• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جاپانی قوم کو اچھا مسلمان بننے کے لئے صرف تیس فیصد اسلام پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ اسلام کی ستّر فیصد تعلیمات جاپانی قوم کی روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں جبکہ پاکستانی قوم کو ایک اچھی مسلمان قوم بننے کے لئے ستّر فیصد اسلام کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستانی قوم دین اسلام کی صرف تیس فیصد تعلیمات پر ہی عملدرآمد کرکے اپنے آپ کو مسلم دنیا کی ترجمانی کی دعویدار سمجھتی ہے جو بالکل غلط ہے ، میرا نو مسلم جاپانی دوست بہت کچھ کہے جارہا تھا اور میرا سر احساس ندامت سے جھکا ہوا تھا اور میں چاہنے کے باوجود بھی ایسے دلائل تلاش نہیں کر پارہا تھا جس سے میں سامنے بیٹھے نو مسلم جاپانی کو مطمئن کر سکوں کیونکہ جن حقائق کو دلیل کے ساتھ میرے اس نو مسلم دوست نے میرے سامنے پیش کیا ان کے سامنے میری کوئی بھی دلیل قابل قبول نہیں تھی، میر ے اس نو مسلم دوست کا اسلامی نام محمد عاکف ہے جو دین اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہو کر مسلمان ہوا ہے اور کافی تحقیق اور تجربے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ پاکستانی قوم اسلام کی تعلیمات پر اس کی روح کے مطابق عمل پیرا نہیں ہے جبکہ دین اسلام کی جن تعلیمات پر عملدرآمد سے پاکستانی قوم کی اکثریت محروم ہے ان پر جاپانی قوم بغیر اسلام قبول کئے بھی عمل پیرا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عاکف سمجھتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کو سمجھ کر کوئی بھی جاپانی جب قبول اسلام کرتا ہے اور کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے تو اس میں ایک بہترین اور عملی مسلمان بننے کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے، دوسری جانب عاکف کو مجھ سے سخت شکایت تھی کہ میں ہمیشہ حقائق سے ہٹ کر پاکستان کی حمایت میں دلیلیں دینے کی کوشش کرتا ہوں اور بعض دفعہ جاپان کو بھی پاکستان سے کم تر ثابت کرنے سے نہیں چوکتا، جبکہ حقیقت میرے ان دلائل کے مقابلے میں بہت مختلف ہے، عاکف نہ صرف کئی بار پاکستان جاچکا ہے جبکہ کافی عرصہ پاکستان میں رہ کر وہاں کے معاشرے سے بھی کافی حد تک ہم آہنگ ہوچکا ہے جس کے باعث پاکستانی عوام ، حکومت اور سسٹم کے حوالے سے کافی معلومات حاصل ہو چکی ہیں۔ ایسے میں عاکف جیسے جاپانی شہریوں کو مطمئن کرنا مشکل کام ہے، میری عاکف کے ساتھ بحث خدانخواستہ دین اسلام کے حوالے سے بالکل نہیں تھی بلکہ پاکستانی اور جاپانی قوم میں اسلام کی تعلیمات پر عام زندگی میں عملدرآمد پر تھی، عاکف بھی ان نو مسلم غیر ملکیوں میں سے تھا جو پاکستان کو ایک سو فیصد اسلامی مملکت سمجھتے ہیں اور پاکستان کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ترقی کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔
کچھ دیر تک ماحول میں سکوت طاری رہا پھر شاید میری خاموشی کو میرے موقف کی پسپائی سمجھ کر عاکف ایک بار پھر گویا ہوا پاکستان میں عام زندگی میں اگر اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے تو پاکستان کے آدھے مسائل خود ہی حل ہوسکتے ہیں لیکن معاشرے میں تعلیم اور تربیت کا شدید فقدان موجود ہے جس کے باعث عوام کی اکثریت شارٹ کٹ کے ذریعے آگے بڑھنے کی کوششوں میں مصروف ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے، میں شاید اب عاکف کی اس لمبی ہوتی ہوئی تقریر سے اکتا چکا تھا لہٰذا بات کو ختم کرنے کے لئے ایک بار پھر پاکستان کا موضوع تبدیل کرنے کی غرض سے عرض کیا کہ برائیاں ہر معاشرے میں ہوتی ہیں کہیں کم اور کہیں زیادہ ، پاکستان میں بھی لوگ اچھے مسلمان ہیں ، نماز ،روزہ ،حج اور زکوة جیسے بنیادی اسلامی اراکین پر عمل کرتے ہیں ، تعلیم کا تناسب بہتری کی جانب گامزن ہے اور ملک آہستہ مگر ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور بلاشبہ اسلامی تعلیمات پر بھی پاکستانی قوم عام زندگی میں عملدرآمد کرتی ہے، عاکف شاید میری اسی بات کے انتظار میں تھا فوراً مجھے ٹوکتے ہوئے بولا ، بھائی اگر حقوق العباد اسلامی تعلیمات کا اہم حصہ ہے تو پاکستان میں