• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوال مشکل ہے اور اگر اسے سنبھل کر‘ دھیرے سے پوچھ بھی لیا جائے تو اس کا جواب دینا آسان نہیں۔ منیر نیازی نے تو کسی کو اپنے عمل کا حساب اس لئے نہیں دیا کہ ”سوال سارے غلط تھے‘ جواب کیا دیتے“ لیکن معاملہ اگر کسی ملک یا معاشرے کے احتساب کا ہو تو صحیح سوال کیا ہوگا اور جواب کون دے گا؟ مثلاً پاکستانی معاشرہ جس فکری اور اخلاقی بحران کا شکار ہے اس کی وجوہات کیا ہیں اور ہم کیسے اس آسیب سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں؟ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی یہ ماننے سے ہی انکار کردے کہ ہمارا معاشرہ کسی خوفناک فکری یا تہذیبی انحطاط سے دوچار ہے۔ یہ ”انکاری“ رویہ بھی ایک نفسیاتی مرض سمجھا جاتا ہے ورنہ سارا منظر نظروں کے سامنے ہے۔ وحشت اور دہشت کی آندھی اس سارے منظر کو دھندلا رہی ہے۔ افق پر کہیں بھی کوئی کہکشاں دکھائی نہیں دیتی۔ راستے خاردار جھاڑیوں سے اٹے پڑے ہیں۔ ہاں، خود کو تسلی دینے کیلئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے کتنے ہی اور ممالک‘ ایسی ہی وحشت اور ایسی ہی دہشت کی گرفت میں ہیں۔ پاکستان کی تعلیمی اور تہذیبی پسماندگی کا ذکر کرتے ہوئے‘ یہ سوال میں نے اٹھایا تھا کہ بیشتر مسلمان معاشرے علمی اور ایجادی سطح پر اتنے پیچھے کیوں رہ گئے ہیں اور موجودہ دور کی طلسماتی ترقی میں ہم نے کوئی نمایاں کردار کیوں ادا نہیں کیا؟
یہ سوال کہ ہم باقی دنیا سے پیچھے کیوں رہ گئے‘ دس سال پہلے عرب ممالک میں اٹھایا گیا اور مبصر اب یہ کہتے ہیں کہ عرب ممالک میں جاری عوامی تحریکوں اور سماجی ہلچل کی بنیاد وہ بحث تھی جو اس اہم سوال سے پیدا ہوئی۔ ہوا یہ کہ 2002ء میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے نے عرب ممالک میں انسانی ترقی پر ایک رپورٹ شائع کی۔ اس رپورٹ کی تیاری میں صرف عرب ماہرین اور دانشوروں کو شریک کیا گیا۔ سال کے وسط میں جب یہ رپورٹ منظر عام پر آئی تو عرب دنیا میں ایک کہرام مچ گیا۔ 168 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں عرب ممالک اور عرب عوام کی تعلیمی اور تہذیبی مفلسی کی جو شکل سامنے آئی اس نے خود عربوں کو حیران کردیا۔ اس کے بعد سے یہ رپورٹ سالانہ شائع ہوتی رہی لیکن اس پہلی رپورٹ کا حوالہ آج تک دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا‘ سمجھا یہ جاتا ہے کہ اس رپورٹ نے ہی عربوں کے ذہن میں وہ بے چینی پیدا کی جس کے نتیجے میں پہلے تیونس اور پھر مصر میں مطلق العنان حکمرانوں کا تختہ الٹ دیا گیا اور اس بغاوت کی بازگشت دوسرے عرب ملکوں میں بھی محسوس کی گئی۔ آج کل عرب دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے نتائج کچھ بھی ہوں‘ یہ واضح ہے کہ ایک نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے اور سڑکوں پر ہی نہیں‘ ذہنوں میں بھی ایک ہم گیر شورش بپا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے میڈیا میں باہر کی دنیا کی مناسبت رپورٹنگ نہیں کی جاتی جبکہ بہت سے ایسے انقلابات رونما ہورہے ہیں جن سے ہمارا گہرا رشتہ ہے۔
