• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عکّاسی :اسرائیل انصاری

آئی ای ڈی: ٹیچر سے ایجوکیٹر تک
آئی ای ڈی کے عبوری ڈائریکٹر، ڈاکٹر ساجد علی، نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

’’ میرا تعلق دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے خیبر پختون خوا کے ضلع، مردان سے ہے۔ نسبتاً قدامت پسند پختون معاشرے کو بدلنے اور کچھ انوکھا کر دِکھانے کا جذبہ تو ابتدا ہی سے رگوں میں لہو بن کے دوڑ رہا تھا ، جسے نائن الیون کے بعد صوبے میں ہونے والے کُشت و خوں نے مہمیز دی اور گریجویشن کے دوران مَیں نے کسی معیاری تعلیمی ادارے سے تحصیلِ علم کا عزمِ مصمّم کیا۔ کچھ عرصے بعد آغا خان یونی ورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈیولپمنٹ (آئی ای ڈی) کا اشتہار میری نظر سے گزرا، تو میرے دِل میں یہاں داخلہ لینے کی خواہش مچلنے لگی، مگر اس کے فیس اسٹرکچر نے میری ہمّت کچھ پست کر دی۔ تب مَیں گریجویشن کر چُکا تھا اور اپنے آبائی علاقے میں ایک اسکول چلا رہا تھا۔ جب مَیں نے اپنی اس دِلی تمنّا کا اظہار اپنے مخلص و جہاں دِیدہ اساتذہ اور دوستوں سے کیا، تو انہوں نے میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مُجھے اے کے یو آئی ای ڈی میں اپلائی کرنے کا مشورہ دیا اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ یہ ادارہ سینے میں آگے بڑھنے کی لگن رکھنے والے قابل طلبہ کو مالی معاونت بھی فراہم کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ نیّت صاف، منزل آسان…تو ادارے کی کوششوں سے میرا یہاں داخلہ ہو گیا اور یوں مَیں آئی ای ڈی چلا آیا۔ اس موقعے پر جہاں میرا دِل ولولوں ، آرزوئوں سے معمور تھا، وہیں یہ سوچ کر کچھ گھبراہٹ بھی ہو رہی تھی کہ کہیں دوسرے طلبہ اور اساتذہ میرے معمولی پس منظر اور گلابی اردو کا مذاق نہ اُڑائیں، لیکن مُجھے یہ دیکھ کر بے حد مسرّت ہوئی کہ یہاں تو کسی سے بھی رنگ، نسل، زبان، مذہب اور سماجی و معاشی بنیادوں پر امتیاز نہیں برتاجاتا، بلکہ اس کے برعکس ثقافتی تنوّع کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ سو، یہاں مُجھے اپنوں کی کمی بالکل بھی محسوس نہ ہوئی۔ پھر اس ادارے کے ڈائریکٹر اور اساتذہ سے لے کر تقریباً سارا عملہ ہی نہایت مخلص ہے، جس نے نہ صرف پڑھائی کے معاملے میں بلکہ کیریئر میں آگے بڑھنے کے حوالے سے بھی قدم قدم پر رہنمائی کی۔ آئی ای ڈی نے میرے97فی صد اخراجات برداشت کیے اور حال ہی میں مُجھے آغا خان یونی ورسٹی کی جانب سے خیبر پختون خوا میں ریسرچ کو آرڈی نیٹر کے طور پر خدمات انجام دینے کی پیش کش ہوئی ہے۔ مَیں ان سے رابطے میں ہوں، لیکن چُوں کہ میرا مقصد اس ملازمت سے کہیں بڑا ہے اور مَیں پاکستان کے شعبۂ تعلیم پر اَن مِٹ نقوش چھوڑنا چاہتا ہوں، لہٰذا کچھ عرصے بعد یہیں سے پی ایچ ڈی کے بعد مُلک کی کسی اعلیٰ یونی ورسٹی میں تدریس کے فرائض انجام دینے کی خواہش ہے۔‘‘ ان خیالات کا اظہار کراچی میں آغا خان یونی ورسٹی کے تحت قائم، انسٹی ٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈیولپمنٹ، پاکستان کے سروے کے دوران ایم فِل کرنے والے طالب علم، سہیل علی نے ہم سے بات چیت میں کیا ۔

