• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

The promise given was a necessity of the past: The word broken is a necessity of the present.

(The Prince by Niccolo Machiavelli)

سیاسی مخاصمت اور مذہبی منافرت کا سیم اور تھور لگ جائے تو ذہنوں کی زرخیز زمینیں بنجر ہو جاتی ہیں۔ ایک طرف حِس مزاح جیسے لطیف اور خوبصورت پودے سوکھنے لگتے ہیں تو دوسری جانب زود رنجی، تنک مزاجی، ترش روئی اور چڑچڑے پن جیسی خودرو جھاڑیاں نہایت تیزی سے اُگنے لگتی ہیں۔ اب آپ صدر مملکت جناب عارف علوی کے اس جملے کی ہی مثال لے لیں کہ سیاست میں الیکشن سے پہلے کئے گئے وعدے بھی شادی سے قبل کئے گئے عہد و پیمان جیسے ہوتے ہیں۔ عام حالات میں لوگ ادبی نوعیت کی اس واردات سے لطف پاتے مگر اب یہ نوبت کہ ایسے جملے بھی منہ چڑاتے ہیں۔ کسی دوست نے مخلصانہ مشورہ دیا تھا کہ قصیدہ گوئی کے فن سے شناسائی درکار ہے تو میکاولی کی یہ کتاب ازسرنو پڑھو۔ چونکہ میں خود کو اس کتاب کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش میں تھا اس لئے مجھے تو عارف علوی صاحب کے اس جملے میں ادبی چاشنی اور حس مزاح کی بھرپور جھلک دکھائی دی۔ وہ چاہتے تو میکاولی کے مذکورہ بالا قول کا حوالہ بھی دے سکتے تھے کہ تب کئے گئے وعدے ماضی کے حالات کی مناسبت سے ناگزیر تھے اور اب موجودہ معروضی حقائق کی روشنی میں یہ وعدے توڑنا ہی اچھا ہے۔ میکاولی تو برملا کہتا ہے کہ سیاست کا اخلاقیات سے کوئی لینا دینا نہیں۔ بادشاہ عہد توڑنا چاہے تو اس کے بیشمار جواز ڈھونڈے جا سکتے ہیں البتہ وعدہ توڑنے کے لئے پیش کیا گیا جواز معقول ہونا چاہئے اور پھر معقولیت و نامعقولیت کا فیصلہ بھی تو آپ جناب نے خود ہی کرناہے۔نکولو میکاولی نے ہوش سنبھالا تو اٹلی میں بادشاہت کے خلاف بغاوت کی تحریک زوروں پر تھی۔ حالات کے پیش نظر اس نے بھی جمہوریت کا علم اٹھا لیا۔ بادشاہی نظام کو شکست ہوئی اور جمہوری تماشا جگہ بنانے میں کامیاب ہوگیا لیکن یہ نیا سیاسی بندوبست محض 18برس ہی چل سکا۔ اب جب خاندانی بادشاہت کا زمانہ پھر سے لوٹ آیا تو نکولو میکاولی نے قصیدہ گوئی کی غرض سے یہ شہرہ آفاق کتاب لکھی جسے ہم ’’دی پرنس‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ میکاولی نے اس کتاب میں طویل عرصہ تک برسر اقتدار رہنے کے گُر بیان کئے ہیں اور بتایا ہے کہ حاکم وقت کس طرح لوگوں کو لمبے عرصے تک بیوقوف بنا سکتا ہے۔ میکاولی کو ناپسندیدہ ترین شخص کی حیثیت حاصل ہے، ناقدین کہتے ہیں کہ اس نے مادہ پرستانہ سوچ کو تقویت بخشی اور اقتدار کو دوام بخشنے کے ایسے طریقے بتائے جن کا انسانیت اور اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے برعکس میرا خیال ہے کہ میکاولی نے سیاسی مفکر کی حیثیت سے وہی کردار ادا کیا جو ہمارے ہاں افسانہ نگار اور ادیب کے طور پر سعادت حسن منٹو کے حصے میں آیا۔ اگر وہ دائمی اقتدار کے لئے اخلاقیات اور انسانیت جیسے کھوکھلے الفاظ کا سہارا لیتا تو یہ سراسر منافقت ہوتی۔ اس نے تو ایک ایسی حقیقت کا پردہ چاک کیا ہے جو بہت بدصورت ہے اور ہم حسب عادت اس بدصورت چہرے کے خال و خد سنوارنے کے بجائے آئینے کو ملامت کرنے لگے ہیں۔

