• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا ہمارے جج صاحبان کی انتظامی فعالیت اور منصفانہ جسٹس کیلئے بڑھتے ہوئے مطالبے کے درمیان حائل تفاوت وسیع تر ہوتی جارہی ہے؟کیا یہ بات قابل ِفہم لگتی ہے کہ جج حضرات اپنی جوڈیشل ذمہ داریوں میں تو آئین اور قانون کے مطابق غیر جانبداری سے فیصلے کریں لیکن جب انتظامی معاملات اُن کے سپر د ہوں تو اُن کی فعالیت میں عدم مساوات ، حتی کہ اقربا پروری کا بھی تاثر ملے؟اگر منصف حضرات بھی تقرری اور ترقی جیسے معاملات میں میرٹ پر ذاتی پسند یاناپسند کوحاوی ہونے دیں تو کیا ذہن میں یہ سوچ پیدا ہونا اچنبھے کی بات ہو گی کہ جب یہی حضرات عدالت میں مسند ِ انصاف پر براجمان ہوںتو ان کے فیصلے بھی ’’خوف یا خواہش‘‘ سے متاثر ہوں گے؟
یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں اخلاقی اقدار گراوٹ کا شکار ہیں، اور جو افراد جوڈیشل اتھارٹی پر فائز ہوتے ہیں وہ کسی خلا سے نہیں آتے، وہ اسی معاشرے، اس سماجی اور معاشی نظام کا حصہ ہوتے ہیں، چنانچہ بطور افر اد، اُن کا اخلاقی معیار بھی معاشرے سے الگ نہیں ہوگا، لیکن جب انہیں دیگر انسانوں کے معاملات کا قانون کے مطابق فیصلہ، جس پر اُن کی زندگی اور موت کا انحصار ہوسکتا ہے، سنانے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے تو جوڈیشل آفس یقینا تقدیس کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اور اس سے اُن کوتاہیوں اور لغزشوں کی توقع نہیں کی جاتی جو ہماری عمومی زندگی کا حصہ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ منصف کے لباس میں ملبوس شخص کو شہری عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہمار ا آئین آزادی اظہار کی ضمانت دیتا ہے اور قانون ایک عام شہری کو اجازت دیتا ہے کہ وہ ایک عوامی عہدیدار کی نجی زندگی میں جھانک کر دیکھ لے ،لیکن یہی قانون کسی شہری کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی جج کو بدنام کرنے کی کوشش کرے۔ ہماری عدالتیںاس بات کی وضاحت کرچکی ہیں کہ توہین ِعدالت کے قانون کا مقصد بطور افراد ججوں کی انا، عزت یا کسی معاملے پر ندامت کو تحفظ کی ڈھال فراہم کرنا نہیں بلکہ نظام ِ انصاف پر عوام کا اعتماد قائم رکھنا ہے۔ اس اعتماد کا تعلق بنیادی طور پرانصاف کی بے لاگ فراہمی سے ہے ۔
پاکستان بھر میں اس بات پر کم و بیش اتفاق پایا جاتا ہے کہ ہمارا نظام شکستہ ہوچکاہے۔ اس نظام سے مایوسی کی انتہایہ تھی کہ جب ملک کو انتہا پسندی کے خطرے کا تدارک کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو ہماری پارلیمنٹ نے فوجی عدالتیں قائم کرنے کی منظوری دے دی۔ حال ہی میں سینیٹ نے ’’سستے اور فوری انصاف کی فراہمی‘‘ کیلئے قابل ِ ذکر سفارشات مرتب کی ہیں،لیکن قوانین ، طریق ِ کار اور اوقات کو بہتر بنانااس مسئلے کا مکمل حل نہیں۔ تمام نظام کی درستگی کے باوجود جسٹس سسٹم کی فعالیت کا حتمی نتیجہ کسی انسان کی دیانت پر ہی انحصار کرتا ہے۔ انتظامی اختیارات کی انجام دہی میں جج صاحبان کی معاملہ فہمی کا تنقیدی جائزہ ظاہرکرتا ہے کہ اُن سے نہ صرف بشری لغزش، بلکہ بہت سنگین غلطیوں کا ارتکاب بھی خارج ازامکان نہیں۔ یہ بات انتہائی پریشان کن ہے کیونکہ یہ جج حضرات ہیں جن کی ریاست میں اتھارٹی کس حد تک درست فعالیت کا مظاہرہ کررہی ہے اور کہیں عوامی عہدیدران اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ تو نہیں اٹھارہے۔ کیا جج حضرات اپنی ذات میں اُن ارشادت کو فراموش کردیتے ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر دوسروں کی سماعت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ تین اگست 2015کو پشاور ہائی کورٹ نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشن ججوں کی پچیس خالی اسامیوں کا اشتہار دیتے ہوئے اہل وکلا کو ان اسامیوں کیلئے درخواست دینے کی دعوت دی۔ امیدوارں کا تین مضامین کا تحریری امتحان لیا گیا، جنرل نالج، انگریزی اور سول اور کریمنل لا۔ان اسامیوں کیلئے اہلیت کا معیار اس طرح تھا، ’’ ہر تحریری امتحان میںکامیابی کے نمبر، پینتالیس فیصد ، جبکہ اوسط کامیابی کیلئے پچپن فیصد نمبر ضروری۔‘‘اس اشتہار میں شامل مزید ہدایات کے مطابق،’’ مذکورہ بالا نمبر حاصل نہ کرنے والے کسی بھی امیدوار کو انٹرویو کیلئے نہیں بلایا جائے گا۔ انٹرویو میں ناکام ہونے والے کسی امید وار کو ان اسامیوں کیلئے اہل نہیں قرار دیا جائے گا۔ ‘‘تاہم اس اشتہار یہ بات واضح نہیں ہوتی تھی کہ انٹرویوکا معیار کیا ہوگا،یا اُن سے کیا پوچھا جائے گا جس سے ان کی اہلیت کا تعین ہوگا؟
تحریری امتحان کیلئے پشاور ہائی کورٹ نے ایک آزاد فرم کی خدمات حاصل کی تھیں۔ اس کے بعد فاضل عدالت کے انتہائی سینئر جج صاحبان نے کامیاب امیدواروں کا انٹرویو کیا۔ عدالت کی ویب سائٹ(www.peshawarhighcourt.gov.pk) پر ابتدائی اشتہار، تحریری امتحان اور انٹرویو کے نتائج موجود ہیں۔ اس ویب سائٹ پر آویزں کی گئی فہرست سے ظاہر ہوتا ہے کہ نئے نامزد کردہ پچیس میں سے پندرہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اور سیشن جج تحریری امتحان میں کم از کم کسی ایک مضمون میں مطلوبہ نمبر لینے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ اُنہیں انٹرویو کیلئے بلانا تشہیر کردہ معیار کی خلاف ورزی تھا۔اس کا مطلب ہے کہ تحریری امتحان میں ناکام رہنے والے کسی طور پر انٹرویومیں اپنی ’’صلاحیتوں ‘‘ کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب رہے۔ کیا کسی کھیل کے دوران اس کے قواعد کو تبدیل کیا جاسکتا ہے؟کیا وہ جو طے شدہ معیار کو حاصل کرنے میں ناکام رہے، اُنہیں بعد میں معیار میں تبدیلی کرکے کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے؟کیا یہ بات اشتہار میں ہی واضح طو رپر نہیں بتادینی چاہئے تھی کہ قابلیت کی اصل جانچ انٹرویو میں ہی ہوگی؟فرض کریں کہ اگر ہائی کورٹ یہ امتحان نہ لے رہی ہوتی، جج حضرات اس کے معیار اور جانچ کو طے نہ کررہے ہوتے تو اگر کوئی اس پر درخواست دے دیتا تو اس کا کیا نتیجہ نکلتا؟ہماری عدالتوں میں ایسے کیسز ہر روز پیش ہوتے ہیں۔ جج صاحبان عوامی عہدیداروں کی فعالیت پر نکتہ چیں ہوتے ہیں۔ وہ دیانت داری کی تصویر بنے خطبہ دیتے ہیں کہ وہ دن گئے جب بادشاہ یا آمر من مانی کرتے تھے، اور یہ کہ عدالتیں ریاست کے وسائل کو کسی ذاتی جاگیر نہیں بننے دیں گی۔ کہا جاتا ہے کہ جو فیصلہ بھی آئین کی جنرل شقوں سے متصادم ہوگا، وہ منصفانہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ عدالت کے ایوانوں سے آواز آتی ہے کہ اقربا پروری اور امتیازی سلوک دیگر شہریوں کے حقوق پر ڈاکا ہے۔ ایگزیکٹوکو یاددلایاجاتا ہے کہ عدالت عام شہریوں کے حقوق کی کسی طو رپر پامالی نہیں ہونے دے گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب خیبر پختونخوا کے وہ امیدوار جو ڈسٹرکٹ جج بننے میں ناکام رہے ، اور جن کا خیال تھا کہ وہ کامیاب ہیں، وہ کس عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے کیونکہ اُنہیں تو ہائی کورٹ سے بھی انصاف نہ ملنے کی شکایت ہے۔ اور یہ وہ عدالت ہے جس نے صوبے کے شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ تاہم صرف پشاور ہائی کورٹ کے اس معاملے کو اجاگر کرنا زیادتی ہوگی۔ جب اسلام آباد اور لاہور ہائی کورٹس نے اپنی اپنی ضلعی عدالتوں کیلئے جج بھرتی کرنے تھے تو اس طریق ِ کار کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھائے گئے تھے۔ خدشہ ہے کہ اگرکسی شخص نے سینئر ججوں کے نامزد کردہ ڈسٹرکٹ کورٹس کے ججوں کی فہرست بنائی اور ان کے معیار کو جانچا تو مشکل ہوجائے گی۔ تاثر ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں بھی تعیناتی کا معیار شفافیت سے عاری ہے۔ یقینا ریاست میں عدلیہ ہی آئین کی محافظ ہے، لیکن اگر یہ اپنے ہی طے کردہ اصولوں کی پاسداری میں ناکام رہے تو یہ کسی کے آئینی حقوق کا کس طرح تحفظ کرسکتی ہے؟
تازہ ترین