درحقیقت آئی ای ڈی کی تاریخ، پُرآشوب حالات میں شکوۂ ظلمتِ شب کی بہ جائے، اپنے حصّے کی شمع جلانےکے منشور پر گام زن، دہشت گردی سے متاثرہ علاقے کے اس نوجوان جیسے پُرعزم طلبہ سے پُر ہے، جو اس وقت پاکستان کے مختلف علاقوں سمیت بیرونِ مُلک بھی خدمات انجام دے رہے ہیں اور یہاں سے حاصل کردہ علم کی روشنی سے نسلِ نوکا مستقبل روشن کر رہے ہیں۔ اپنے طلبہ کو سہل انگار اور کم کوش بنانے کی بہ جائے ان میںسعیٔ پیہم اور آگے بڑھنے کی تڑپ پیدا کرنے والے ادارے، آئی ای ڈی کی بنیاد1993ء میں آغا خان یونی ورسٹی نے پاکستان سمیت دیگر ترقّی پزیر ممالک میں تعلیم کے گرتے ہوئے معیار کو دیکھتے ہوئے رکھی ۔ اس ادارے کے قیام کا بنیادی مقصد ایسے پیمانے وضع کرنا ہے کہ جن کی مدد سے محدود وسائل میں بھی نظامِ تعلیم کو پائے داراستحکام دیا جائے۔ اس کے قیام سے قبل آغا خان یونی ورسٹی کی جانب سے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی گئی، جس میں ہارورڈ اور اوکسفرڈ یونی ورسٹی سمیت دیگر عالمی شُہرت یافتہ جامعات سے تعلق رکھنے والے ماہرین شامل تھے۔ یہ پُختہ کار، دُنیا بَھر کے تعلیمی ماڈلز کا تجزیہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ تعلیم کا معیار بلندکرنے کے لیے اساتذہ کی قابلیت میں اضافہ ضروری ہے۔ ٹاسک فورس کی تجاویز کی روشنی میں آغا خان یونی ورسٹی نے معیاری اساتذہ تیار کرنے کے لیے آئی ای ڈی کی بنیاد رکھی اور ہر سال سرکاری و نجی تعلیمی اداروں اور آغا خان ایجوکیشن سروس سے وابستہ20سے 30اساتذہ کو معیاری ٹیچر ایجوکیٹرز(معلّمین کوتعلیم و تربیت فراہم کرنے والے اساتذہ) میں بدلنےکا فیصلہ کیا کہ جو یہاں سے فارغ التّحصیل ہونے کے بعد دیگر اساتذہ کو تربیت فراہم کریں گے اور وہ آگے چل کر اپنے طلبہ کی صلاحیتیں نکھاریں گے۔ یہ ادارہ گزشتہ 25برس کے دوران پس ماندہ ممالک، بالخصوص پاکستان میں تعلیمی ضروریات پوری کرنے کے لیے کئی خصوصی ماڈلز پر عمل درآمد کے علاوہ بہترین عالمی ماہرینِ تعلیم کی خدمات بھی حاصل کر چُکا ہے اور پاکستان کے شعبۂ تعلیم میں بہتری اوراصلاحات کی خاطر منفرد اور مؤثر انداز میں ایک متحرک کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کی انفرادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ عملی مَشق اور تنقیدی جائزے کی بنیاد پر تیار کیے گئے اپنے سرٹیفکیٹ، ڈپلوما، ایم ایڈ اور پی ایچ ڈی پروگرامز کے ذریعے تجربہ کار اساتذہ اور ٹیچر ایجوکیٹرزکی صلاحیتیں نکھارتا اور اُن کے لیے ترقّی کی راہیں ہم وار کرتا ہے۔ نیز، یہ ادارہ اسکولز میں تدریس کا عمل بہتر بنانے اور تعلیمی پالیسی کی تیاری کے دوران سرکاری حُکّام، اسکول نیٹ ورکس اور اساتذہ سمیت دیگر متعلقہ شخصیات سے مکالمے کے لیے تحقیق پر اپنی توجّہ مرکوز رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ خود سے پیشہ ورانہ طور پر جُڑے افراد، عطیات کی مدد سے چلنے والے منصوبوں اور اپنے نیٹ ورک میں شامل پروفیشنل ڈیولپمنٹ سینٹرز کے ذریعے قومی، صوبائی و ضلعی حُکّام، اداروں، سرکاری و نجی درس گاہوں اور اساتذہ تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ گزشتہ 25برس کے دوران پاکستان کے شعبۂ تعلیم میں اصلاحات کے لیے خدمات انجام دینے کے علاوہ اس نے وقتاً فوقتاً اپنی استعداد میں بھی اضافہ کیا ۔ اگر انسٹی ٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈیولپمنٹ کے ڈھائی دہائیوں پر مشتمل سفر پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے، تو پتا چلتا ہے کہ 1993ء میں کراچی میں اس کے پہلے پروفیشنل ڈیولپمنٹ سینٹر کی بنیاد رکھی گئی۔ 1994ء میں ایجوکیشن میں ماسٹرز پروگرام (ایم ایڈ) کا اعلان کیا گیا۔ 1995ء میں سرٹیفکیٹ ایجوکیشن پروگرام کے نام سے وزیٹنگ ٹیچرز پروگرام متعارف کروایا گیا۔ 1997ء میں اس نے مزید وسعت اختیار کرتے ہوئے ایجوکیشن میں ایڈوانسڈ ڈپلومے کی پیش کش کی۔ 1999ء میں پروفیشنل ڈیولپمنٹ سینٹر برائے شمالی علاقہ جات اور ریسرچ اینڈ پالیسی اسٹڈیز یونٹ کا قیام عمل میں آیا۔ 2003ء میں چترال میں پروفیشنل ڈیولپمنٹ سینٹر قائم کیا گیا۔ 2004ء میں ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی پروگرام کا آغاز ہوا اور 2015ء میں ایم فِل پروگرام متعارف کروایا گیا، جب کہ اس برس آئی ای ڈی اپنی سلور جوبلی منا رہا ہے، جو کسی سنگِ میل سے کم نہیں۔