میکاولی اپنی اس مشہور زمانہ کتاب میں بتاتا ہے کہ بادشاہ یا حاکمِ وقت عوام میں کیسے مقبول ہو سکتا ہے اور اس میں کیا خصوصیات ہونی چاہئیں۔ میکاولی کے مطابق عوامی مقبولیت کے دو راستے ہیں، آپ کی شہرت ایک کشادہ دل حکمران کی ہو یا پھر آپ کنجوس کے طور پر پہچانے جاتے ہوں۔ اگر آپ فراخ دل اور فیاض ہیں، دستر خوان وسیع و عریض ہے، عنایات اور بندہ پروری کے قائل ہیں یا لوگوں کو نوازنے کی طرف مائل ہیں تو بلاشبہ لوگ داد و ستد کے ڈونگرے برسائیں گے اور آپ کی سخاوت کے گیت گائیں گے مگر اس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ کسی نہ کسی موقع پر آپ کو ہاتھ کھینچنا پڑے گا اور پھر لوگ آپ سے متنفر ہو جائیں گے اس لئے بہتر ہے کہ آپ کھڑوس اور کنجوس سمجھے جائیں، لوگوں کو پتا ہو کہ آپ کا ہاتھ ہمیشہ دوسروں کی جیب میں ہوتا ہے۔ اسی طرح لوگوں سے برتائو کے معاملے میں بھی بادشاہ یعنی حکمران کے پاس دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ رحمدل حکمران ہوں، لوگ آپ سے پیار کریں اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ آپ ایک سنگدل حکمران ہوں اور لوگ آپ سے خوف زدہ رہیں۔ چاہے جانے کی احتیاج کس میں نہیں ہوتی اور پھر حکمرانی کے بعد تو اس میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے لیکن میکاولی کا خیال ہے کہ یا تو بیک وقت دونوں صورتیں دستیاب ہوں کہ لوگ آپ کو چاہیں بھی اور خوف بھی کھائیں لیکن اگر دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو پھر ڈر کو چن لیں۔ چاہے جانے سے کہیں بہتر ہے کہ آپ کی دہشت ہو، رعب اور دبدبہ ہو، لوگ آپ سے ڈرتے رہیں۔

میکاولی عملیت پسند انسان تھا اور اس نے وہی کچھ لکھا جو اقتدار کے ایوانوں میں نوشتہ دیوار بن سکے مثلاً میکاولی کی یہ بات حقیقت کے کس قدر قریب تر ہے کہ جو شخص آپ کو دھوکا دے، اسے دھوکہ دینے سے دہری خوشی حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح نیم دلی اور پس و پیش کے نقصانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میکاولی کہتا ہے کہ یا تو لوگوں سے فراخدلی اور حسن سلوک کا مظاہرہ کرو یا پھر انہیں نیست و نابود کر دو کیونکہ گھائو ہلکے اور معمولی ہونگے تو لوگ بدلہ اور انتقام لیں گے لیکن زخم گہرے ہونگے تو ان میں اٹھ کھڑے ہونے کی سکت ہی نہیں ہو گی۔ بروقت فیصلے کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے میکاولی کہتا ہے کہ جنگ ناگزیر ہو تو اسے ملتوی نہ کرو کیونکہ اس کے التوا کا فائدہ ہمیشہ دشمن کو ہوتا ہے۔ ویسے گاہے سوچتا ہوں، بیچارہ میکاولی تو خواہ مخواہ بدنام ہے ورنہ ہمارے ہاں تو اقتدار کا کھیل ’’دی پرنس‘‘ میں بیان کئے گئے اصولوں سے کہیں زیادہ بے رحم ہے۔ میکاولی زندہ ہوتا تو اپنی کم مائیگی کا اعتراف کر لیتا۔

تازہ ترین