آپ پوچھیں گے کہ اس رپورٹ میں آخر ایسی کیا بات تھی کہ اتنا ہنگامہ برپا ہوگیا؟ تو آئیے میں پہلے آپ کو اس کے دو اہم انکشافات سے آگاہ کردوں۔ عربی زبان ہماری اردو کی طرح کوئی لاوارث زبان نہیں ہے۔ وہ سارے مسلمان عرب ملکوں کی قومی اور سرکاری زبان ہے۔ رپورٹ نے انکشاف کیا کہ ایک سال میں عربی زبان میں جتنی کتابوں کا ترجمہ کیا جاتا ہے اس سے پانچ گنا زیادہ کتابوں کا ترجمہ یونانی زبان میں کیا جاتا ہے۔ یونان ایک چھوٹا سا یورپی ملک ہے۔ آپ نقشہ دیکھ لیں تو اندازہ ہوجائے گا لیکن ٹھریئے… اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک ہزار سال میں عربی زبان میں جتنی کتابوں کا ترجمہ ہوا‘ اتنی کتابوں کا ترجمہ ہر سال اسپین میں ہوتا ہے اور یہ ان عربوں کی کہانی ہے جنہوں نے ایک زمانے میں، سائنس اور تحقیق کے میدان میں پوری دنیا کی رہنمائی کی تھی۔ رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ سائنسی تحقیق میں عرب ممالک کتنے پیچھے ہیں۔ بنیادی طور پر رپورٹ نے تین شعبوں کی نشاندہی کی جن میں عرب دنیا خسارے میں ہے۔ پہلا، علم کا خسارہ، دوسرا آزادی یا آپ سمجھئے کہ جمہوری آزادی کا خسارہ اور تیسرا، معاشرے میں عورت کی حیثیت کا خسارہ… اس جائزے کے عرب مصنفین نے عرب، اسرائیل تنازعے کو نہ تو اپنے ملکوں کی ناکامیوں کا سبب بتایا اور نہ اسے کسی عذر یا بہانے کے طور پر پیش کیا یعنی یہ نہیں کہا کہ ہم کیا کریں، ہم تو اس جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔
اس رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد سے آج تک عرب ملکوں نے تعلیمی اور تہذیبی محاذ پر کیا قدم اٹھائے ہیں اس کا مجھے علم نہیں۔ کچھ خبریں ضرور ایسی پڑھی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ تعلیم اور تحقیق پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔ کچھ ایسے ادارے قائم کئے گئے ہیں جو ہنگامی بنیادوں پر دنیا کی اہم کتابوں کا عربی زبان میں ترجمہ کر رہے ہیں۔ آخر کئی عرب ممالک تیل کی دولت سے مالا مال تو ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود، سماجی تبدیلی کی رفتار کہیں کہیں بہت سست ہے۔ میں جس بات کو سب سے اہم سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ 2002ء کی رپورٹ نے عرب ممالک میں تشویش کی ایک لہر دوڑا دی اور مجھے نہیں معلوم کہ کسی نے کہا ہو کہ یہ رپورٹ امریکہ یا اسرائیل کی عربوں کے خلاف یا اسلام کے خلاف ایک سازش ہے۔ آپ اگر انٹرنیٹ کے حلقے میں شامل ہیں تو اس رپورٹ اور اس پر ہونے والی گفتگو کا خود مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ 2006ء میں مجھے دمشق جانے کا موقع ملا۔ یونیورسٹی گیا تو وہاں اس رپورٹ پر ہونے والے ایک سمپوزیم کا پوسٹر دیکھا۔ مجھے لگا کہ نوجوان خاص طور پر یہ جاننا چاہتے تھے کہ ہمارے ساتھ یہ ہوا کیا۔ ہم زمانے سے اتنے پیچھے کیوں رہ گئے… کیونکہ رپورٹ انگریزی کے ساتھ ساتھ عربی زبان میں بھی شائع کی گئی اس لئے اس پر کافی گفتگو ہوئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ ”نائن الیون“ جیسے واقعات کو سمجھنے کیلئے بھی رپورٹ کو پڑھنا ضروری ہے۔ عرب مفکرین نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں حقائق سے آنکھیں نہیں چرانا چاہئے ورنہ ہم کبھی اس صورتحال کو تبدیل نہ کرپائیں گے۔
اب میں پھر اس مشکل سوال پر واپس آتا ہوں کہ پاکستانی معاشرہ جس فکری اور اخلاقی بحران کا شکار ہے اس کی وجوہات کیا ہیں اور ہم کیسے اس آسیب سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں…؟ کیا ہمارے دکھ وہی ہیں جو بیشتر مسلمان ملکوں کے ہیں…؟ ظاہر ہے کہ پہلے تو ہمیں اپنے بارے میں تمام متعلقہ حقائق کو سامنے رکھنا ہوگا اور پھر پوری بے رحمی سے ان حقائق کا تجزیہ کرنا ہوگا لیکن یہ کام کرے گا کون…؟ اپنے آپ کو آئینے میں دیکھنے اور اپنے بارے میں سچ بولنے کی ہمت کیسے پیدا ہوگی…؟
تازہ ترین