انسٹی ٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈیولپمنٹ کی جانب سے پیش کردہ اعدادوشمار کے مطابق، اس کے گریجویٹس( طلبہ کواسی نام سے پکارا جاتا ہے) میں خواتین کا تناسب 52.2فی صد ہے ، جب کہ 90فی صد گریجویٹس شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہیں، جن کی اکثریت پاکستان میں خدمات انجام دے رہی ہے۔25برس کے دوران اس ادارے نے 1300سے زاید گریجویٹس، 600سے زاید ماسٹرز، 700سے زاید ایڈوانسڈ ڈپلوما ہولڈرز، 12ایم فِل اور 11پی ایچ ڈی ہولڈرز تیار کیے۔ یہاں سے فارغ التّحصیل طلبہ اس وقت ایسے اسکولز میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں کہ جو اپنے تحقیق پر مبنی جدید طریقۂ تدریس کے ذریعے سُست اور رٹّے پر مبنی سیکھنے کے عمل کو تبدیل کرنے کی وجہ سے شُہرت رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ ان کے اثرات صرف کمرۂ جماعت ہی تک محدود نہیں، بلکہ ٹیچر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹس میں ایجوکیٹرز کے طور پر خدمات انجام دینے والے گریجویٹس ہزاروں نئے اساتذہ کو تربیت بھی فراہم کر چُکے ہیں اور یوں انہوں نے ہزاروں طلبہ کے اذہان و قلوب پر اپنے اَن مٹ نقوش ثبت کیے۔ اس کے علاوہ ان میں سے بیش تر گریجویٹس ایسے بھی ہیں کہ جو اس وقت پاکستان سمیت دُنیا بَھر کے مختلف تعلیمی اداروں میں بانی، سربراہ،ڈائریکٹر، پرنسپل، ڈیپارٹمنٹ ہیڈ، منیجر، ریسرچر اور ایڈوائزرکے طور پرفرائض فرائض انجام دے رہے ہیں۔ فراہم کردہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ تاحال پاکستان، افغانستان، بنگلا دیش، شام، تاجکستان اور مشرقی افریقا سے تعلق رکھنے والے 36ہزار سے زاید ٹیچرز، ٹیچر ایجوکیٹرز، ایڈمنسٹریٹرز اور منیجرز،اس ادارے کے پروفیشنل ڈیولپمنٹ سینٹرز کے سرٹیفکیٹ پروگرامز اور مختصر کورسز سے مستفید ہو چُکے ہیں۔

دوسری جانب ادارے میں تحقیق کا کام بھی جاری ہے اور اس کے فیکلٹی ممبرز اور طلبہ کی جانب سے تدریس کے دوران پیش آنے والے مسائل، اسکول مینجمنٹ اور تعلیمی پالیسی پر کی جانے والی ریسرچ، وقتاً فوقتاً کُتب، تحقیقی مقالہ جات، تحقیقی جرنلز اور تحقیقی مضامین کی صورت سامنے آتی رہتی ہے، جس سے پاکستان سمیت دُنیا بَھر میں شعبۂ تعلیم اور درس و تدریس سے وابستہ ادارے اور افراد خاطرخواہ فائدہ اُٹھاتے ہیں اور اس کی روشنی میں اپنے طریقۂ تعلیم اور مینجمنٹ سسٹم کی تشکیلِ نو کرتے ہیں۔ اب تک اس ادارے کی جانب سے تحریر کی گئی 11تحقیقی کُتب،150سے زایدتحقیقی مقالہ جات،160سے زاید نظرِ ثانی شدہ جرنلز اور سیکڑوں تحقیقی مضامین منظرِ عام پر آچُکے ہیں، جب کہ ادارہ 23قومی و بین الاقوامی کانفرنسز کا انعقاد بھی کرچُکا ہے۔ ’’ای کامنز‘‘ کے نام سے موسوم ایک بین الاقوامی ویب سائٹ سے آئی ای ڈی کی تمام نگارشات کو ڈائون لوڈ کر کے پڑھا جا سکتا ہے۔ گزشتہ 5برس کے دوران اس ویب سائٹ سے مختلف ممالک میں3.5لاکھ سے زاید مرتبہ ان تحریرات کو ڈائون لوڈ کیا جا چُکا ہےاور ٹاپ ٹین ڈائون لوڈز میں سے 6کا تعلق بھی اسی ادارے سے ہے۔ ادارے کی جانب سے قائم کردہ پروفیشنل ڈیولپمنٹ سینٹرز سے سندھ، بلوچستان، گلگت بلتستان اور چترال کے پس ماندہ اور دُور دراز علاقوں میں قائم 2ہزار سے زاید سرکاری و نجی اسکولز استفادہ کررہے ہیں۔ اسی طرح شمالی علاقہ جات کے لیے متعارف کروائے گئے ایجوکیشنل ڈیولپمنٹ اینڈ امپروومنٹ پروگرام نے 59اسکولز کی مکمل طور پر اصلاح کی۔ اس پروگرام سے 12ہزار سے زاید طلبہ نے فائدہ اُٹھایا، جب کہ 3ہزار سے زاید اساتذہ، ٹیچر ایجوکیٹرز اور ہیڈ ٹیچرز نے اپنی استعداد میں اضافہ کر کے اپنے فنِ تدریس میں نکھار لانے کے ساتھ اپنے مضامین سے متعلق مفید معلومات بھی حاصل کیں۔ ادارے کی جانب سے سندھ، بلوچستان اور گلگت بلتستان کے پس ماندہ اضلاع میں معیاری تعلیم کی فراہمی کے لیے متعارف کروائے گئے پروگرام،اسٹرنتھننگ ٹیچر ایجوکیشن اِن پاکستان (اسٹیپ)سے 3تین لاکھ سے زاید طلبہ نے براہِ راست یا بالواسطہ فائدہ اُٹھایا، جب کہ اسٹیپ کے تحت ہی نہ صرف ایک ہزار650سرکاری اسکولز کی اصلاح کی گئی،بلکہ اس سے14ہزار سے زاید اساتذہ، ٹیچر ایجوکیٹرز اور ایجوکیشن منیجرز نے تربیت حاصل کی اوراس کی مدد سے165سے زایدلرننگ ریسورس سینٹرز بھی تیار کیے گئے۔ نیز، اس پروگرام کے نتیجے میں بالخصوص صوبۂ سندھ کے ضلع، سکھر میں طلبہ کے داخلے اور حاضریوں کے تناسب میں اضافہ ہوا۔ گزشتہ 25برس کے دوران معیاری تعلیم کی فراہمی میں آئی ای ڈی کو آغا خان فائونڈیشن کے علاوہ برٹش کائونسل،برطانیہ کے ڈیپارٹمنٹ فارانٹرنیشنل ڈیولپمنٹ،آسٹریلیا کےمحکمۂ خارجہ و تجارت،یورپین کمیشن،کینیڈا کے محکمۂ عالمی امور اوریونی ورسٹی آف ٹورنٹو کے اونٹاریو انسٹی ٹیوٹ فاراسٹڈیز اِن ایجوکیشن، اوکسفرڈ یونی ورسٹی،رائل نارویجن ایمبیسی،دی اسپارک آف ہوپ فائونڈیشن،یونائٹیڈ نیشنزایجوکیشنل، سائنٹفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن، یونائیٹڈ نیشنز انٹرنیشنل چلڈرنز ایمرجینسی فنڈ اور یو ایس ایجینسی فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ کی معاونت حاصل رہی۔

