• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جرمن چانسلر، اینگلا مِرکل نے سیاست سے کنارہ کَش ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جرمنی کی خاتون حُکم راں نے اعلان کیا ہے کہ وہ دسمبر میں ہونے والے پارٹی کے انتخابات میں صدارت کی اور نہ ہی آیندہ چانسلر شپ کے عُہدے کی امیدوار ہوں گی۔ خیال رہے کہ اکتوبر کے آخری اتوار کو جرمنی کی ریاست، بویریا میں شکست کے بعد کرسچین ڈیمو کریٹک یونین پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے لیے اقتدار سے مزید چمٹے رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ نیز، ان جماعتوں کو 2017ء میں ہونے والے وفاقی انتخابات سے مسلسل پسپائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کی مقبولیت اور ووٹ بینک میں مستقلاً کمی واقع ہو رہی ہے۔ حکومت کو دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی اُن جماعتوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے، جو تارکینِ وطن کے سلسلے میں حکومت کی فراخ دِلانہ پالیسی کی شدید مخالف ہیں اور بویریا اُن ریاستوں میں شامل ہے کہ جہاں افغانستان، شام اور لیبیا سمیت مشرقِ وسطیٰ کے دیگر جنگ زدہ علاقوں سے آنے والے تارکینِ وطن بڑی تعداد میں مقیم ہیں۔ مِرکل نے اپنی جماعت کی حالیہ شکست کے بعد کہا کہ وہ پارٹی اور حکومت کی سربراہ کی حیثیت سے ان انتخابات میں اپنی ناکامی کی ذمّے داری قبول کرتی ہیں اور انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ آیندہ پارٹی کی قیادت کی امیدوار نہیں ہوں گی اور چُوں کہ انہوں نے چانسلر اور پارٹی کے سربراہ کے عُہدے کو ہمیشہ ہی لازم و ملزوم قرار دیا تھا، لہٰذا اب وہ چانسلر کے عُہدے کے لیے بھی امیدوار نہیں ہوں گی۔

خیال رہے کہ جرمنی میں ہونے والے عام انتخابات میں بھی مِرکل کی جماعت کی پوزیشن نہایت کم زور تھی اور انہیں حکومت بنانے کی خاطر سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے مختلف جماعتوں سے کم و بیش6ماہ تک مذاکرات کرنا پڑے۔ بعد ازاں، بڑی مشکلات کے بعد اُن کا اپنی حریف جماعت، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے معاہدہ ہوا اور وہ چانسلر کے عُہدے پر متمکن ہوئیں۔ تب ناقدین کا کہنا تھا کہ مِرکل کا سحر ٹوٹ رہا ہے اور جب حکومت قائم ہوئی، تو اتحادی جماعت کے ایک لیڈر، جنہیں وزاتِ داخلہ کا قلم دان سونپا گیا تھا، چانسلر کی اندرونِ مُلک پالیسیز کے خلاف ڈٹ گئے اور انہوں نے غیر قانونی تارکینِ وطن کا کارڈ بڑی چالاکی سے مِرکل کے خلاف استعمال کیا۔ دوسری جانب خاتون چانسلر کی قسمت نے بھی اُن کا ساتھ نہ دیا اور یورپی پلیٹ فارم سے اُن کی مشرقِ وسطیٰ سے متعلق پالیسی بھی ناکام رہی۔ یاد رہے کہ شام کی خانہ جنگی کے دوران جرمنی نے باقی یورپی ممالک اور امریکا کی طرح اپوزیشن کا ساتھ دیا تھا اور بشار الاسد کی شدید مخالفت کی تھی۔ تاہم، 2015ء کے بعد مِرکل نے کیمیائی حملوں کے معاملے پر رُوس کے کہنے پر شامی حکومت کا ساتھ دیا اور ایک ڈِیل کے ذریعے بشار الاسد کو معافی بھی دلوا دی۔ شامی صدر کو کلین چِٹ ملتے ہی رُوس نے موقعے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے شام پر فضائی بم باری کے ذریعے حکومت کے حق میں مداخلت کر دی، حالاں کہ تب بشار الاسد کے اقتدار کا خاتمہ قریب تھا۔ اس موقعے پر امریکا بھی بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے پر مُصر تھا، لیکن مِرکل نے اُس وقت کی اوباما انتظامیہ کے دِل میں رُوس کے لیے نرم گوشہ پیدا کر دیا۔ یاد رہے کہ مِرکل کا تعلق مشرقی جرمنی سے ہے اور وہ رُوسی زبان بولتی ہیں اور ماضی میں مغرب اور رُوس کے درمیان پُل کا کردار ادا کرتی رہیں۔ رُوس کی شام میں فوجی مداخلت سے یہاں ایران کی عسکری کارروائیوں میں تیزی آئی اور نتیجتاً شامی مہاجرین کی تعداد کروڑوں تک جا پہنچی۔ ان مہاجرین نے یورپ کا رُخ کیا اور بحرِ روم کے راستے یورپی ساحلوں پر اُترنے لگے۔ گرچہ اس موقعے پر یورپی ممالک ،بالخصوص معاشی طور پر کم زور یورپی ریاستیں ان پناہ گزینوں کا دبائو برداشت کرنے پر آمادہ نہ تھیں، لیکن اس کے باوجود مِرکل نے تارکینِ وطن کے لیے اپنے مُلک کے دروازے کھول دیے۔ ہر چند کہ جرمنی تب یورپ کی سب سے طاقت وَر معیشت بن چُکا تھا، لیکن 10لاکھ مہاجرین کی آمد سے مُلک میں سماجی، معاشی و نفسیاتی مسائل پیدا ہونے لگے۔ پھر یہ تارکینِ وطن جرمنی سے دوسرے یورپی ممالک کی جانب نقل مکانی کرنے لگے، جن کے شہری انہیں کسی طور بھی قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ اس موقعے پر یورپی ممالک کی قوم پرست جماعتوں نے مہاجرین کی شدید مخالفت کی، جس کے نتیجے میں یہ عوام میں مقبول ہوتی چلی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت اٹلی میں ایک قوم پرست جماعت برسرِ اقتدار ہے اور فرانس سمیت دیگر یورپی ممالک بھی قوم پرستی کی زد میں ہیں، جب کہ جرمنی میں مِرکل کو بھی انسان دوستی یا اپنی رُوس نواز پالیسی کی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ مِرکل کی مقبولیت میں کمی کی ایک وجہ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے رہنما کا برسرِ اقتدار آنا بھی ہے۔ صدارتی مُہم کے دوران انہوں نے ٹرمپ پر شدید تنقید کی اور ہر معاملے پر اُن سے اختلاف کیا، لیکن شام میں رُوس کی کام یابی یورپ اور جرمنی کو بہت مہنگی پڑی۔ نیز، ایران سے جوہری معاہدے کے بعد شامی تنازعے کے حل کی جو امید پیدا ہوئی تھی، وہ بھی پوری نہ ہوئی اوربشار حکومت فتوحات دیکھ کر اپنی پالیسی پر ڈٹ گئی۔ تاہم، تارکینِ وطن کا سیلاب مِرکل کو لے ڈُوبا۔ اس بارے میں ماہرین کا ماننا ہے کہ شاید وہ جذبات میں یہ فراموش کر بیٹھی تھیں کہ جرمنی، مغرب کا حصّہ ہے اور اس سے فی الوقت صرفِ نظر ممکن نہیں، لیکن اب وہ اُس موڑ پر پہنچ چُکی ہیں کہ جہاں سے واپسی ممکن نہیں اور اب ان کی جانشینی کا معاملہ طے ہونا باقی ہے۔

جرمنی اس وقت دُنیا کا تیسرا بڑا برآمد کنندہ مُلک ہے، جس کی برآمدات کا مجموعی حجم 1.4ٹریلین ڈالرز سے زیادہ ہے اور اس کا تجارتی منافع 290ارب ڈالرز ہے، جو دُنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ہٹلر کی شکست کے بعد جرمنی کو دو ٹکڑوں میں منقسم کر دیا گیا تھا اور مشرقی جرمنی رُوس، جب کہ مغربی جرمنی یورپ کا حصّہ تھا۔ 1989ء میں دونوں حصّوں کے درمیان قائم، دیوارِ برلن گرنے کے بعد مشرقی و مغربی جرمنی ایک ہو گئے اور یہ سب ایک ایسے وقت میں ہوا کہ جب اکثر ممالک شکست و ریخت کا شکار تھے اور کئی نئی ریاستیں وجود میں آ رہی تھیں۔ مِرکل کے دِورِ حکومت میں گرچہ ہر یورپی مُلک کو معاشی بُحران کا سامنا رہا، لیکن اس کے برعکس جرمنی کی معیشت ہمیشہ مستحکم رہی۔ اسی بنا پر مِرکل پر یہ الزام عاید کیا گیا کہ اُن کی کفایت شعاری پر مبنی سخت گیر اقتصادی پالیسی نے یورپ کی معیشت کو منجمد کر دیا اور اس کے سبب یورپی برادری کے مفادات کو شدید زک پہنچی۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ گزشتہ 18برس کے درمیان اینگلا مِرکل نے جرمنی اور یورپ کی سیاست میں فیصلہ کُن کردار ادا کیا اور2005ء سے ان کی جماعت، کرسچین ڈیموکریٹک یونین پارٹی جرمنی کے ہر انتخابی معرکے میں اکثریت حاصل کرتی رہی۔ مِرکل گزشتہ برس چوتھی مرتبہ چانسلر کے عُہدے پر فائز ہوئیں اور 2021ءتک اپنے مُلک کی رہنمائی کریں گی۔ جرمنی میں انہیں پیار سے ’’مادر مِرکل‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جرمنی کو دُنیا میں اعلیٰ مقام دِلوانے کے لیے مِرکل نے بنیادی کردار ادا کیا۔ اینگلا مِرکل کی پیدایش مغربی جرمنی میں ہوئی، لیکن وہ مشرقی جرمنی کے شہر، ٹمپلن میں پلی بڑھیں، جہاں اُن کے والد ایک پادری کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ 1955ء سے 1987ء تک مشرقی جرمنی میں کمیونزم کا غلبہ تھا، جہاں سیاست، تقریر اور تحریر کی آزادی ایک خواب تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس وقت مِرکل نے سائنس دان بننے کا فیصلہ کیا اور کوانٹم کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ تاہم، 1989ء میں دیوارِ برلن کے انہدام کے بعد مِرکل کا سیاسی دَور شروع ہوا، جب اُن کی عُمر 35سال تھی۔ انہوں نے کرسچین ڈیموکریٹک یونین پارٹی میں شمولیت اختیار کی، جسے جرمنی میں سینٹر رائٹسٹ پارٹی قرار دیا جاتا ہے۔ تب ہلمٹ کوہل چانسلر تھے۔ پارٹی میں شمولیت کے ایک سال بعد ہی وہ جرمن پارلیمان کی رُکن منتخب ہو گئیں۔ رُکنِ پارلیمان بننے کے بعد انہوں نے بڑی تیزی سی سے کام یابی کی منازل طے کیں۔ پہلے انہیں امورِ نسواں اور پھر ماحولیات کی اہم وزارت سونپی گئی۔ خیال رہے کہ یورپ میں ماحولیات کی جو اہمیت ہے، پاکستان میں اس کا تصوّر بھی ممکن نہیں۔ کچھ عرصے بعد چانسلر کوہل پر بد عنوانی کے الزامات عاید کیے گئے، تو مِرکل اپنے سرپرست کی شدید مخالف کے طور پر سامنے آئیں اور اُن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے والوں میں بھی سرِ فہرست تھیں۔ کرپشن کے الزامات کے نتیجے میں کوہل کو اپنے عُہدے سے ہاتھ دھونا پڑے اور ان کے ہٹتے ہی 2000ء میں مِرکل کرسچین ڈیموکریٹک یونین پارٹی کی چیئرپرسن منتخب ہو گئیں اور 2005ء میں جرمنی کے سب سے طاقت وَر منصب، چانسلر پر فائز ہوگئیں۔

مِرکل کو یورپ کی ’’آئرن لیڈی‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور اکثر تجزیہ نگار ان کا موازنہ برطانیہ کی سابق خاتون وزیرِ اعظم، مارگریٹ تھیچر سے کرتے ہیں۔ تاہم، وہ مارگریٹ تھیچر کی طرح کٹّر مذہبی نہیں اور سوشلسٹ پس منظر رکھنے کی وجہ یونین سسٹم کے زیادہ قریب ہیں۔ نیز، مِرکل اپنی بات منوانے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہیں۔ وہ بِلا شُبہ ایک سخت گیر خاتون رہنما ہیں اور اپنے سیاسی و اقتصادی فیصلے نہایت بے رحمی سے نافذ کرتی ہیں اور ان پر ثابت قدم بھی رہتی ہیں، چاہے انہیں اس کی بھاری قیمت ہی کیوں نہ چُکانی پڑے۔ 2007ء کے عالمی اقتصادی بُحران کے بعد تقریباً تمام یورپی ممالک کی معیشت ابتر ہو گئی اور برطانیہ، فرانس، یونان اور اٹلی جیسے ممالک کی معاشی صورتِ حال بھی دگرگوں تھی، لیکن اس موقعے پر جرمنی مضبوط معیشت کا مینارہ بن کر کھڑا رہا اور اس کا سہرا یقیناً مِرکل کے سَر جاتا ہے، جن کی معاشی پالیسیز نے نہ صرف جرمنی کو نقصانات سے بچائے رکھا، بلکہ یورپی معیشت کو بھی سہارا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اٹلی اور یونان تقریباً دیوالیہ ہونے کے قریب جا پہنچے تھے، تو اس وقت نہ صرف پورے یورپ بلکہ مغرب کی نظریں مِرکل پر مرکوز تھیں کہ وہ بیل آئوٹ پیکیج دے کر اُن کی معیشت بحال کریں گی۔ اس موقعے پر جرمنی نے ان ممالک کو قرضے تو فراہم کیے، لیکن تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے بعد۔ اس وقت بھی یورپ کی معیشت کی ڈرائیونگ فورس جرمنی ہے، جسے مِرکل چلا رہی ہیں۔ جرمن چانسلر پر تنقید کی جاتی ہے کہ انہوں نے بڑی تاخیر سے فیصلے کیے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ محتاط انداز میں سب کو ساتھ لے کر چلنے پر یقین رکھتی ہیں، تاکہ یہ ساتھ دیرپا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ شام کے معاملے پر انہوں نے ابتدا میں یہ مؤقف اپنایا کہ وہاں اقوامِ متحدہ کے تحت فوجی کارروائی کی جائے، لیکن پھر پیوٹن کے زیرِ اثر آنے کی وجہ سے رُوس کو شام میں فوجی کردار دینے کی غلطی کر بیٹھیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ شاید مِرکل نے ایران کے جوہری معاہدے سے کچھ زیادہ امیدیں وابستہ کر لی تھیں اور انہیں امریکا میں ٹرمپ کے برسرِ اقتدار آنے کی امید بھی نہ تھی۔ تاہم، مِرکل کے سخت ناقدین بھی یہ مانتے ہیں کہ انہوں نے ایک اعلیٰ پائے کی سیاسی رہنما کی طرح جرمنی کو ایک واضح نصب العین دیا اور پھر اسے ایک انتہائی مضبوط معیشت کے طور پر تکمیل تک پہنچایا۔

ناقدین کا خیال ہے کہ مِرکل کی غیر مقبولیت میں جہاں یورپ میں پروان چڑھتی قوم پرستی کا بڑا عمل دخل ہے، وہیں انہوں نے رُوسی صدر، پیوٹن کے ایجنڈے کو سمجھنے میں بھی غلطی کی، جس کی وجہ سے انہیں نقصان اُٹھانا پڑا۔ یاد رہے کہ پیوٹن بھی ایک قوم پرست رہنما ہیں، جن کا واحد مقصد رُوس کی سوویت دَور کی عظمت بحال کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ کسی بھی طاقت سے ٹکرانے پر آمادہ ہیں۔ تاہم، اُن کی سب سے بڑی کام یابی شامی محاذ کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ میں واپسی ہے کہ آج سے کئی برس قبل تک اس خطّے میں رُوس کا اثر و نفوذ نہ ہونے کے برابر تھا، جب کہ آج وہ شام سے لے کر یمن تک اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کے قابل ہو چُکا ہے اور تُرکی جیسا مُلک بھی اس سے مذاکرات پر مجبور ہے۔ یاد رہے کہ شام میں بشار الاسد کی فتح درحقیقت پیوٹن کی فوجی جیت ہے اور جو کام سوویت یونین، افغانستان میں نہ کر سکا، وہ پیوٹن کے رُوس نے شام میں کر دکھایا۔ پھر رُوس، یورپ کو کروڑوں مہاجرین کے سیلاب میں غرقِ آب ہوتے دیکھتا رہا اور ساتھ ہی نہایت چابک دستی سے قوم پرست جماعتوں کی سرپرستی کرتے ہوئے یورپ میں بے چینی کو ہوا دے کر اسے نہ صرف کم زور بلکہ امریکا سے بھی دُور کر دیا۔ گرچہ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد جرمنی، یورپ کا لیڈر بن کر سامنے آیا تھا، لیکن مِرکل کی رُوس کو ہر معاملے میں چُھوٹ دینے کی پالیسی نے اسے اس منصب سے کافی دُور کر دیا ہے اور اب فرانسیسی صدر، ایمانوئیل میکروں، مِرکل کی جگہ لیتے نظر آرہے ہیں۔ مِرکل اپنے کفایت شعاری کے نظریے کی وجہ سے یورپ بَھر میں یکتا تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ان کی پارٹی کو ان کا جانشین نہیں مل رہا۔ البتہ جرمنی کو اس وقت مِرکل جیسے ہی ایک محبِ وطن اور مدبّر رہنما اور نئے خون کی اشد ضرورت ہے اور ان کے ممکنہ جانشینوں میں فریڈرل مرج قابلِ ذکر ہیں، جو پارٹی میں سب سے زیادہ طاقت وَر ہیں اور مِرکل کی پالیسیز سے اختلاف کی وجہ سے شُہرت رکھتے ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ مِرکل 2021ء میں اپنا دَورِ اقتدار مکمل ہونے سے پہلے ہی حکومت اور سیاست سے الگ ہو جائیں گی۔

تازہ ترین