں گے اور دوسروں کو معاف کرنے کی عادت اپنائیں گے۔ نیز، دوسروں کے بارے میں اپنے گمان کو اچھا رکھیں گے، کیوں کہ بدگمانی، عدم برداشت کی پہلی سیڑھی ہے۔ یقیناً آج دنیا کو’’ برداشت کا عالمی دن‘‘ منانے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے، کیوں کہ دنیا رنگ، نسل اور عقیدے کے اختلاف کی بنیاد پر نفرتوں کی ایک ایسی آگ میں جُھلس رہی ہے کہ اگر اُس پر فوری طور پر برداشت اور تحمّل کا پانی نہ ڈالا گیا، تو یہ آگ سب کچھ بھسم کر ڈالے گی۔ 

تازہ ترین