انسٹی ٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈیولپمنٹ، کراچی کے سروے کے دوران ہماری ڈاکٹر ساجد علی سے ایک تفصیلی نشست ہوئی۔انہوں نے1996ء میں جامعہ کراچی سے عُمرانیات (سوشیالوجی) میں ماسٹرز کے بعد اگلے برس آغا خان یونی ورسٹی میں ریسرچ اسسٹنٹ کے طور پر اپنے پروفیشنل کیریئر کا آغاز کیا۔ 2003ء میں اسکالرشپ پر آسٹریلیا سے ایجوکیشن میں ماسٹرز کیا، جب کہ 2010ء میں اسکالرشپ ہی پر یونی ورسٹی آف ایڈنبرا سے پی ایچ ڈی کی۔ برطانیہ سے واپسی پر انہیں انسٹی ٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈیولپمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر تعیّنات کیا گیا اور اس وقت وہ ادارے میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور عبوری ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر ساجد علی تعلیمی حلقوں میں ایک محقّق اور ماہرِ تعلیم کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں اور نہ صرف ان کے تحقیقی مضامین ادارے کی کُتب اور ریسرچ جرنلز میں شایع ہوتے رہتے ہیں، بلکہ متعلقہ سرکاری حُکّام بھی تعلیمی پالیسی تشکیل دیتے وقت ان کی گراں قدر خدمات سےخاطر خواہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ادارے کے اہم مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ’’ آئی ای ڈی کے 3بنیادی مقاصد ہیں۔ہمارا پہلا مقصد تجربہ کار اساتذہ کوٹیچرایجوکیٹرزمیں بدلنا ہے، کیوں کہ ایک ایجوکیٹرکی مدد سے کم از کم 25مزید اساتذہ کو تربیت یافتہ بنایا جا سکتا ہے۔ مثلاً، آج سے 20برس قبل ادارے سے فارغ التّحصیل ہونے والے ایک ٹیچر ایجوکیٹر اس وقت کوئٹہ میںپراوِنشل انسٹی ٹیوٹ فار ٹیچرز ایجوکیشن کے ڈائریکٹر ہیں ۔ اس عرصے کے دوران انہوں نے نہ صرف سیکڑوں اساتذہ کو تربیت فراہم کی، بلکہ اپنی قابلیت ، استعداداور اثر و رسوخ میں بھی اضافہ کیا اور اس وقت بلوچستان کے اساتذہ کو تربیت فراہم کرنے کے ساتھ ادارے سے بھی مستقل رابطے میں ہیں۔ 

ادارے کا دوسرا مقصد تحقیق کو فروغ دینا ہے، تاکہ ٹیچرز ایجوکیٹرز کی تربیت کی تیکنیک کے ثمرات کو جانچا اور انہیں اس انداز سے سائنسی خطوط پر استوار کیا جا سکے کہ اُن سے فیض حاصل کرنے والے اساتذہ اپنے طلبہ کو معاشرے کا مفید فرد بنا سکیں۔ ادارے کے قیام کا تیسرا مقصد زیادہ سے زیادہ افراد تک رسائی حاصل کرنا اور اُن پر تیزی سے اپنے اثرات مرتّب کرنا ہے۔ اس مقصد کے تحت ادارے کے ارکان مختلف اسکولز میں جا کر براہِ راست اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اس ضمن میں ایجوکیشنل ڈیولپمنٹ اینڈ امپروومنٹ پروگرام اور اسٹرنتھننگ ٹیچر ایجوکیشن اِن پاکستان نامی دو پروگرامز تشکیل دیے گئے تھے۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں ماہرِ تعلیم کا کہنا تھا کہ’’ گرچہ ادارے کی توجّہ کا محور و مرکز پاکستان ہے، لیکن اس کی خدمات کا دائرہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ۔ اس کے قیام کے وقت یہاں دُنیا بَھر، بالخصوص تاجکستان، کرغیزستان، تنزانیہ، کینیا، یوگینڈا اور بنگلا دیش سے لوگ حصولِ تعلیم کے لیے آئے اور اس وقت وہ اپنے اپنے ممالک میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یاد رہے، آغا خان یونی ورسٹی نے اس جیسا ایک ادارہ تنزانیہ میں بھی قائم کیا ہے ۔نیز، ہمارے تمام پروگرامز بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ہیں۔ ہم تعداد کی بہ جائے معیار پر یقین رکھتے ہیں اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ادارے نے گزشتہ 15برس میں صرف11پی ایچ ڈی ہولڈرز تیار کیے اور یہ تمام کے تمام اعلیٰ جامعات میں نمایاں عُہدوں پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔‘‘

