• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں عمومی رائے یہی تھی کہ وہ مثبت تبدیلی کی بات کرتی ہے اور یہی نعرہ اس کی کامیابی کی ضمانت ہے ۔ تحریک انصاف کے چیئرمین جب پارٹی بنا رہے تھے تو ان کا نظریہ واضح اور اہداف بھی کلیئر تھے کہ پاکستان میں ایسی سیاست کی جائے جس سے ملک و قوم کا فائدہ ہو نہ کہ محض سیاست برائے سیاست ہو۔ نوے کی دہائی میں جب یہ جماعت وجود میں آ رہی تھی تب پاکستان کی دو بڑی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی روایتی سیاسی جماعتیں تھیں جو ہر ایشو پر سیاست کرتیں تھیں خواہ وہ ایشو ملکی مفاد میں کیوں نہ ہو۔ اس دور میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے اچھے اقدامات کو نون لیگ کی جانب سے سیاسی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور یہی وطیرہ پیپلز پارٹی کا رہا جب مسلم لیگ ن کی حکومت تھی ۔ ایسی سیاست سے سیاسی جماعتیں کمزور ہوتی رہیں جس کا اقرار مسلم لیگ کے سربراہ نواز شریف اورپیپلز پارٹی کی چیئرمین پرسن محترمہ بے نظیر بھٹو نے کیا ۔اسی تناظر میں دونوں سیاسی جماعتوں نے لندن میں اپنی سیاسی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے میثاق جمہوریت کیا جس میں یہ طے پایا کہ قومی و عوامی مفاد کے منصوبوں سمیت دیگر ایشوز کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے سپورٹ کیا جائے گا ، اگرچہ اس سمجھوتے پر بھی مکمل طور پر عمل درآمد نہ ہو پایا لیکن اس کا ادراک دونوں سیاسی جماعتوں کو ہے۔ پاکستان تحریک انصاف جو تبدیلی کا نعرہ لے کر آئی تھی، عام آدمی اس جماعت سے توقع کرتا ہے کہ یہ تنقید برائے تنقید کے بجائے ایسی تنقید کرے گی جس سے معاملات میں بہتری ہو سکے ۔تحریک انصاف کے چیئرمین اپنے ہر انٹرویو اور عوامی احتجاج میں یہ بات کرتے ہیں کہ تحریک انصاف بنانے کا مقصد میرا وزیر اعظم بننا نہیں بلکہ میں حقیقی تبدیلی لانا چاہتا ہوں ۔لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان روایتی سیاست کی طرف پیش قدمی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پی آئی اے کی نجکاری ان کے منشور کا حصہ ہے لیکن وہ پی آئی اے ملازمین کی جانب سے کئے جانے والے احتجاج کا حصہ بنے ۔ پنجاب میں ڈاکٹرز اگر اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کریں تو ان کی مکمل حمایت کی جاتی ہے مگر جب سرکاری ڈاکٹر خیبر پختونخوا حکومت کے خلاف احتجاج کریں تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی ہے ۔اقتصادی راہداری جیسے عظیم منصوبے کے بارے میں بھی عمران خان کی سیاست مثبت نہیں ۔ اب ذرا اورنج لائن ٹرین پروجیکٹ پر بات کرتے ہیں ۔ عمران خان کا یہ موقف کہ تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے اور جو حکومت ان پر توجہ نہیں دیتی وہ مجرمانہ غفلت کی مرتکب قرار پاتی ہے ۔ یقینا عام آدمی کو اچھی سفری سہولتیں فراہم کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ اس سہولت کو مزید بہتر کرنے کے لئے تنقید کرنا تو جائز ہے لیکن اس طرح کے عوامی منصوبوں کو محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی خاطر ہدف تنقید بنانا مناسب نہیں ہے ۔
