• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لوٹ مار کے بعد حالیہ مظاہروں میں توڑ پھوڑ کے مناظر، مفادات کی شکم پرستی کو عیاں کرتے ہیں، کیا لوگ ہیں کہ اپنے ہی ملک میں جلائو گھیرائو کرتے ہیں، اپنی سڑکیں بند، اپنی عمارتیں تباہ اور اپنوں ہی کی گاڑیوں کو آگ کی نذر کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ دین فطرت کی تعلیمات ہیں؟ جواب آتا ہے کہ نہیں، ہرگزنہیں،دینِ فطرت تو انسانوں میں محبتوں کی تقسیم کا نام ہے مگر موجودہ عہد میں یہ تقسیم نہیں ہو رہی، مسلمانوں کا پچھلی چند صدیوں سے یہی حال ہے۔ علم مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے، آج کا مسلمان علم سے کوسوں دور ہے۔ اس نے تعلیم کو علم سمجھ لیا ہے، اس کی سمجھ میں یہ کیوں نہیں آرہا کہ تعلیم ضرورت کا علم ہے جبکہ انسان کو زندگی میں علم کی ضرورت ہوتی ہے ، جو لوگ تاریخ سے واقف ہیں انہیں اندازہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاں علم کے دریا کیسے بہا کرتے تھے، مسلمانوں کی اکثریت نے اسی دن علم سے منہ موڑ لیا تھا جس دن رسول اللہ کے پیارے نواسےؓکو خاندان سمیت شہید کر دیاگیا تھا یہ کونسا علم تھا، یہ کونسی تعلیم تھی؟ مفادات کی چکی میں کربلا کی ریت پر عظیم علم پس گیا یہیں سے مسلمانوں کا زوال شروع ہوتا ہے، اس زوال کی داغ بیل تو اس واقعہ سے بھی بیس پچیس برس پہلے اس وقت ڈال دی گئی تھی جب شام کے ایک گورنر نے خلیفہ وقت کی اطاعت سے انکار کر دیا تھا۔یہ انکار ہی دراصل علم سے انکار تھا۔

علامہ اقبال ؒ کی شاعری میں یہ سب کچھ بڑے کھلے انداز میں بیان کر دیا گیا ہے، مذہب کے نام پر ہونے والی شکم پرستی بھی بیان کر دی گئی ہے ۔ایک صدی پہلے دنیا کے عظیم مفکر، فلاسفر اور حکیم الامت علامہ اقبال ؒنے جب اپنی دو یادگار نظمیں شکوہ اور جواب شکوہ رقم کیں تو انہیں مذہبی جنونیوں کی طرف سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے اسلامیہ کالج لاہور کے لان میں منعقدہ تقریب میں جونہی ’’شکوہ‘‘ کیا تو فتوے آ گئے شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ علامہ اقبالؒ جیسے اسلام کے خدمت گار کیلئے موت کے فتوے دیئے گئے۔ان فتوئوں کے خلاف پھر ایک جوابی فتویٰ میاں شیر محمد شرقپوری ؒنے دیا۔

صاحبو! مفادات کی اس دنیا میں لوگ مفادات کے چکر میں توڑ پھوڑ بھی کرتے ہیں، اپنا خیال کئے بغیر رشتوں کی پروا نہیں کرتے، قتل وغارت کرتے ہیں، دھوکہ دہی معمولات ہیں، رہنما راہزن بن جاتے ہیں، اپنے ہی ملک کے خلاف عمل پیرا ہو جاتے ہیں، میں یہ سب کچھ دیکھتا ہوں تو مجھے موت کے بارے میں حضرت علیؓ کی وصیت یاد آ جاتی ہے جسے پڑھ کر آپ کی روح لرز جائے گی۔ علم کے دروازے سے صدا آتی ہے کہ ’’اے اللہ کے بندو!میں تمہیں دنیا کے چھوڑنے کی وصیت کرتا ہوں جو تمہیں چھوڑ دینے والی ہے حالانکہ تم اسے چھوڑنا پسند نہیں کرتے اور وہ تمہارے جسموں کو کہنہ وبوسیدہ بنانے والی ہے ۔تمہاری اور دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے چند مسافر کسی راہ پر چلیں اور چلتے ہی منزل طے کرلیں یعنی بہت جلد اپنے انجام کو پہنچ جائیں۔دنیا کی عزت اور اس میں سربلندی کی خواہش نہ کرو اور نہ ہی اس کی آرائشوں اور نعمتوں پر خوش ہوا کرو، اس کی سختیوں اور تنگیوں پر چیخنے چلانے نہ لگ جائو۔ اس لئے کہ اس کی عزت وفخر دونوں مٹ جانے والے ہیں، اس کی آرائشیں اور نعمتیں زائل ہو جانے والی ہیں اور یاد رکھو کہ اس کی سختیاں اور تنگیاں آخر ختم ہو جائیں گی۔ہر زندہ کا انجام فنا ہے، کیا پہلے لوگوں کے واقعات تمہارے لئے کافی تنبیہ کا سامان نہیں اور تمہارے لئے عبرت اور بصیرت نہیں ؟اگر تم سوچو سمجھو! کیا تم گزرے ہوئے لوگوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ پلٹ کر نہیں آتے اور ان کے بعد باقی زندہ رہ جانے والے بھی زندہ نہیں رہتے۔ اور تم دنیا والوں پہ نظر نہیں کرتے جو وہ صبح و شام کرتے ہیں، کہیں کوئی میت ہے جس پہ رویا جا رہا ہے، کہیں کوئی مبتلائے مرض ہے، عیادت کرنے والا عیادت کر رہا ہے اور کہیں کوئی دم توڑ رہا ہے۔کوئی دنیا تلاش کرتا پھرتا ہے اور موت اسے تلاش کر رہی ہے اور کہیں کوئی غافل پڑا ہے لیکن موت اس سے غافل نہیں ہے ۔گزر جانے والوں کے نقش قدم پر ہی باقی رہ جانے والے چل رہے ہیں، میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں کہ بداعمالیوں کے ارتکاب کے وقت ذرا موت کو بھی یاد کر لیا کرو کہ جو تمام لذتوں کو مٹا دینے والی ہے اور نفسانی مزوں کو کرکرا کر دینے والی ہے۔ اللہ کے واجب الادا حقوق ادا کرنے اور اس کی انگنت نعمتوں اور لاتعداد احسانوں کا شکربجالانے کیلئے اس سے مدد مانگتے رہو‘‘ اسی وصیت نامے میں بہت کچھ ہے، بس اس میں سے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔جون ایلیا یاد آ گئے؎

یہ سنا ہے کہ میرے کوچ کے بعد

اس کی خوشبو کہیں بسی ہی نہیں

تازہ ترین