شعبۂ تعلیم کی زبوں حالی کے اسباب سے متعلق اُن کا کہنا تھا کہ ’’بدقسمتی سے ہم نے تعلیم جیسے اہم شعبے کو کبھی ترجیح ہی نہیں دی۔ پھرہم نے اشرافیہ اور عام افراد کے لیے الگ الگ تعلیمی نظام اور نصاب وضع کر رکھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نچلے طبقے کو بہتر تعلیمی سہولتیں میسّر نہیں۔ تاہم، گزشتہ دِنوں ایک صوبائی وزیر نے اپنے بچّوں کو ایک سرکاری اسکول میں داخل کروا کے مستحسن قدم اُٹھایا۔ اگر یہ رجحان پروان چڑھتا ہے، تو اس سے عوام کا سرکاری تعلیمی اداروں پر اعتماد بحال ہو گا اور ان کی انتظامیہ میں احساسِ جواب دہی بھی پیدا ہو گا۔ شعبۂ تعلیم کی ابتری کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم نے حصولِ تعلیم کو صرف حصولِ روزگار کا ذریعہ سمجھ لیا ہے، حالاں کہ تعلیم یافتہ افراد اپنے گردوپیش میں مثبت تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ شعبۂ تعلیم کی بہتری میں ایک رُکاوٹ آبادی میں اضافہ بھی ہے۔ یعنی اساتذہ کی نسبت طلبہ کی تعداد بڑھ رہی ہے۔‘‘ ادارے کی سرگرمیوں کے نتیجے میں معاشرے پر رونما ہونے والے اثرات سے متعلق انہوں نے بتایا کہ ’’ یہ کہنا دُرست نہ ہو گا کہ ہمارے ادارے نے 25برس میں معاشرے کی قلبِ ماہیّت کر دی، البتہ ہم اپنی بہترین کاوشوں سے اپنے حصّے کی شمع ضرور جلا رہے ہیں۔یہ ایک طویل المدّتی منصوبہ ہے اور اس کے اثرات بہ تدریج نظرآئیں گے۔ البتہ افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ تبدیلی کی رفتار وہ نہیں، جو ہم چاہتے ہیں۔ پھر ہمیں بعض رکاوٹوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر ادارے کے تربیت یافتہ سرکاری اساتذہ سے حکومت اُن کی استعداد اور معیار کے مطابق کام نہیں لے رہی۔ یعنی جیسی خدمات کی ہم اُن سے توقّع کر رہے تھے، وہ ایسی ادا نہیں کر پا رہے، جب کہ آغا خان ایجوکیشن سروس سے وابستہ ایجوکیٹرز سے خاطر خواہ استفادہ کیا جا رہا ہے، البتہ بعض مقامات پر ہمارے ایجوکیٹرز نے اپنی محنت کے بَل بوتے پر کچھ کام یابیاں ضرور حاصل کی ہیں ، جیسا کہ اس وقت پائٹ، بلوچستان اور پائٹ، سندھ کے سربراہان ہمارے ہی گریجویٹس ہیں۔ سو، ہم مایوسی کا شکار نہیں۔ خوش قسمتی سے آج وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو تعلیم کی اہمیت کا احساس ہو چُکا ہےاور نئی تعلیمی پالیسی سمیت سندھ ایجوکیشنل پلان بھی تیار ہو رہا ہے۔ علاوہ ازیں، اساتذہ اور طلبہ کے معیار میں گزشتہ 10،15برس کے مقابلے میں نسبتاً بہتری واقع ہوئی ہے۔‘‘ڈاکٹر ساجد علی کا مزید کہنا تھا کہ’’ ہمارے ادارے میں ہونے والی تحقیق ،سرکار کی تعلیمی پالیسی پر بھی اثر انداز ہوتی ہے اور 2009ء میں تشکیل دی جانے والی تعلیمی پالیسی میں ہماری خدمات کا اعتراف بھی کیا گیا ہے۔ حکومت بہ ذاتِ خود ہماری مہارتوں سے مستفید ہونے کی کوشش کرتی ہے اور ہماری تجاویز کو ایجوکیشن پالیسی میں شامل کیا جاتا ہے۔ آئی ای ڈی کے سابق ڈائریکٹر، ڈاکٹر محمد میمن گزشتہ دَورِ حکومت میں نیشنل ایجوکیشن ٹاسک فورس کے رُکن بھی رہے۔ علاوہ ازیں، سندھ حکومت کی حالیہ غیر رسمی تعلیم کی پالیسی میں بھی ہمارا حصّہ ہے اور حال ہی میں سندھ حکومت نے ایک ایجوکیشن سیکٹر پلان تشکیل دیا ہے، جس میں ہمارے پورے تدریسی عملے نے یونیسکو کے ساتھ مل کر اپنا کردار ادا کیا۔ اس دوران ہم نے صوبائی حکومت کو مختلف تجاویز بھی دیں، جو مذکورہ پلان کا حصّہ ہیں۔نیز، مَیں صوبائی وزارتِ تعلیم کی جانب سے بنائے گئے لوکل ایجوکیشن گروپ کا بھی رُکن ہوں اور مختلف اوقات میں منعقد ہونے والی میٹنگز میں شعبۂ تعلیم کی بہتری کے لیے تجاویز دیتا رہتا ہوں۔‘‘ ماہرِ تعلیم نے اس سوال کے جواب میںکہ ’’کیا حکومت اُن کی تجاویز پر عمل درآمد بھی کرتی ہے؟‘‘،کہا کہ’’ بد قسمتی سے ہمارے مُلک میں ایجوکیشنل پالیسیز پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں اگر ہم 2009ء کی تعلیمی پالیسی کا جائزہ لیں، تو اس پالیسی میں تعلیم کا بجٹ مجموعی قومی پیداوار کا 4فی صد مختص کرنے کا کہا گیا تھا، لیکن ’’ہنوز دلّی دُور اَست۔‘‘ تاہم، ایسا نہیں ہے کہ ہماری کسی بھی تجویز پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ دراصل، ہم جذبات میں آ کر تمام محاذ ایک ساتھ کھول لیتے ہیں، جس کی وجہ سے انتشار پیدا ہو جاتا ہے اور مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو پاتے، جب کہ ترقّی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہوتا، بلکہ وہاں ایک ایک کر کے تمام مسائل کا حل نکالا جاتا ہے۔ پالیسی پر عمل درآمد نہ ہونے کا دوسرا اہم سبب سیکریٹری ایجوکیشن کے کثرت سے ہونے والے تبادلے ہیں۔ نیز، ہمارے ہاں تعلیمی بجٹ بھی پوری طرح خرچ نہیں کیا جاتا۔‘‘

