• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کے سابق صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن کو نیب کی حفاظتی حراست میں ایک سال سے زائد ہونے کو ہے، قانون کی رو سے انسانی حقوق کا یہ نہایت ہی المناک مقدمہ ہے اس حوالے سے سب سے پہلے اس معاملے میں صورتحال کا پس منظر بیان کرنا ناگزیر ہے۔

آج سے ایک سال قبل 23؍ اکتوبر 2017ء کو شرجیل میمن کے خلاف اس وقت نیب ریفرنس فائل کیا گیا جب وہ بیرون ملک اپنا علاج کروا رہے تھے، نہ صرف ریفرنس فائل کیا گیا بلکہ ان کا نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔

شرجیل میمن نے اس کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کی، کہ بغیر کسی وجہ کے ان کا نام ای سی ایل میں کیوں ڈالا گیا، دو ماہ بعد شرجیل میمن کو نیب کی طرف سے ایک نوٹس ملا۔ جس کے بعد وہ خود پاکستان ریفرنس کا سامنا کرنے کے لئے آئے اور ضمانت پر ہونے کے باوجود انہیں کراچی ایئر پورٹ پر ہی نیب کی طرف سے گرفتار کر لیا گیا۔

شرجیل میمن کو نیب کی حراست میں ایک سال مکمل ہو چکا ہے اور ان کا کیس تاحال زیر سماعت ہے۔

بذات خود پاکستان واپس آئے اور عدالت میں خود حاضر ہونے کے باوجود انہیں ابھی تک ضمانت بھی نہیں ملی۔

شرجیل میمن اس وقت بیرون ملک تھے جب نیب نے ان کا نام ای سی ایل میں ڈالا اور ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا۔

شرجیل میمن پر کرپشن کا نہیں اختیارات کے غلط استعمال کا الزام ہے۔ اس کیس کی سماعت ٹرائل کورٹ میں بھی ہو سکتی ہے۔ انہیں بغیر ضمانت جیل میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔

پنجاب میں اس طرح کے درجنوں کیس ہیں۔ جن میں ٹرائل کورٹ میں کیس چلے ہیں اور ملزم کو ضمانت پر رہا بھی کیا گیا ہے۔ جبکہ سندھ میں نیب کورٹس اسی طرح کے کیسز میں ضمانت نہیں دے رہیں۔

اپریل 2018میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کیپٹن صفدر کے کیس کے بعد تحریری طور پر یہ آرڈر جاری کیا کہ اگر کوئی ملزم خود پیش ہوتا ہے تو اسے ضمانت دی جانی چاہئے۔ چیف جسٹس کے بیان کردہ قانونی اصول پر بھی عملدرآمد نہیں کیا گیا۔

چنانچہ سپریم کورٹ کی طرف سے تحریری نوٹس کے بعد سندھ ہائیکورٹ سپریم کورٹ کی خلاف ورزی کرنے کے ساتھ ساتھ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شرجیل میمن کو ضمانت پر رہا نہیں کر رہی۔

شرجیل میمن کے کیس میں نیب چیئرمین کی طرف سے وارنٹ گرفتاری جاری نہیں کئے گئے تھے، اس کے باوجود آج انہیں جیل میں گئے ایک سال ہو چکا ہے۔

نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے نیب ریفرنس کے دوران انہیں مکمل آزادی حاصل تھی، جبکہ شرجیل میمن اس دوران جیل میں بند تھے۔

نواز شریف، مریم صفدر، اور کیپٹن صفدر کیس کی سماعت کے بعد رہا بھی ہو چکے ہیں۔

نواز شریف کو نا اہل قرار دیا جا چکا ہے جبکہ شرجیل میمن کو نااہل بھی قرار نہیں دیا گیا، اس کے باوجود وہ جیل میں ہیں۔

غیر قانونی طور پر جیل میں قید ہونے کے باوجود شرجیل میمن نے واضح برتری سے الیکشن میں کامیابی بھی حاصل کی۔ شرجیل کیس میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ انہیں نشانہ بنایا گیا ہے۔ عین اسی وقت بہت سے لوگ بیرون ملک تھے اور ان کے کیس زیر التواء تھے۔ وہ پاکستان واپس آنا اور اپنے مقدمات کا سامنا کرنا نہیں چاہتے تھے لیکن شرجیل کے کیس میں ہر کوئی گواہ ہے کہ دلیرانہ طور پر اس آزمائش کے سامنے کے لئے ازخود سامنے آئے یہ ان کی نیک نیتی اور عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ چیئرمین نیب جسٹس جاوید قبال اچھی شہرت کے حامل ہیں۔ انہیں چاہئے کہ پورے پاکستان میں نیب کی احتساب کارروائیاں یکساں اصول کے تحت کی جائیں۔

