• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاعری، عطیۂ خداوندی ہے، کسی کی ذاتی میراث نہیں۔ غالباً اسی لیے شاعری کو ’’کارِ پیغمبری‘‘ کہا گیا ہے۔ اچھا شعر، اپنی جگہ خود بناتا ہے۔ برسوں گزر جانے کے باوجود، بعض اشعار آج بھی صاحبانِ ذوق اور عوام الناس کے دلوں پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ ضروری نہیں کہ اچھا شعر، کسی بڑے شاعر ہی کے قلم سے نکلے ، بڑا شعر، ایک چھوٹے شاعر پر بھی وارد ہو سکتا ہے، اس لیے کہ شاعری، ایک الہامی کیفیت کا نام ہے۔ میر تقی میر، مرزا اسد اللہ خان غالب، علامہ اقبال اور دیگر اساتذۂ کرام کے بیشتر اشعار، زبان زدِ خاص و عام ہیں۔ ہم یہاں کچھ شعراء کے وہ اشعار پیش کر رہے ہیں، جو نہ صرف سفر میں ہیں، بلکہ لوگوں کے حافظوں میں بھی محفوظ ہیں۔

جگر مراد آبادی

جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے

گھٹ گئے انساں، بڑھ گئے سائے

فیض احمد فیض

دونوں جہان، تیری محبت میں ہار کے

وہ جا رہا ہے کوئی، شبِ غم گزار کے

حفیظ جالندھیری

دیکھا جو تیر کھا کے، کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے، ملاقات ہو گئی

احسان دانش

قبر کے چوکٹھے خالی ہیں، انہیں مت بھولو

جانے کب، کون سی تصویر، لگا دی جائے

مجروح سلطان پوری

فصیلِ شہر پہ رکھتے چلو، سروں کے چراغ

جہاں تلک بھی، ستم کی سیاہ رات چلے

حفیظ ہوشیار پوری

محبت کرنے والے، کم نہ ہوں گے

تری محفل میں، لیکن ہم نہ ہوں گے

احمد ندیم قاسمی

انداز ہو بہو، تری آوازِ پاکا تھا

دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا، ہوا کا تھا

احمد فراز

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں

جس طرح سوکھے ہوئے پھول، کتابوں میں ملیں

ناصر کاظمی

ہمارے گھر کے دروازے پہ ناصر

اُداسی بال کھولے سو رہی ہے

محشر بدایونی

اب ہوائیں ہی کریں گی، روشنی کا فیصلہ

جس دیے میں جان ہو گی، وہ دیا رہ جائے گا

راغب مراد آبادی

سائے کا بھی ہم نے اگر احسان لیا ہے

گھر کس کا ہے، دیوار سے پہچان لیا ہے

اقبال عظیم

جہاں بھی ہم نے صدا دی، یہی جواب ملا

یہ کون لوگ ہیں، پوچھو، کہاں سے آئے ہیں

جون ایلیا

جو گزاری نہ جا سکی، ہم سے

ہم نے وہ زندگی، گزاری ہے

پروین شاکر

کو بہ کو پھیل گئی، بات شناسائی کی

اُس نے خوشبو کی طرح، میری پزیرائی کی

رضی اختر شوق

ایک پتھر، اِدھر آیا ہے تو اس سوچ میں ہوں

میری اس شہر میں کس کس سے شناسائی ہے

رسا چغتائی

تیرے آنے کا انتظار، رہا

عمر بھر موسمِ بہار، رہا

خالد علیگ

ہم صبح پرستوں کی، یہ ریت پرانی ہے

ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا

محسن بھوپالی

نیرنگیِ سیاستِ دوراں تو دیکھئے

منزل انہیں ملی، جو شریکِ سفر نہ تھے

پروفیسر سحر انصاری

عجیب ہوتے ہیں، آدابِ رخصتِ محفل

کہ اٹھ کے وہ بھی چلا، جس کا گھر نہ تھا کوئی

افتخار عارف

مرے خدا، مجھے اتنا تو معتبر کر دے

میں جس مکان میں رہتا ہوں، اُس کو گھر کر دے

مصطفےٰ زیدی

میں اپنے ہاتھ پہ، کس کا لہو تلاش کروں

تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں، دستانے

ڈاکٹر پیرزادہ قاسم

میں ایسے شخص کو زندوں میں کیا شمار کروں

جو سوچتا بھی نہیں، خواب دیکھتا بھی نہیں

تازہ ترین