انسٹی ٹیوٹ میں داخلے کے لیے درکار اہلیت سے متعلق کیے گئے سوال کے جواب میں ادارے کے عبوری ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ ’’ہم بیچلرز نہیں کرواتے اورماسٹرز پروگرام میں داخلے کے لیے ایچ ای سی کی جانب سے عاید کردہ 16سالہ تعلیم کی شرط پر پورا اُترنا لازمی ہے۔ جو امیدوار اس شرط پر پورا اُترتا ہے، تو اُسے ٹیسٹ دینا پڑتا ہے۔ ٹیسٹ میں کام یابی کے بعد انٹرویو کا مرحلہ آتا ہے، جس میں سُرخ رُو ہونے والا امیدوار ہمارے ماسٹرز پروگرام میں شامل ہونے کا اہل ہوتا ہے، جب کہ پی ایچ ڈی کے لیے ایجوکیشن میں ایم فِل ہونا ضروری ہے، البتہ سرٹیفکیٹ پروگرامز کے لیے تجربہ کار ٹیچر اور گریجویٹ ہونا ضروری ہے۔ اس پروگرام کے لیے ٹیچر ہونے کی شرط اس لیے عاید کی گئی ہے کہ ہمارے ہاں بہت سے افراد بی ایڈ کرنے کے بعد شعبۂ تدریس سے وابستگی اختیار نہیں کرتے اور ہم ایسے امیدواروں کو ترجیح دیتے ہیں کہ جو تدریس کا تجربہ اور اس شعبے سے لگن رکھتے ہوں۔ یوں ہمارا کام بھی نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایا کہ ہم مقدار کی بہ جائے معیار پر یقین رکھتے ہیں ،تو ہم ایسے افراد تیار کرنا چاہتے ہیں کہ جو کچھ کرنے کے لیے بے چین ہوں۔ وہ علاّمہ اقبال نے کہا تھا ناں کہ؎ یا سراپا نالہ بن جا، یا نوا پیدا نہ کر۔ یعنی ہمارے ادارے کے فارغ التّحصیل گریجویٹس اور یہاں خدمات انجام دینے والے افراد میں آگے بڑھنے کی ایسی تڑپ پیدا ہو جاتی ہے کہ جو پھر انہیں ہمہ وقت عمل پر آمادہ رکھتی ہے۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ ’’ ادارے میں عموماً مختلف سرکاری و نجی تعلیمی اداروں سے وابستہ اساتذہ داخلہ لیتے ہیں اور ان کے تمام اخراجات ان کے آجر برداشت کرتے ہیں، البتہ خواہش مند افراد انفرادی طور پر بھی داخلہ لے سکتے ہیں۔ ایک سے 6ماہ کے دورانیے پر مشتمل سرٹیفکیٹ پروگرامز اور ایڈوانس ڈپلومے پر زیادہ اخراجات نہیں آتے۔ تاہم، ماسٹرز پروگرام نسبتاً مہنگا ہے۔ تاہم، مَیں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ آغا خان یونی ورسٹی اور ہمارا ادارہ کسی اہل امیدوار کو مالی گنجایش نہ ہونے کی وجہ سے رَد نہیں کرتا۔ یہاں اندرونِ سندھ، بلوچستان اور گلگت بلتستان کے دُور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے ایسے کئی طلبہ موجود ہیں کہ جنہوں نے مُجھے فون پر بتایا کہ وہ یہاں داخلہ لینے کے خواہش مند ہیں، لیکن اُن کی مالی حیثیت اجازت نہیں دیتی، تو ہم نے اپنی کوششوں سے اُن کے لیے اسکالرشپس حاصل کیں۔ یعنی اگر کوئی امیدوار قابل اور اہل ہے اور اس میں آگے بڑھنے کی تڑپ اور لگن موجود ہے، لیکن وہ مالی وسائل نہیں رکھتا، تو ہماری ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ اُس کا داخلہ ہو جائے۔کوئی بھی فرد ہماری ویب سائٹ کے ذریعے ہم سے بہ آسانی رابطہ کر سکتا ہے، بلکہ مَیں جنگ، سن ڈے میگزین کے توسّط سے قارئین کو ادارے کے وِزٹ کی دعوت بھی دیتا ہوں۔‘‘