شرجیل میمن کے حوالے سے بالآخر اب تک کے حقائق کا خلاصہ یہ ہے کہ

(1) شرجیل میمن کو جیل میں نیب کی حراست میں ایک سال گزر چکا ہے جبکہ ان کا کیس ابھی تک زیر سماعت ہے۔

(2)انہیں اس حقیقت کے باوجود ضمانت نہیں دی جا رہی کہ وہ اپنے اوپر لگے الزامات کا کورٹ میں سامنا کرنے کے لئے از خود پاکستان واپس آئے۔

(3)شرجیل میمن اس وقت ملک سے باہر تھے جب نیب نے ان کے خلاف کیس بنائے اور ان کا نام ای سی ایل میں ڈالا۔

(4)شرجیل میمن پر نیب ریفرنس میں اختیارات کے غلط استعمال کا الزام ہے کسی مالی بدعنوانی کا نہیں۔ اس کا ٹرائل کورٹ میں فیصلہ ہو سکتا ہے بلاشبہ انہیں بغیر ضمانت جیل میں رکھنے کا کوئی معقول جواز نہیں۔

(5)پنجاب میں بہت سارے لوگوں کے خلاف ایسے ہی نیب ریفرنسز قائم تھے لیکن تفتیش کے دوران انہیں ضمانت کی ضرورت پیش نہ آئی اور ٹرائل کورٹ پنجاب نے انہیں اس موقع پر ضمانت دی جہاں ذاتی نوعیت پر ضرورت پیش آئی۔ سندھ میں نیب عدالتیں اسی طرح کے مقدمات میں ضمانت نہیں دے رہیں جن میں پنجاب کی عدالتیں ضمانت دے رہی ہیں۔

(6)اپریل 2018میں چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے کیپٹن صفدر کے کیس میں تحریری فیصلہ دیتے ہوئے صاف صاف کہا کہ اگر ایک ملزم از خود ٹرائل میں حاضر رہے تو اسے ضمانت کی ضرورت نہیں۔

(7)کیپٹن صفدر کیس میں سپریم کورٹ کے تحریری فیصلہ کے بعد شرجیل میمن کیس میں سندھ کی نیب عدالتیں ضمانت فراہم نہ کر کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہیں خاص طور پر ان حالات میں جبکہ وہ ان عدالتوں میں از خود باقاعدہ حاضر بھی ہو رہے ہیں۔

(8)شرجیل میمن کیس میں چیئرمین نیب کی طرف سے کوئی وارنٹ گرفتاری جاری کئے بغیر انہیں گرفتار کر کے ایک سال سے قید میں رکھا گیا ہے۔

(9)نواز شریف، مریم صفدر اور کیپٹن صفدر پر الزامات عائد کئے جانے کے بعد ہر موقع پر ضمانت فراہم کی جاتی رہی۔

(10)نوازشریف کو الزامات ثابت ہونے پر ان کے عوامی عہدہ سے نا اہل کر دیا گیا جبکہ شرجیل میمن الزامات ثابت نہ ہونے کے باوجود تاحال گرفتار ہیں۔

(11)ایک سال تک غیر قانونی گرفتاری کے باوجود شرجیل میمن عام انتخابات میں عوام کی بھاری اکثریت کے ووٹوں سے کامیابی حاصل کر کے دوبارہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کا یہ متحرک اور فعال رہنما آئین و قانون کے نام پر ایسا بحران پیش کر رہا ہے کہ ایک ہی صورتحال کے پس منظر میں جو سلوک پیر پگارا، الیاس راجہ سائیں، چوہدری پرویز الٰہی، جنرل (ر) مشرف ، مصطفیٰ کمال، مونس الٰہی، عمران خان، پرویز خٹک، ذوالفقار بخاری، صوفی محمدحتیٰ کہ ، رائو انوار تک کے لئے ’’مجرم‘‘ ثابت ہونے سے پہلے ’’آزادی‘‘ کا راستہ کھولتا ہے وہ شرجیل کے مقدر میں نہیں۔

ضمیر کچوکے لگاتا رہتا ہے، سوچا ایک شرجیل میمن ہی آئین و قانون کی ناقابل بیان راویوں میں اتر چکا، اسے یاد ہی کر لیں۔

تازہ ترین