آن لائن بینکنگ فراڈ کا دائرہ کارپھیلنا اور متاثرین کو اے ٹی ایم کے استعمال میں بھی مشکلات کا درپیش ہونا بلاشبہ متعلقہ اداروں کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں۔ محض چند شہروںسے ہیکرز نے کروڑوں روپے نکلوا لئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آن لائن فراڈ کرنے والے اس قدر ماہر ہیں کہ انہیں کسی بھی طرح اس فعل شنیع سے روکا نہیں جاسکتا؟ دوسری اہم بات یہ کہ صارفین کےبارے میں ان کو ڈیٹا کہاں سے میسر آتا ہے کہ وہ اسے استعمال میں لاکر صارفین کے اکائونٹ سے رقوم نکلوا لیتے ہیں۔ جہاں تک ڈیٹا کی بات ہے تو ہر سیل فون استعمال کرنے والے کو اکثر ایسی کالیں موصول ہوتی رہتی ہیں کہ کمپنی کی طرف سے آپ کا اتنا انعام نکلاہے، آپ فلاں فلاں نمبر پر اتنے ہزار کا بیلنس لوڈ کروادیں اور انعام وصول کرلیں، جگہ آپ کو بتا دی جائے گی۔ پچھلے دنوں ملک بھر میں ایک عجیب سلسلہ شروع ہوا کسی شخص کوفون آتا کہ ہم فلاں محکمے سے بول رہے ہیں، آپ کی سم اور اکائونٹ کی ویری فکیشن درکار ہے لہٰذا آپ کے متعلقہ بینک کے نمبرسے آپ کو کال موصول ہوگی، اپنی تفصیلات بتا دیں۔ متعلقہ بینک سے کال آتی اور سادہ لوح صارف تفصیلات من و عن بیان کردیتا۔ اس سے قبل کہ صارف کو واقعے کا علم ہوتا اس کا اکائونٹ خالی ہو چکا ہوتا۔ خیبرپختونخوا میں 200شہریوں کے لٹنے کی بھی شاید یہی واردات ہو کیونکہ ان عناصر کو اے ٹی ایم کارڈ کا محض پن کوڈ درکارہوتا ہے جسے شنید ہے کہ اس رسید سے بھی حاصل کیاجاسکتا ہے جو رقم نکلوانے کے بعد ملتی ہے۔جہاں تک ٹیکنالوجی کی بات ہے بلاشبہ اس میں غلطی کا احتمال نہ ہونے کےبرابر ہے تاہم یہ ایجاد بھی تو انسان ہی کی ہے اور آئی ٹی ایکسپرٹ ہیکرز ملکوںکی آفیشل ویب سائٹس ہیک کرلیتے ہیں، اے ٹی ایم سے رقوم نکلوانا ان کیلئے کیا مشکل ہوگا۔ متعلقہ وزارت کو اس سلسلے میں موثر اقدامات کرنا ہوںگے تاکہ صارفین لٹنے سے بچ سکیں، احتیاط برتیں۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998