• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوشل میڈیا سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کا ایسا شاہکار ہے جس نے جہاں ایک طرف دنیا کے ہر شخص کو فاصلوں کو خاطرمیں لائے بغیر لمحوں میں اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کی صلاحیت عطا کردی ہے، بدعنوان حکمرانوں اور طاقتورحلقوں کی من مانیوں کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دینے کی سہولت سے عام آدمی کو بہرہ ور کردیا ہے ، وہیں اس کی وجہ سے بے بنیاد اطلاعات ، جعلی خبروں، فحش مواداور سماج دشمن معلومات کی کسی روک ٹوک کے بغیر ترسیل کی راہیں بھی کشادہ ہوگئی ہیں۔ اس بناء پر سوشل میڈیا کو معقول حدود و قیود کا پابند بنانے کی ضرورت کا احساس پوری دنیا میں پایا جاتا ہے لیکن یہ چیلنج جس قدر دشوا ہے اس کا اندازہ آکسفورڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ کی ایک تازہ ترین تحقیق کے نتائج سے لگایا جاسکتا ہے جس کے مطابق سوشل میڈیا کمپنیوں کیخلاف سخت کریک ڈائون اور کارروائی کے باوجود 2016ء کے مقابلے میں جعلی خبریں پہلے سے زیادہ پھیل رہی ہیں، تاہم سوشل میڈیا کو منضبط کرنے کی ضرورت سے بہرحال انکار نہیں کیا جاسکتا اور وہ تمام ممکنہ تدابیر لازماًاختیار کی جانی چاہئیں جو اس ضروررت کو پورا کرسکیں۔ اس حوالے سے گزشتہ روز کراچی میں ’’There is no truth only Narrartive‘‘ کے عنوان سے ایک مذاکرے کا اہتمام کیا گیا جس میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چوہدری بھی شریک تھے۔مذاکرے میںوزیر اطلاعات نے یہ اہم انکشاف کیا کہ موجودہ حکومت نے سوشل میڈیا کو قواعد و ضوابط کا پابند بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس سلسلے میں جلد ہی عملی اقدامات شروع کردیے جائیں گے۔ سوشل میڈیا کی بے لگامی کے نتیجے میں رونما ہونے والی صورت حال کی عکاسی انہوں نے ان الفاظ میں کی کہ سوشل میڈیا پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں‘ ہزاروں جھوٹے اکاؤنٹس سے غلط خبریں اور جعلی نوٹیفکیشن سامنے آتے ہیں‘اس کو قا نون کے دائرے میں لانا ایک چیلنج ہے۔وفاقی وزیراطلاعات نے بتایا کہ پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کو الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے علاوہ سوشل و ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی ذمہ داری بھی دی جائے گی۔انہوں نے بحیثیت مجموعی میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ روش کے مسئلے کے بنیادی پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ روزانہ نجی ٹی وی چینلوں پر بہت سی بریکنگ نیوز نشر ہوتی ہیں جو بعد میں غلط ثابت ہوتی ہیں،تاہم اصل چیلنج سوشل میڈیا ہے کیونکہ سوشل ویب سائٹس پر اکاؤنٹس کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ترقی یافتہ ملکوں کے تعاون کی ضرورت واضح کرتے ہوئے اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ زیادہ تر سوشل میڈیا کو یہی ممالک کنٹرول کرتے ہیں۔سوشل میڈیا کو منضبط کرنے کی ضرورت کا احساس ان دنوں حکومتی حلقوں میں خاص طور پر شدت کیوں اختیار کرگیا ہے۔ وزیر اطلاعات نے اپنی گفتگو میں تحریک لبیک پاکستان کے حالیہ ملک گیر دھرنوں کے دوران سوشل میڈیا کے بہت بڑے پیمانے پر استعمال کا حوالہ دے کر اس سوال کا جواب فراہم کردیا،تاہم فواد چوہدری نے سوشل و ریگولر میڈیا کی فعالیت کے اس مثبت پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا کہ اس کی وجہ سے ہر بات کہنے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے کیونکہ پرانی ویڈیو سامنے آجاتی ہے‘پہلے وزراء بیانات دے کر مکر جاتے تھے مگر اب ویڈیوز سامنے آجاتی ہیں اور سوشل میڈیا سے آنے والی پوسٹس کو روکنا مشکل ہوتا ہے لہٰذاوزراء کو محتاط رہنا چاہیے۔حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا اس طرح ایک کل وقتی اور خودکار نظام احتساب بن گیا ہے اور اسے قواعد و ضوابط کے دائرے میں لاتے ہوئے یہ اہتمام کیا جانا چاہئے کہ اس کا یہ کردار متاثر نہ ہونے پائے۔معاملے کا یہ پہلو بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال میں خود ملک کی معروف سیاسی جماعتوں کا حصہ بھی کم نہیں، ان کے میڈیا سیل اپنے سیاسی مخالفین کی کردار کشی کے لئے بے بنیاد الزامات کی دھواں دھار مہم چلاتے اور اپنے رہنماؤں کی امیج بلڈنگ کے لیے بے بنیاد دعووں کا طومار باندھتے ہیں، سوشل میڈیا کی اصلاح کے لئے ان رویوں کا ترک کیا جانا بھی ناگزیر ہے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین