• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شکر الحمدللہ! حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان کوئی ایک عشرے سے چلنے والے توہین مذہب (بلاسفیمی) کے مقدمے، اس پر سپریم کورٹ کے فیصلے اور فیصلے پر ملک گیر غیر معمولی رد عمل کے حوالے سے مذاکرات کامیاب ہو گئے۔ فریقین میں معاہدے کے مطابق حکومت سپریم کورٹ سے ملزمہ کی رہائی کے خلاف نظر ثانی کی اپیل پر اعتراض نہیں کرے گی، اس کا نام بھی ای سی ایل میں شامل کر دیا جائے گا۔ احتجاجی مظاہروں کے دوران جن کی دل آزاری ہوئی ،تحریک لبیک ان سے معذرت کرے گی، معمولی نوعیت کے جرائم میں جو گرفتاریاں ہوئیں،ختم کر کے ملزمان کو رہا کر دیا جائے گا۔

اس معاہدے پر دستخط اور میڈیا کے ذریعے اس کی اطلاع عام سے ہی حالات میں تیزی سے بہتری آنے لگی، شہروں کے اندر اور بین الاضلاعی آمد و رفت معمول کے مطابق ہو گئی اور صورتحال معمول پر آنے لگی۔ تشویشناک ملکی صورتحال اور آنے والے خدشے و خطرات کے امکانات گھنٹوں میں تیزی سے ٹل گئے۔

بہرحال جو کچھ دو روز میں ہوا اور جس تیزی سے ہوا، اس سے ہماری قومی زندگی کے ان ناگزیر لازموں کی ایک بار پھر تصدیق ہوئی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین و قانون کی چھتری میں عقیدہ ختم نبوتؐ کی طرح تحفظ ناموس رسالتؐ ملی اور قومی سطح کا انتہائی حساس موضوع ہے، اتنا کہ اس حوالے سے جونہی خبروں کی آمدکا سلسلہ شروع ہوا، انہیں رپورٹ کرنے یا مصلحتاً نہ کرنے کے باوجود، خستہ ترین ملکی اقتصادی صورتحال کو کم اور ختم کرنے کی حکومتی عملی کوششوں سے متعلق بیجنگ سے آنے والی خبریں تبصروں و تجزیوں میں وہ جگہ نہ پا سکیں جس کی وہ مستحق تھیں، کیونکہ ملک کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر میڈیا کی محتاط خبروں کے باوجود، زبان زد عام اور سوشل میڈیا کی بے اعتباری اور نیم اعتباری خبریں ہی عوام الناس کی توجہ کا مرکز اور ابلاغ عام کا غالب موضوع بنی رہیں، جو موجودہ تشویش اور آنے والے خدشات کی حامل تھیں۔

تشویش اور خطرات کے ان ایام میں یہ بھی نمایاں طور پر واضح ہوا کہ گورننس میں ناتجربہ کار نئی حکومت قومی سطح پر ایسی تشویشناک ملکی صورتحال کو نا صرف پوری جرأت و ہمت سے حقیقت پسندانہ انداز میں ایڈریس (خصوصاً وزیر اعظم کے قومی نشریے) کرنے میں کامیاب ہوئی بلکہ یہ بھی واضح ہوا کہ حکومت نے گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کے روایتی حکومتی اقدامات کے برعکس پر امن اور حکیمانہ انتظامی طور طریقوں سے اتنی تشویشناک ملک گیر صورتحال کو سنبھالے رکھا اور کامیاب مذاکرات سے مقابل فریق کو متفقہ معاہدے پر رضا مند کر لیا۔ سو ، ایک ایسا معاہدہ ہو گیا جس میں فریقین نے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں گنجائش کے مطابق لچک پیدا کر کے انتہا کی بگڑتی صورتحال کو سنبھال لیا جس سے ملک کے بیرونی دشمنوں کی مہلک مداخلت کے امکانات کا گراف بڑھتا جا رہا تھا۔ اس پر حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کی قیادت دونوں تعریف و تحسین اور قومی شکریے کی مستحق ہیں۔ تحریک اپنے موقف سے بھی نہیں ہٹی اس نے اپنے مطالبات بھی منوا لئے اور حکومت نے معاملہ پھر ریاستی نظام کے مطابق کورٹ آف لاء کی طرف موڑ کر انتہائی خوش اسلوبی سے اپنی رٹ قائم کر دی۔ یہ تو پہلے سے اور ہماری پوری سیاسی و سماجی تاریخ بشمول آئین و قانون میں قطعی بے لچک او ر اٹل ہے کہ عقیدہ تحفظ ختم نبوتؐ اور تحفظ ناموس رسالتؐ مملکت کے لئےلازم و ملزوم ہیں کہ پاکستان مملکت خداداد ہے۔ ہر دوکمٹ منٹس مسلمانان پاکستان کے اجتماعی ایمان کی بنیاد ہیں جن کے بغیر پاکستان کے وجود کا کوئی جواز ہی نہیں، سو کوئی مسلم شہری سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس ایمانی و دینی اساس پر کوئی آنچ بھی آئے۔ ہمارے اقلیتی پاکستانی شہری بہن بھائی بھی، پاکستان کی اس ناگزیر حقیقت کو بخوبی سمجھتے ہیں اور ان کا اجتماعی اور غالب رویہ اس کے مطابق ہی چلا آ رہا ہے ۔رہا معاملہ انفرادی شیطانی رویوں کا جو کسی بھی جانب سے یا سازش اور شر کی شکل میں فساد و انتشار کا باعث بن جائے یا کوئی بیرونی دشمن ایسے حربوں سے ہماری قومی زندگی پر حملہ آور ہو، اس کے انسداد کے لئے پاکستانیوں کا شعور بلا امتیاز مذہب و مسلک اور علاقہ، حکومت و اپوزیشن بیدار ہونا شروع ہو گیا ہے اور اس میں تیزی آ رہی ہے۔

دنیا میں ہماری پہچان کی ایک واضح حقیقت تو یہ ہے جس سے ہم انکار نہیں کر سکتے کہ پاکستان ایک بحرانی اور اپنے قیام سے تا دم سلامتی کے خدشات میں مبتلا مملکت ہے۔ لیکن یہ امر بھی تصدیق شدہ ہے کہ انہی بحرانوں سے نکل کر انہیں ختم کرتے ہوئے ہم اس کی ترقی و استحکام اور مضبوط دفاع کی راہیں نکالتے چلے آئے اور نکالے جا رہےہیں ۔ ہمارے گزرے دو تشویشناک دنوں میں جہاں پاکستان سے دنیا کو ایک ایٹمی ملک کی تحفظ ناموس رسالتؐ بلند درجے کی قومی سنجیدگی کا پیغام گیا ہے وہاں اس کا ایک بڑا اہم حاصل یہ بھی ہے کہ خاکم بدہن اگر اسلامی جمہوریہ میں ختم نبوت ؐ یا ناموس رسالتؐ کے حوالے سے کسی جرم کا ارتکاب ہو بھی جائے یا کسی سازش اور شیطانیت سے ایسا کچھ سامنے آئے تو درج مقدمے کا فیصلہ صرف اور صرف ہماری کورٹ آف لاء ہی کرے گی کہ ہم نے ہر دو حساس ترین موضوعات پر قانون سازی کی ہوئی ہے۔ جسے مزید واضح، موثر اور قابل عملدرآمد بنانے کی بھی گنجائش ہو سکتی ہے۔

اس حوالے سے یہ کیا کوئی کم ارتقائی شکل ہے کہ جناب عمران خان نے وزیر اعظم کا حلف اٹھانے سے قبل اپنے پہلے قومی نشریے میں پاکستان ہی نہیں دنیا بھر پر واضح کر دیا کہ نیا پاکستان ، ریاست مدینہ کے اصولوں اور فلسفے پر استوار کیا جائے، وہ اپنی اس کمٹمنٹ پر بدستور قائم ہیںجس کا واضح سفارتی اظہار ہالینڈ کی حکومت اور اقوام متحدہ میںجرأت مندانہ پاکستانی موقف کے ابلاغ سے ہوا۔وزیر اعظم نے ایشو پیدا ہونے پر چین جانے سے قبل اپنے 7منٹ کے مختصر مگر جامع قومی نشریے میں پھر اپنے اس عہد مقدس کا عزم دہرایا۔ وہ اس ضمن میں جرأت مندثابت ہوئے ہیں۔ اس جرأت اظہار کے بعد بھی ان کی بین الاقوامی مقبولیت میں اضافہ،پاکستان کا ایک بڑا اور نیا اثاثہ ہے جو کوئی ہماری قیادت کی روایتی سوچ کا حربہ نیا، قیام پاکستان کی بنیادی مقاصد اور اس کے لئے قیام پاکستان اور دفاع پاکستان کی خاطر لاکھوں کی شہادتوں کا عکاس ہے۔ سو ہمیں مایوس اور تشویش میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ بحیثیت قوم ہم نے خود کو سنبھالنے بحرانوں سے نپٹنے اور نکل کر ان سے خیر و اصلاح نکالنے کا سبق و تربیت جاری رکھنی ہے۔ وما علینا الاالبلاغ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین