• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہور میں ماں باپ نے حبا بھٹی ( یہاں اصل نام بدل دیا گیا ہے) کی شادی امریکہ ، نیویارک میں کرائی تھی۔ حبا بھٹی بھی امریکہ پہنچنے پر بہت سے پاکستانی تارکین وطن کی طرح کم اجرت یا منیمم ویج سے بھی کم معاوضے پر نیویارک کے جنوبی ایشیائی علاقے جیکسن ہائٹس میں ایک مشہور (اتنا مشہور کہ اس ریستوران کا نام نیویارک میں دیسی زندگی پر ایک انگریزی ناول میں بھی ہے) پاکستانی ریستوران پر کام پر کھڑی ہوگئی تھی۔ جہاں اسے فقط چار سے پانچ ڈالر فی گھنٹہ معاوضے پر صبح دس گیارہ بجے سے لیکر رات گیارہ بجے تک کام کرنا پڑتا تھا۔ حبا کو رات کی ریل سروس سے کام سے گھر واپس پہنچتے پہنچتے کبھی ایک ڈیڑھ بھی بج جاتا تھا۔ حبا کی کمائی سے اس کے سسرال کا گھر بھی چلنے لگا تھا لیکن کچھ دنوں بعد اس کے سسرالی دیر سے پہنچنے پر اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے حبا پر تشدد کرنے لگے تھے۔ ایک دفعہ جب حبا کے شوہر اور سسرالیوں نے اس پر تشدد کیا تو حبا نے نائین ون ون ایمرجنسی نمبر پر پولیس کو کال کر دی۔ حبا کی شکایت پر پولیس نے ان کے شوہر کو گرفتار کرلیا اور حبا کے سسرالیوں کی کاؤنٹر کمپلینٹ پر حبا کو بھی۔ مبینہ طور پر اس نے اپنی ساس پر ہاتھ اٹھایا تھا لیکن بعد میں حبا کو رہا کردیا گیا۔
حبا کے سسرالیوں نے گھریلو تشدد کے خلاف رپورٹ کرنے پر اسے گھر سے نکال دیا۔ حبا اب سڑک پر آگئی، اسے ایک اسلامی رفاعی ادارے کے خواتین کیلئے پناہ گاہ یا شیلٹر میں پناہ لینا پڑی جہاں وہ ایک سال سے زیادہ عرصہ رہتی رہی۔ حبا پاکستان گئی، جب واپس آئی تو اسلامی رفاعی مرکز نے اسے اس بنا پر نہیں رکھا کہ ان کے قواعد ایک سال تک رکھنے کے تھے۔ اس سادہ دل لڑکی کو جس ریستوران پر وہ کام کرتی تھے وہاں آنے والے ایک شخص نے اپنے اپارٹمنٹ پر ایک کمرے میں بطور روم میٹ رکھنے کی حامی بھرلی۔ حبا اس شخص کے ساتھ بطور روم میٹ رہنے لگی کہ حال ہی میں حبا کے مطابق کہ ایک رات اس شخص کی نیت بدلی اور اس نے حبا پر جنسی حملہ کرنے کی کوشش کی۔ مزاحمت پر حبا کو چہرے پر بھی چوٹ لگی لیکن حبا وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئی۔ حبا کام پر آئی اور اس نے جب یہ بات اپنے مالکان سے کہی تو انہوں نے اسے کہا کہ وہ اس کی پولیس کے پاس فریاد نہ کرے کیوں کہ” شکایت کرنے پر تمہارا کریڈٹ خراب ہوجائے گا۔ حبا بس اب تین کپڑوں میں گھر سے نکلی ہوئی تھی۔ چوبیس گھنٹے چلنے والے اس تین منزلہ پاکستانی ریستوران میں جہاں حبا بارہ گھنٹے کام کرتی رہی تھی اسے سر چھپانے کیلئے کوئی کونا بھی میسر نہیں تھا۔ حبا اسلامی رفاعی سینٹر کے شیلٹر پر بھی گئی کہ اسے رکھا جائے لیکن اسلامی رفاعی شیلٹر نے یہ کہہ کرا نکار کردیا کہ زیادہ میعاد تک رکھنا شیلٹر کی پالیسی میں نہیں ہے۔ ہاں البتہ شیلٹر کے انچارج نے حبا کے ساتھ ہونے والے مبینہ جنسی حملے کی رپورٹ پولیس میں درج کرانے کا مشورہ دیا۔ حبا کے مالکان نے کہا کہ الزام لگنے والا شخص اس طرح کا لگتا نہیں ہے کہ وہ یہ کیسے ثابت کرے گی کہ اس کے ساتھ جنسی حملے کی کوشش کی گئی ہے۔ الٹا وہ شخص کسی کو بھی پانچ سو ڈالر دیکر تمہار ے خلاف گواہی دلوا سکتا ہے"۔ مطلب کہ حبا کو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی فریاد قانون نافذ کرنے والوں یا پولیس کے پاس لے جانے سے اسے خائف کرنے کی ہر طرح کی کوشش کی گئی۔ حبا بہرحال پولیس میں شکایت لیکر گئی۔ پولیس نے حبا کے ساتھ مبینہ جنسی حملہ کرنے کی کوشش کرنے والے شخص کو تحویل میں لے لیا۔ اب الٹا حبا کو ہی اس کے ریستوران مالکوں نے نوکری سے نکال دیا ہے۔ پہلے وہ بے گھر تھی لیکن اب وہ بیروزگار بھی ہے۔ کھلا آسمان، نیویارک کی گلیاں، حبا ایک تنہا سر پر حجاب پہنے لڑکی۔
حبا اب مہربان اجنبیوں کے رحم و کرم پر ہو گئی۔ اسے شام ہوتے ہی کئی دروازوں پر جانا پڑتاہے کوئی اسے رکھتا ہے اور کوئی نہیں۔ حبا نے اسلامی رفاعی شیلٹر پر بھی دستک دی لیکن انہوں نے بھی انکار کردیا۔ پھر بھی حبا کو ایک پاکستانی عیسائی سنگل ماں نے دو راتیں اپنے گھر پر چھت دی۔ وہ خاتون اس مسلمان پاکستانی لڑکی کیلئے اپنے گھر کی چابی اپنے میل باکس میں رکھ گئی کہ اگر وہ دیر سے آئے تو اس کا گھر کھول کر شب بسر کرے۔ سب کہتے ہیں کہ حبا ایک نیک لڑکی ہے لیکن ہم اسے نہیں رکھ سکتے۔ اسلامی رفاعی مرکز کا شیلٹر بھی نہیں۔ اب حبا کو شاید ہی کوئی اپنے پاس ہائر بھی کرے۔ حبا کے ساتھ ہونے والی واردات کسی امریکی پاکستانی اخبار میں نہیں چھپی نہ ہی کسی ٹی وی چینل پر آئی، نہ ہی عورت کی ایمپاورمنٹ کا دعویٰ کرنے والے کمیونٹی گروپوں نے اس کی مدد کی۔ حبا کسی یہود و نصاریٰ یا ”امریکہ کی سازش کا شکاری نہیں ہوئی بلکہ وہ اپنے ہی ہم وطنوں اور کلمہ گویوں کے ہاتھوں دربدر ہے۔ حبا کہتی ہے اسے اس کے ملزم سے بھی جان کا خطرہ ہے۔ ایک گھریلو تشدد کی شکار،بے آسرا ، تارک وطن مزدورہ ، ایک ریستوران میں آنے والے ریگولر کی طرف سے مبینہ جنسی حملے کے بعد ریستوران کے مالکان نے بھی بارہ بارہ گھنٹے کم سے کم اجرت سے بھی کم پر کام کرنے والی حبا کو نوکری سے نکال دیا۔ امریکہ میں زیادہ تر کوئی بھی آجر کسی ملازم کو بغیر کسی وجہ بتائے نوکری سے نکال سکتا ہے اور ملازم بھی بغیر کسی وجہ کسی بھی وقت نوکری چھوڑ سکتا ہے لیکن جنسی تشدد کی کوشش کا شکار ہونے والی خاتون کو جس نے اس کی شکایت اپنے مالکان سے بھی کی کہ مبینہ طور پر یہ کہنا کہ پولیس کے پاس شکایت کرنے پر تمہارا کریڈٹ خراب ہوگا اور پھرپولیس کو شکایت کرنے پر اسے بیروزگار کرکے اسے مزید خطروں سے دوچار کردینے کے مترادف ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں ایک سیاسی پارٹی کے معروف لیڈر کی نوجوان بیٹی کو بھی امریکہ میں گھریلو تشدد سے اسلامی رفاعی سینٹر کے شیلٹر میں پناہ لینا پڑی تھی۔ ایک اور بائیس سالہ نوجوان خاتون کو دل کے امراض کے شعبے میں ایمرجنسی میں لایا گیا تھا جب اس کے شوہر نے مبینہ طور خاتون کی چھاتی پر لوہے کی کوئی وزنی چیز رکھ کر تشدد کیا تھا۔ ایک اور خاتون کو اس کے سسرالیوں نے تشدد کرکے گھر سے نکال دیا۔ اس تشدد کی شکار خاتون کے والدین بھی ان کو واپس قبول کرنے کو تیار نہیں۔
اس خاتون کی ساس نے اس پر اپنی خدمت کے علاوہ اس عاملہ خاتون کی بھی خدمت کرنے پر اصرار کیا تھا جس سے وہ تعویز گنڈے کراتی تھی۔ امریکہ میں تعویز گنڈوں، جادو ٹونوں جوتشیوں کا کاروبار بھی عروج پر ہے۔امریکہ میں دیسی خاتون کتنے خطروں میں گھری ہے۔ گھرپر شوہر یا سسرالیوں کا تشدد، سڑک پر اجنبی ہمدرد کی طرف سے جنسی حملے کی کوشش اور پھر نوکری سے برطرفی اور بے گھری۔ مذکورہ بالا کہانی صرف ایک حبا بھٹی اور تین خواتین کی ہی کہانی نہیں یہ پاکستان سمیت بہت سے جنوبی ایشیائی خواتین و مرد تارکین وطن، محنت کشوں کی کہانی ہے جنہیں عرف عام میں ”دیسی کہا جاتاہے“۔ دیسی کاروباروں اور دیسی بزنس پر کام کرنے والے یہ دیسی تارکین وطن محنت کش امریکہ میں جدید قسم کی دیسی غلامی کا شکار ہیں کہ امریکی قوانین و انصاف کا اطلاق ان کے آجروں کی طرف سے ان کے حق میں ہونے نہیں دیا جاتا۔ دیسیوں کو دیسی طریقے سے برتا جاتا ہے کہ کہیں بھی قانون و انصاف کی مداخلت کا دردسر نہیں لیا جاتا۔ جہاں مداخلت ہو بھی گئی تو پھر حبا بھٹی کی طرح برطرف اور سڑک پر۔ دیسی نئے امیر سمجھتے ہیں کہ قانون کی خلاف ورزیوں کے بغیر صرف کم سے کم اجرت کی جاب کرنے یا ٹیکسی چلانے سے وہ کروڑ پتی نہیں بن سکتے تھے۔ اب تو ایسا تیر بہدف نسخہ امریکی کارپوریٹ بزنس مینوں کو بھی ان کے دیسی گماشتوں نے سکھایا ہے کہ ٹیکسوں اور انشورنس وغیرہ کے اخراجات میں کون پڑے۔ دیسی تارکین وطن مزدور رکھو اور دن دگنی رات چوگنی ترقی کرو۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو بہت سے دیسی تارکین وطن بغیر سفری دستاویز کے یا قانونی امیگریشن کے بغیر ہوتے ہیں۔ کم سے کم اجرت پر وہ بھی نقدی میں جسے ”انڈر دی ٹیبل“ کہا جاتا ہے۔ ایسی ”انڈر دی ٹیبل یا زیر زمین اکانومی“ میں تارک وطن غیر قانونی یا قانونی محنت کش بغیر اوور ٹائم کے زیادہ سے زیادہ گھنٹے کام کے کیش کے معاوضے کو جب پاکستانی، ہندوستانی، بنگلہ دیشی، نیپالی روپوں ٹکوں میں ڈالر کو ضرب دیتا ہے تو ”امریکی خواب“اسے مسحور کردیتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جو غلامی امریکہ میں صدر لنکن کے دور میں ختم کی گئی تھی اس کا اطلاق دیسی لوگوں کے گھروں اور بزنسوں تک ابھی نہیں پہنچا۔
ایک کارپوریٹ بزنس کی تو کم معاوضے والے ملازموں کی انشورنس کمپنی وہ قدیمی کمپنی ہے جو امریکہ کے جنوب میں دور غلامی میں غلاموں کی انشورنس کیا کرتی تھی۔
تازہ ترین