• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ میں جب سے ڈونلڈ ٹرمپ بطور صدر برسراقتدار آئے ہیں دنیا پر بدامنی اور عدم استحکام کے بادل گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں ان کے بعض فیصلوں پر خود امریکہ میں بھی شدید تنقید کی جا رہی ہے اور ا ن کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ ان میں 2015 میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کی منسوخی بھی شامل ہے۔ ایران کے ساتھ امریکی مخاصمت تو اس وقت سے چلی آرہی ہے جب امام خمینی کی زیرقیادت شہنشاہ ایران کی حکومت کا تختہ الٹا گیا اور اس طرح امریکہ اپنے ایک مسلمہ اتحادی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ امریکہ کو ایران سے بڑی شکایت یہ تھی کہ وہ ایٹمی ہتھیار تیار کر رہا ہے۔ جوہری معاہدے کے بعد اس شکایت کا ازالہ ہو گیا مگر امریکہ کی مخاصمت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ صدر ٹرمپ نے یہ معاہدے یکطرفہ طور پر منسوخ کر کے ایران پر وہ اقتصادی پابندیاں بحال کر دیں جو معاہدے کی رو سے ختم کر دی گئی تھیںبحال ہونے والی پابندیوں میں دوسرے ممالک کوایرانی تیل کی فروخت کے علاوہ شپنگ اور بینکنگ سیکٹر کا کاروبارمحدود کرنا بھی شامل ہے۔ تاہم چین ،بھارت اور جاپان کو ان پابندیوں سے استثنا دیا گیا ہے ایسے وقت میں جب چین کے صدر دنیا کےتمام ملکوں کیلئے منڈیوںکے دروازے کھولنے کا اعلان کر رہے ہیں۔امریکہ ایران پر پابندیاں لگارہا ہے جو ناقابل فہم ہےامریکی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے ایران کے صدر حسن روحانی نے اعلان کیا ہے کہ وہ دنیا کو تیل کی فراہمی جاری رکھیں گے۔ انصاف پسند ممالک ان کے اس اعلان کی حمایت کریں تو کوئی تعجب نہیں ہو گا کیونکہ ایٹمی اسلحہ اور آلات کے بارے میں ایران نے امریکہ کے تحفظات دور کردیئے تھے اور باقاعدہ معاہدہ بھی ہو گیا تھا ۔ صدر ٹرمپ نے اسے منسوخ کر کے امریکی ساکھ کو دائو پر لگایا، ایران دنیا کو تیل برآمد کرنے والا ایک بڑا ملک ہے اور تیل ہی اس کی معیشت کی طاقت ہے ۔ اقوام متحدہ کو اس کا نوٹس لینا چاہئے اور امریکی پابندیوں پرنظرثانی کا راستہ نکالنا چاہئے۔

تازہ ترین