• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Underratedشخص وہ ہوتا ہے جسے اپنے ٹیلنٹ کے اظہار کامناسب موقع نہ مل سکے اور اگر موقع ملے تو وہ کلک نہ کرسکے اور اگر کلک کر جائے تو اسے عوامی یا حکومتی سطح پر وہ پذیرائی نہ مل سکے جس کا وہ حقدار تھا۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ایسے لوگ بد قسمت ہوتے ہیں، ایسے لوگ مشہور بھی ہوتے ہیں اور انہیں کسی حد تک پذیرائی بھی ملتی ہے مگر وہ مقام نہیں مل پاتا جو اس میدان میں ان کے ہم عصروں کومل جاتا ہے ۔ویسے تو ہمارا پورا ملک ہی underratedکے زمرے میں آتا ہے لیکن پھر بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس تعریف پر مکمل طور سے پورا اترتے ہیں ،جیسے:
1۔سہیل عباس: یہ شخص پاکستان کی ہاکی ٹیم کا سابق کپتان ہے اورہاکی کی تاریخ میں سب سے زیادہ گول سکور کرنے کا عالمی ریکارڈہولڈر ہے۔سہیل عباس نے 2004ء میں 268واں گول سکور کرکے ہالینڈ کے کھلاڑی Paul Litjensکا ریکارڈ توڑا تھا ۔سہیل عباس کے پاس ایک سال میں سب سے زیادہ یعنی 60گول کرنے کا ریکارڈ بھی ہے اور یہ وہ کھلاڑی ہے جس نے پہلے 100 اور 200گول سکور کرنے کا ہدف تیز ترین رفتار سے عبور کیا سہیل عباس اب تک 348گول سکور کر چکے ہیں۔ ان کے اس ریکارڈ کو کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی کے برابر سمجھا جا سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں سہیل عباس کا ہاکی میں وہی مقام ہے جو بھارتی کرکٹ میں سچن ٹنڈولکر کا ہے لیکن دونوں کی پذیرائی میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ٹنڈولکر کو حال ہی میں بھارتی راجیہ سبھا (سینیٹ) کا رکن منتخب کیا گیا ہے،بھارتی حکومت نے انہیں پدما وی بھوشن ایوارڈ ،جو بھارت کا دوسرا بڑا سول ایوارڈ ہے ،سے بھی نوازا ہے ۔اسکے علاوہ پدما شری ایوارڈ اور دیگربے شمار قومی اور بین الاقوامی اعزازات بھی سچن کے حصے میں آئے ہیں ۔سچن کے ڈیڑھ درجن سے زائد ملٹی نیشنل اور بھارتی کمپنیوں کے ساتھ اشتہاری معاہدے ہیں ،1995میں انہوں نے ورلڈ ٹیل سے ساڑھے پانچ ملین ڈالر کا معاہدہ کیا ،2001میں اسی کمپنی کیساتھ ساڑھے چودہ ملین ڈالر کا معاہدہ کیا اور 2006میں ایک اور کمپنی کے ساتھ قریباًتینتیس ملین ڈالر کا معاہدہ کیا ۔
دوسری طرف اپنے سہیل عباس ہیں جن کے پاس لے دے کے ہالینڈ یا ایسے ہی کسی دوسرے ملک کی لیگ کے لئے کھیلنے کا معاہدہ ہے اور بس۔بے شک پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیوں یا کاروباری اداروں کا حجم بھارت کے مقابلے میں بہت کم ہے مگر جو تھوڑا بہت گلیمر اور پیسہ ان کمپنیوں کی مرہون منت ہے وہ سارا کرکٹ کے کھلاڑیوں اور اعصام الحق پر خرچ ہو جاتا ہے ۔کوئی بتائیگا کہ شاہد آفریدی یا اعصام الحق کا سہیل عباس سے کیا مقابلہ ہے؟ یقینا سہیل عباس underratedشخص کی بہترین مثال ہے ۔
2۔امان اللہ : کئی دہائیوں سے پاکستانی سٹیج اور ٹی وی پر قہقہے بکھیرنے والا یہ شخص اب تک underrated ہے ۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امان اللہ کو تا حال صدارتی تمغہ برائے حسن کا ر کردگی تک نہیں ملا جبکہ وہ فنکار جو امان اللہ کے پیروں کی خاک بھی نہیں، حکومت سے اس سے بڑے ایوارڈ محض اس لئے وصول کر چکے ہیں کیونکہ وہ امان اللہ کی طرح ”پینڈو“ نہیں ہیں۔ پوری بھارتی فلم انڈسٹری میں ایک بھی کامیڈین ایسا نہیں جو امان اللہ جیسا تخلیقی اور مزاح سے بھرپور جملہ کہہ سکے۔ امان اللہ میں ایسی خداداد صلاحیت ہے کہ وہ کئی کئی گھنٹے تک لگاتار تن تنہا حاضرین کے سامنے پرفارم کرتا ہے اورایک لمحے کو بور نہیں ہونے دیتا۔اپنے عروج کے زمانے میں امان اللہ اپنے ساتھی فنکاروں کو سٹیج پر چیلنج دیا کرتا تھا کہ وہ اکیلا تمام فنکاروں کی جگتوں کا جواب دے گا اور بھاگے گا نہیں چاہے رات کے دو بج جائیں ۔