میرا سوال ہے کہ جن ممالک میں سفری سہولتوں کیلئے میٹرو ٹرین منصوبے بنائے گئے ہیں یا مزید بنائے جا رہے ہیں تو کیا ان ممالک نے بھی پیسے کا ضیاع کیا ہے؟ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ میٹرو ٹرینیں چائنا میں ہیں جن کی تعداد 24ہے جبکہ 14مزید بنائی جا رہی ہیں ۔ امریکہ میں 15میٹرو ٹرینیںکروڑوں امریکی شہریوں کو منزل مقصود تک پہنچاتی ہیں، جبکہ برازیل ، اٹلی اور روس کے سات سات شہروں میں میٹرو ٹرین جیسے منصوبوں سے عوام کو سفری سہولتیں فراہم کی گئیں ہیں۔ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کے سات شہروں میں بھی میٹرو ٹرینیں چل رہی ہیں جبکہ مزید چھ شہروں میں زیر تعمیر ہیں جن میں احمد آباد، حیدر آباد، کوچی، لکھنو، نیا ممبئی اور ناگ پور شامل ہیں۔ سائوتھ کوریا جیسے ملک میں بھی میٹرو ٹرینیں چلائی جا رہی ہیں۔فرانس میں 6،ہمارے برادر اسلامی ملک ترکی میں 5میٹرو ٹرینیں ہیں۔جرمنی میں 4، کینیڈا، یوکرائن اور یوکے میں تین تین ، ہالینڈ، فلپائن،تھائی لینڈ میں دو دو، ہمارے ہمسایہ دوست ملک ایران کے5مختلف شہروں میں یہ ٹرین سروس جاری ہے جبکہ ایک مزید شہر میں زیر تعمیر ہے ۔دبئی ،سعودی عرب میں بھی ایک ایک میٹرو ٹرین عوام کو سفری سہولتیں فراہم کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ لاطینی امریکہ کے ملک ایکواڈور، یونان ، آسٹریلیا، قطر، تائیوان ، ویت نام جیسے ممالک میں میٹرو ٹرینیں بنائی جا رہی ہیں۔ میں ہمسایہ ملک بھارت کے بارے میں اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ دہلی میٹرو میں سالانہ 870.9ملین لوگ سفر کرتے ہیں جبکہ کلکتہ میں 237.25اور ممبئی میں 100ملین لوگ روزانہ سفر کرتے ہیں ۔ میری یہ تمام تر معلومات فراہم کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ لاہور کے عوام کیلئے سفری سہولتیں فراہم کرنا پنجاب حکومت کی جانب سے مثبت اور درست اقدام ہے ۔اگرچہ اس طرح کے عوامی منصوبے کو کراچی جیسے بڑے شہر میں شروع ہو نا چاہئے تاہم ایسا نہ کرنے کی ذمہ داری سندھ حکومت اور وفاق پر عائد ہوتی ہے ۔اورنج لائن جیسے منصوبے پر سیاست کرنا تحریک انصاف جیسی سیاسی جماعت کو زیب نہیں دیتا کیونکہ جس شہر میں یہ منصوبہ مکمل ہونے جا رہا ہے اسی شہر کے لوگوں نے 30اکتوبر2012ء میں عمران خان کا مینار پاکستان میں تاریخی استقبال کیا جس کے بعد تحریک انصاف ملک کی بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے بعد تحریک انصاف کو سب سے زیادہ ووٹ بھی لاہور یوں نے ہی دیئے ۔ میری اطلاعات ہیںکہ عمران خان کو بتایاگیا ہے کہ اگر اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ 2018ء کے الیکشن سے قبل مکمل ہو گیا تو اس کا مسلم لیگ ن کو بے انتہا سیاسی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے ۔ پی ٹی آئی پنجاب کی قیادت سمجھتی ہے کہ 2013ء کے الیکشن سے قبل میٹرو بس سروس شروع ہونے سے مسلم لیگ ن کو لاہور میں تاریخی کامیابی حاصل ہوئی اور اگر 2018ء کے عام انتخابات سے قبل یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا تو مسلم لیگ ن کے ووٹ بنک کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔تحریک انصاف چاہتی ہے کہ یہ منصوبہ بروقت مکمل نہ ہو سکے۔یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف اس عوامی منصوبے پرسیاست کر رہی ہے جو کہ درست اقدام نہیں۔ پی ٹی آئی کو اورنج لائن ٹرین منصوبے پر سیاست کرنے سے فائدہ کے بجائے نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ اگرچہ اس کی تعمیر کے باعث شہریوں کووقتی طور پر مسائل کا سامنا ہے لیکن جب یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا تو لوگ ان تکالیف کو بھول جائیں گے اور بہترین سفری سہولتوں سے مستفید ہونگے ۔کپتان سمیت تمام سیاست دانوں سے گزارش ہے کہ اس منصوبے کی کمی و کوتاہی پر ضرور تنقید کریں تاکہ اس عظیم منصوبے کو مزید بہتر بنایا جا سکے مگر اس پروجیکٹ کو ختم کرنے کی منفی سیاست کو ترک کر دیں۔
تازہ ترین