یکساں نظامِ تعلیم سے متعلق کیے گئے ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ ’’ہمارے ہاں یکساں نظامِ تعلیم نافذ کرنے کے نعرے تو بہت لگائے جاتے ہیں، لیکن بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے تعلیمی اداروں کا معیار گرا کر یکسانیت پیدا کرنا کسی طور دُرست نہیں۔ البتہ غیر معیاری تعلیم فراہم کرنے والے ادارے اپنی کارکردگی میں بہتری لا کر اچّھے اداروں کی ہم سَری کر سکتے ہیں۔‘‘ تعلیمی نصاب پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان کے نصاب میں یہ بتایا جاتا ہے کہ مختلف درجات کے طلبہ کو فلاں فلاں چیز کے بارے میں علم ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر ہمارے مُلک کے نصاب کے تحت پہلی کلاس کے طالب علم کو ٹھوس، مایع اور گیس کے درمیان تمیز کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ نیز، وہ دو ہندسوں پر مشتمل اعداد لکھنے کے علاوہ جمع، تفریق بھی کرسکتا ہو۔ اسی قومی نصاب کی روشنی ہی میں مختلف اشاعتی ادارے اپنی اپنی کُتب شایع کرتے ہیں، جو سلیبس کہلاتا ہے۔ ہر چند کہ ہر ادارے کا سلیبس مختلف ہو سکتا ہے، لیکن یہ قومی نصاب کے تحت ہی تیار کیا جاتا ہے۔ اب اگر کسی اسکول میں ایک اچّھا ٹیچر معیاری سلیبس پڑھاتا ہے، تو یقیناً طلبہ کا معیار بھی بہتر ہو گا۔‘‘ تعلیم کے فروغ میں نجی تعلیمی اداروں کے کردار کی بابت ڈاکٹر ساجد علی کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے مُلک میں قائم نجی اسکولز کے مختلف درجات ہیں ، سب کو ایک ہی صف میں کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ سو، ہمیں سب سے پہلے نجی اسکولز کے درجات میں تمیز کرنی چاہیے اور سب پر ایک ساتھ دھاوا نہیں بول دینا چاہیے۔ اگر کوئی نجی اسکول معقول فیس میں معیاری تعلیم فراہم کر رہا ہے، تو ہمیں اس کی خدمات کو سراہنا چاہیے، لیکن اگر کوئی ادارہ صرف تجارتی بنیادوں پر چلایا جا رہا ہے، تو حکومت کو اُسے اپنے احکامات کا پابند کرنا چاہیے۔ ‘‘ 

اسلامک اسکولز کے اساتذہ سے قُربت بڑھ رہی ہے، ڈاکٹر ساجد علی

  ہمارے مُلک میں دینی مدارس میں تدریس کے فرائض انجام دینے والے افراد کی بھی ایک کثیر تعداد ہے۔ جب ڈاکٹر ساجد علی سے سوال کیا گیا کہ ’’کیا آئی ای ڈی میں مدارس کے اساتذہ کی تربیت کا اہتمام بھی کیا گیا ہے؟‘‘، تو اُنہوں نے جواب دیا کہ ’ ’ادارے کی سطح پر میرا مدارس کے اساتذہ سے کبھی رابطہ نہیں ہوا، لیکن بعض ایجوکیشن سیمینارز میں میری ان سے ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ ان دِنوں اسلامک اسکولز کا رجحان کافی مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ ان تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم پر بھی خاصی توجّہ دی جاتی ہے اور ان میں سے بعض اداروں میں ہمارے گریجویٹس بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ تاہم، خالصتاً دینی مدارس کے اساتذہ یہاں نہیں آتے اور غالباً اس کا سبب یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے میل جول میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں، البتہ ہم بہ تدریج دُوریاں ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس وقت ایک مفتی صاحب ہمارے ادارے میںپیڈاگوجیکل لیڈر شپ کا کورس کررہے ہیں اور اپنے ساتھ مزید افراد کو بھی داخلہ دلوانا چاہتے ہیں۔ دراصل، دونوں جانب ہی کچھ حدود قیود ہیں۔ مثلاً ،اگر مَیں کسی دارالعلوم چلا جائوں، تو لوگ حیران ہو کر کہیں گے کہ ’’یہ یہاں کیا کر رہے رہیں؟‘‘ اور اگر دینی مدارس والے ہمارے پاس آ جائیں، تو اُنہیں بھی شاید اجنبیت محسوس ہو۔ پھر ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم ریاضی، طبیعات اور انگریزی جیسے عصری علوم پر مہارت رکھتے ہیں، جب کہ دینی مدارس کے مضامین بالکل ہی جُدا ہیں ۔ ہم انہیں حدیث و فقہ جیسے مضامین میں تخصّص نہیں کروا سکتے، البتہ اُن سے سیکھ ضرور سکتے ہیں۔ بہر کیف، جو مدارس عصری علوم کی جانب راغب ہو رہے ہیں،تو اُن سے ہماری قُربت بڑھے گی۔‘‘

ادارے کے ماحول نے بے حد متاثر کیا،طلبہ کی گفتگو

انسٹی ٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈیولپمنٹ کے سروے کے دوران ہماری سہیل علی کے علاوہ چند دیگر طلبہ سے بھی بات چیت ہوئی۔ اس موقعے پر کراچی سے تعلق رکھنے والی پی ایچ ڈی کی طالبہ، شہروزجیسانی کا کہنا تھا کہ ’’مُجھے پہلی مرتبہ آغا خان ایجوکیشنل سروس نے، جہاں مَیں ایک معلّمہ کے طور پر خدمات انجام دے رہی تھی، 2004ء میں ماسٹرز کے لیے یہاں بھیجا تھا۔ 2007ء میں ایم ایڈ کرنے کے بعد مَیں نے 11برس تک آغا خان کالج میں اکیڈیمک وائس پرنسپل کے طور پر خدمات انجام دیں اورپھر ملازمت سے مستعفی ہو کر پی ایچ ڈی کے لیے یہاں داخلہ لے لیا۔ ہر چند کہ ادارے نے میری قابلیت اور استعداد میں اضافے کے ساتھ میری صلاحیتوں کو بھی نکھارا، لیکن اس کے ماحول نے مُجھے بے حد متاثر کیا ۔ 