رہنے والے مسلمان حقوق العباد پر عملدرآمد کیوں نہیں کرتے، کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی آبادی کا بہت بڑا حصہ اپنے ان حقوق سے بھی محروم ہے جن کی فراہمی کی ذمہ دار حکومت وقت ہے ، اسلامی تعلیمات میں حاکم ِ وقت کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو روزگار فراہم کرے لیکن پاکستان میں لوگ بھوک اور بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشیاں کر رہے ہیں ، اسلام میں بیٹیوں کو اللہ کی رحمت قرار دیا گیا ہے لیکن پاکستان میں لڑکیوں کا استحصال کیا جاتا ہے جہاں بعض شہروں اور دیہات میں لڑکیوں پر تعلیم کے دروازے بند ہیں، وارثت میں حصہ دینے کے خوف سے لڑکیوں کی شادیوں سے اجتناب برتا جاتا ہے، اسلام میں علمائے کرام کا اہم مقام ہے تاہم پاکستان میں امام مسجد کا کم اور پیسے والے افراد کا زیادہ احترام کیا جاتاہے، رشوت معاشرے کا حصہ بن چکی ہے ،لوگ اپنی تنخواہوں سے زیادہ رشوت کی آمدنی کی توقعات پر ملازمت تلاش کرتے ہیں، غربت کے باعث لوگ اپنے بچے فروخت کرتے نظر آتے ہیں، اسلام میں ایک انسان کے قتل کو پورے عالم کے قتل کے برابر قرار دیا گیا ہے پھر بھی مساجد میں خودکش حملے کئے جاتے ہیں، عاکف کی بات مزید چلتی لیکن میں نے اب مزید بحث سے بچنے کے لئے عاکف کی بات کو ادھورا چھوڑ کر اپنی مصروفیات کا بہانہ بنا کر اجازت چاہی اور واپسی کی راہ لی، اب میں ٹرین کے سفر کے دوران سوچ رہا تھا کہ ایک غیر ملکی شہری جو حال ہی میں مسلمان ہوا ہے پاکستانی معاشرے کے بارے میں کس قدر معلومات رکھتا ہے جو کسی حد تک ٹھیک بھی تھی لیکن جاپانی معاشرے میں ایسی کیا بات تھی جو اسلامی تعلیمات سے مطابقت رکھتی تھی جس کے باعث جاپانی قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکی ہے۔ انہی سوچوں کے ساتھ میرا مطلوبہ اسٹیشن آچکا تھا ٹرین سے اتر کر پلیٹ فارم تک ہی پہنچا تھا کہ اچانک یاد آیا کہ ٹرین میں اپنا بیگ جس میں قیمتی لیپ
ٹاپ،کریڈٹ کارڈز اور کئی اہم کاغذات تھے بھول آیا ہوں اور ٹرین جاچکی ہے، میں فوری طور پر اسٹیشن ماسٹر کے پاس پہنچا اور اس کو واقعے کی اطلاع دی جس نے میرا موبائل نمبر نوٹ کیا اورکہا کہ ایک گھنٹے بعد ٹرین آخری اسٹاپ پر پہنچے گی اور وہاں کے حکام کو اطلاع کردی گئی ہے آپ کے سامان کے بارے میں ایک گھنٹے بعد آپ کو اطلاع کردی جائے گی، میں مطمئن ہوکر اسٹیشن سے باہر نکلا تو دیکھا کہ ریلوے حکام ایک بزرگ جاپانی شہری کو وہیل چیئر کے ذریعے ٹرین سے اتار کر لفٹ کے ذریعے ان کی مطلوبہ گاڑی میں بٹھانے کے لئے ان کی مدد میں مصروف ہیں، کچھ ہی دور آگے بڑھا تو پولیس کی ایک گاڑی ریلوے اسٹیشن کی سائیکل پارکنگ کے پاس موجود تھی، ساتھ ہی دو پولیس اہلکار اپنی شاندار وردی میں عوامی مفاد کی خدمات انجام دیتے نظر آئے دونوں اہلکار تیز رفتار ہوا کے باعث گرنے والی سائیکلوں کو اٹھا کر قطار سے لگانے میں مصروف تھے، بلاشبہ گزشتہ چند لمحوں کے مشاہدے نے جاپانی معاشرے کی کئی خصوصیات کو ظاہر کردیا تھا اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ شاید یہی تو دین اسلام کی تعلیمات ہیں جو عام جاپانی معاشرے کا حصہ ہیں کچھ ہی دیر میں گھر پہنچ چکا تھا، آرام کی غرض سے لیٹا ہی تھا کہ کچھ دیر بعد دروازے کی گھنٹی بجی باہر دیکھا تو جاپانی خاتون موجود تھیں جنہوں نے کل ہی پڑوس میں رہائش اختیار کی ہے اور تعارفی ملاقات کے لئے تحائف کے ساتھ آئی ہیں۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ قدرت نے شاید مجھے جاپانی معاشرے کی خصوصیات سے آگاہ کرنے کیلئے کوئی پروگرام بنا رکھا ہے جو پے در پے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن سے جاپانی معاشرے کی خصوصیات جو اسلامی تعلیمات کا گہرا جز ہیں سے آشناہی حاصل ہو رہی ہے۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک میرے فون کی گھنٹی بجی فون اٹھایا تو دوسری جانب ریلوے اسٹیشن سے فون تھا ،بتایا جارہا تھا کہ آپ کا تمام سامان مل چکا ہے جو آپ کسی بھی وقت آخری ریلوے اسٹیشن جاکر وصول کرسکتے ہیں ،یہ سامان آپ کو کورئیر کے ذریعے بھی بھجوایا جاسکتا ہے ،فون بند ہوچکا تھا اور میں جاپانی معاشرے کی ان خصوصیات سے آشنا ہوچکا تھا۔
تازہ ترین