امان اللہ کے اس چیلنج کے نتیجے میں حاضرین اس قدر تالیاں بجاتے کہ حال کی چھت اڑ جاتی ۔پچھلے دنوں جیو نیوز کے مقبول ترین پروگرام ”خبرناک“ میں خوبرو میزبان آفتاب اقبال نے گلوبل وارمنگ کا ذکر چھیڑ تے ہوئے کہا کہ بڑی پریشانی کی بات ہے کہ گلیشیرز پر برف پگھل ر ہی ہے ،اس پر تبصرہ کرتے ہوئے امان اللہ نے کمال کا جملہ کہا ”تہانوں پہاڑاں تے پگھل دی ہوئی برف نظر آندی اے ،پر جیڑی برف غریب دے پھٹے تے پگھل دی اے او نئیں دسدی ۔“(آپ کو پہاڑوں پر پگھلتی ہوئی برف تو نظر آتی ہے مگر جو برف غریب کے تھڑ ے پر رکھی ہوئی پگھل جاتی ہے اس کی کوئی فکر نہیں )۔بھلا ہو آفتاب اقبال کا جو اب تک اپنے پروگرام میں پاکستان کے اس بے پناہ ٹیلنٹ کی پذیرائی کر رہے ہیں ورنہ امان اللہ بھی اس سفاک دنیا میں کہیں گم ہو جاتا ۔امان اللہ underratedلوگوں کی ایک ایسی مثال ہے ،جسے عوامی سطح پریقینا پذیرائی ملی مگر حکومتی سطح پر صفر۔
اکیلے امان اللہ ہی کیوں ،پاکستانی سٹیج کے دیگر آرٹسٹ بھی خاصے underratedہیں اور اس میں کسی حد تک انکا اپنا قصور بھی ہے ۔اسکے علاوہ مزید underratedلوگوں کی مزید مثالیں بھی تلاش کی جا سکتی ہیں جیسے ہمارے ٹی وی کے اداکار فردوس جمال، محبوب عالم وغیرہ۔میری رائے میں تو یہ فنکار کسی بھی آسکر اداکار سے کم ٹیلنٹڈ نہیں مگرہم انہیں گھر کی مرغی دال برابر ہی سمجھتے ہیں ۔
پاکستان میںunderratedلوگوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ ”اردو میڈیم“ ہیں ۔با الفاظ دیگر ایسے تمام لوگ جو اپنے آپ کو ٹیلنٹڈ سمجھتے ہیں مگر ”اردو میڈیم“ ہیں ،اپنے آپ کو underratedلوگوں کے کھاتے میں ڈال سکتے ہیں۔یہاں دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے ۔پہلی یہ کہ اوسط یا اوسط سے کچھ اوپر کا ٹیلنٹ نارمل ہوتا ہے چنانچہ ایسے لوگ اگر دوآتشہ کے طور پر اردو میڈیم بھی ہوں تو ان کے underrateہونے کے امکانات خاصے روشن ہو جاتے ہیں ۔دوسری یہ کہ جس شخص میں بے پناہ ٹیلنٹ ہوتا ہے ،اسے اردو میڈیم ہونے سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا اوروہ underrateہونے سے بچ جاتا ہے ۔تاہم استثنیٰ ہر جگہ مل جاتے ہیں ۔اردو میڈیم والوں کا المیہ وہی ہے جو پاکستان کا ہے ۔جس طرح ہمارے ملک کے ادیب ،شاعر،ڈرامہ نگار ،کھلاڑی ،فنکار ،مصور کو دنیا میں غریب اور پسماندہ ملک کا باشندہ ہونے کی وجہ سے پذیرائی نہیں ملتی ،اسی طرح خود پاکستان میں ایسے لوگوں کیلئے اپنا آپ منوانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔اس شخص کو تو ہم بندہ ہی نہیں سمجھتے جسے انگریزی نہ آتی ہو حالانکہ انگریزی کا علم سے کوئی تعلق نہیں۔ آج کل تو ناچ گانے کے مقابلوں کے جج اور ماڈلز بھی انگریزی بولتی ہیں تو کیا اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے سقراط سے لیکر سارتر تک سب پڑھ لکھ کے ہضم کرڈالا ہے !جب تک ہم انگریزی کی اس قسم سے مرعوب ہوتے رہینگے،ہمارے معاشرے میں underrated لوگ پیداہوتے رہیں گے ۔
فی زمانہunderrate ہونے کی ایک وجہ non-brandingہے۔اگر آپ ہنر مند ہیں ،محنتی ہیں اورانگریزی کا تڑکہ لگانا جانتے ہیں تو بھی آپ کو برینڈنگ کی ضرورت ہے وگرنہ آپ کے underrate رہنے کا اندیشہ ہے ۔اس شوخے قسم کے لفظ کا دو ٹوک ترجمہ تو ممکن نہیں البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ برینڈنگ ،ایک طرح سے مارکیٹنگ اور امیج بلڈنگ کی بہن ہوتی ہے ۔اس کی بہترین مثال معین اختر مرحوم کی ہے ۔بلاشبہ وہ ایک ٹیلنٹڈ فنکار تھے مگر ٹیلنٹ کیساتھ ساتھ انہوں نے اپنی زبردست برینڈنگ بھی کر رکھی تھی جس نے انکی شہرت کو چار چاند لگا دئیے ۔آج کل تو non-branded صوفیوں کو کوئی نہیں پوچھتا تو عام آدمی بیچارہ کس کھاتے میں ہے!پس ثابت ہوا کہ جو لوگ نسبتاً کم ٹیلنٹڈ ہیں، انہیں چاہئے کہ اپنی اچھی سی برینڈنگ کریں تاکہ underrate ہونے سے بچ جائیں ۔
تازہ ترین