مَیں پی ایچ ڈی کے بعد پاکستان ہی میں شعبۂ تدریس میں خدمات انجام دینا چاہتی ہوں۔‘‘پی ایچ ڈی کے ایک دوسرے طالب علم، علی گوہر چانگ نے بتایا کہ ’’مَیں نے پہلی مرتبہ 2004ء میں ایجوکیشن سیکٹر ریفارم اسسٹنس نامی پروگرام کے تحت آئی ای ڈی کے پروگرام میں ایک مینٹور کے طور پر شمولیت اختیار کی تھی، تب مَیں پرائمری اسکول ٹیچر تھا۔ پھر مَیں نے اسکالرشپ پر ایم ایڈ میں داخلہ لیا اور ماسٹرز کے بعد تو میری زندگی بالکل ہی بدل گئی۔ مَیں نے سرکاری ملازمت کو خیر باد کہہ کر 5برس تک آغا خان ایجوکیشن سروس کے تحت حیدر آباد میں پرنسپل کے طور پر خدمات انجام دیں، جب کہ اس وقت سکھر میں واقع آئی بی اے پبلک اسکول میں بہ طور پرنسپل فرائض انجام دے رہا ہوں۔ ایم ایڈ کے بعد میرے دِل میں پی ایچ ڈی کرنے کا خیال آیا، تو مَیں نے جرمنی کی ایک یونی ورسٹی سے رابطہ کیا، لیکن ذاتی وجوہ کی بنا پر وہاں نہ جا سکا۔ سو، مَیں نے یہیں سے پی ایچ ڈی کا فیصلہ کیا۔ میرے خیال میں شعبۂ تعلیم کے حوالے سے نہ صرف پاکستان بلکہ اس پورے خطّے میںاس جیسا کوئی ادارہ موجود نہیں۔ ایک تو یہاں کا ماحول بہت متاثر کُن ہے اور دوسرا یہاں تحقیق کے لیے خاطر خواہ وسائل دست یاب ہیں۔ چُوں کہ مَیں ایک محبِّ وطن پاکستانی ہوں، تو پی ایچ ڈی کے بعد بھی اپنے وطن ہی میں خدمات انجام دُوں گا۔‘‘ علی گوہر نے مزید بتایا کہ ’’یہاں سے ایم ایڈ کے بعد مَیں نے ٹھٹّھہ کے ایک اسکول میں وائس پرنسپل کے طور پر فرائض انجام دیے اور پھر حیدر آباد میں آغا خان ایجوکیشن سروس کے تحت چلنے والے اسکول سے منسلک ہو گیا۔ اُس زمانے میں اس اسکول کے نتائج بہت مایوس کُن تھے، جس کی وجہ سے اسے بند کر دیا گیا تھا، لیکن جب مَیں نے اسکول کا انتظام سنبھالا، تو یہاں سے تعلیم یافتہ ہونے کی بنا پر مَیں نے طلبہ پر توجّہ دینے کے ساتھ کمیونٹی سے روابط استوار کیے اور اگلے برس اس اسکول کا نتیجہ 93فی صد تھا۔ اسی طرح جب مَیں نے 2012ء میں سکھر میں آئی بی اے پبلک اسکول کا نظم و نسق سنبھالا، تو تب وہاں کے اساتذہ بھی مُلک کے دیگر ٹیچرز کی طرح ہڑتال پر تھے اور درس و تدریس کا سلسلہ نہ ہونے کے برابر تھا، لیکن آج یہ اسکول والدین کی پہلی ترجیح بن چُکا ہے۔ آج سے 6برس قبل اس اسکول میں770طلبہ زیرِتعلیم تھے، جب کہ اس وقت یہاں 2,400طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور یہاں سے فارغ التّحصیل طلبہ اس وقت امریکا سمیت دیگر ترقّی یافتہ ممالک میں بھی زیرِ تعلیم ہیں۔ میری ان تمام کام یابیوں کا سبب یہ ادارہ ہی ہے کہ جس نے تعلیم فراہم کرنے کے ساتھ میری صلاحیتوں کو بھی نکھارا اور اس انداز سے میری تربیت کی کہ مَیں ہر قسم کے بُحرانوں سے نمٹ سکوں۔‘‘ ہم سے بات چیت میں ہُنزہ، گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی ایم ایڈ کی اسٹوڈنٹ، غزالہ صفت نے بتایا کہ ’’ یہاں آنے سے قبل مَیں آغا خان ایجوکیشن سروس کے تحت اپنے آبائی علاقے، بوجھال میں انگریزی ٹیچر اور کمیونٹی ایجوکیٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہی تھی اور میرے شوہر نے، جو یہاں سے ایم ایڈ کرکے جا چُکے تھے، مُجھے یہاں داخلے کی ترغیب دی۔ پھر چُوں کہ گلگت بلتستان ،بالخصوص ہُنزہ میں آئی ای ڈی کے گریجویٹس کے گہرے اثرات ہیں، لہٰذا وہاں سے تعلق رکھنے والے ہر ٹیچر کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس ادارے سے تعلیم حاصل کرکے اپنے کیریئر میں اعلیٰ مقام حاصل کرے۔ مَیں یہاں اس بات کا ذکر ضروری سمجھتی ہوں کہ مَیں اپنےکم سِن بیٹے کو گھر چھوڑ کر یہاں آئی تھی اور اس کی جدائی نے مُجھے خاصا افسردہ کر دیا تھا، لیکن جب مَیں نے یہاں کا ماحول اور لوگوں کا طرزِ عمل دیکھا، تو میری رنجیدگی بہت حد تک کم ہو گئی۔ یہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد نہ صرف میری علمی استعداد بڑھی، بلکہ نفسیاتی و سماجی طور پر بھی مجھ میں بہتری آئی ہے۔ نیز، چُوں کہ ادارہ، طلبہ کو مالی معاونت بھی فراہم کرتا ہے، تو بہت حد تک معاشی پریشانیاں بھی دُور ہو جاتی ہیں۔ اس وقت میرا ایم ایڈ تقریباً مکمل ہو چُکا ہے اور اب مَیں اپنے آبائی علاقے میں واپس جا کر مقامی اساتذہ کی صلاحیتیں نکھارنا چاہتی ہوں۔‘‘

تازہ ترین