• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صاحبِ اسلوب شاعر ،جون ایلیا کی برسی پر فکر انگیز تحریر

   خرم سہیل

جون صاحب اپنے زمانے سے تقریباً دو سو برس بعد پیدا ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا،جب تہذیب رخصت ہورہی تھی،فن کی قدر کرنے والے بے سروساماں ہوچلے تھے۔ معاشرے کی ترجیحات تبدیل ہورہی تھیں،اب نہ کوئی مغل دربارتھا،نہ ہی کوئی واجد علی شاہ کی ریاستِ اودھ،جس کے حضور وہ اپنافن پیش کرتے اورداد پاتے۔عہدِ حاضر،جس میں انہوں نے جنم لیا،وہ پتھرکے دورکی واپسی میں مصروف تھا،ایسے میں پھول کی بات کرناجرم تھا،لہٰذاخوشبو کی بات کرنے والے مجرم ٹھہرے۔

اب اتنی تاخیر کی سزاتو ملنی چاہیے تھی، سووہ انہیں مل کررہی۔یوں تو وہ کئی جان لیوا احساسات میں مبتلا تھے،مگرسب سے زیادہ پریشان کرنے والااحساس’’محبت‘‘تھا۔ رومان اور تخیل، جون صاحب کے مزاج کے دوپرتھے، جن کے بل بوتے پروہ تخلیق کی دنیامیں محوِ پرواز تھے۔ سماج میںرہتے ہوئے،انہیں ضرورت تھی کہ دنیاداری کے معاملات کو بنا کر چلتے،مگر وہ کسی مخصوص ڈگر پرچلنے کے عادی نہ تھے، دل کی گواہی پر زندگی گزارنے والے اس شاعرِبے بدل نے بڑاخرابہ پیداکیا۔خارجی دنیا سے انہیں کوئی سروکار نہیں تھا،داخلی دنیاکومرکزمانے بیٹھے تھے،پھریہ تو ہونا تھا۔

جوگزاری نہ جاسکی، ہم سے

ہم نے وہ زندگی گزاری ہے

امروہے کی گلیوں میں ہوش تو سنبھالا،مگرخود کوزندگی بھرنہ سنبھال پائے۔چوباروں کی کھڑکیاں،گھروں کے دروازے اورچلمنوں کے پیچھے سے مرمرئی انگلیاں،مسکان بھرتے ہوئے چہرے اورمجسم حسن ،انہیں بے چین کیے رکھتاتھا۔دیدکی چاہ میں بے چینی ،ان کے دل میں کچوکے لگاتی تھی اوردرشن ہوجانے پر مسرت کی گدگدی، انہیں مدہوش کردیتی تھی۔ظلم کی حد تک اعتراف کرلینے کے قائل تھے،اسی لیے جب کم عمری میں،محبت کا پہلا گرم جھونکا دل کو چُھوکر گزراتوبے اختیار لکھ دیا۔

چاہ میں اُس کی طمانچے کھائے ہیں

دیکھ لوسرخی ، مرے رخسارکی

کم عمری میںجس نے کسی کی چاہ میں طمانچے کھائے ہوں،اُس کی بے قراری کاعالم کیاہوگا۔زندگی کی ابتداسے لے کرخاتمے تک،ان کے تجربات اتنے تلخ رہے،جن کی کڑواہٹ ،ان کی شاعری اورنثری تحریروں میں بھی ملتی ہے،جو گفتگو کرتے تھے،اس میں بھی یہ ذائقہ پوری طرح موجود تھا۔وہ خاص طورپر ایسے معاشرے میںزندہ تھے،جہاںجمالیات، بتدریج دفن ہورہی تھی،اسی لیے زندگی کے آخری برسوں میںاعتراف کیا۔’’میں ہارچکا ہوں، معاشرے کواپنی اقدار پہ لانا چاہتاتھا، مگر میں ہارگیا،یہ افلاطون اورکرگس کامعاشرہ نہیں ہے، یہ بونوں کامعاشرہ ہے۔‘‘ان کی شاعری ،سماج کانوحہ تھی اورخسارے کاواویلابھی،جس پر کوئی کان دھرنے کوتیار نہیں تھا۔

واعظ کوخرابے میں اک دعوت ِحق دی تھی

میں جان رہاتھاوہ جاہل نہیں آنے کا

یہ جون صاحب ہی تھے،جنہوں نے منافق معاشرے میں سچ کی سولی پرلٹک کروہ زندگی گزاری،جوگزاری نہ جاسکتی ہو۔رشتوں کی کرچیوں سے باربارزخمی ہوئے، آبلہ پا،چیخ وپکارکرتے کرتے خاموشی اختیار کرلی،پھران کے لکھے ہوئے حروف گویا ہوئے، سچائی چیخنے لگی،کیونکہ جس معاشرے میں وہ رہتے تھے،وہاں جھوٹ کا شوربپا تھا،سچائی کی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔تہذیب وتمدن اس معاشرے سے رخصت ہورہے تھے،جون صاحب اس ہارے ہوئے لشکر کے بہادرسپاہی تھے،جو باہر کی لڑائی کو،اپنے اندرتک کھینچ لائے۔وہ یہاں سے ہمیشہ کے لیے چلے گئے،مگرمعاشرے کی جہالت کے استعارے، یادگاریںزندہ ہیں ۔جون صاحب اپنے آپ سے مکالمہ کرتے توان کی اذیت دُہری ہوجاتی تھی۔

میں رہا عمر بھر جدا خودسے

یادمیں خود کو عمر بھر آیا

جون صاحب نے کیفیات کوحروف میں پروکرلکھا۔اُن کی شاعری اور نثر پارو ںکی زبان ،ہمارے دل کی آواز لگتی ہے۔وہ کہتے تھے کہ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ہمیں اب ایک دوسرے کے دکھ سے کوئی واسطہ نہیں رہا۔یہ اذیت کاوہ مقام ہے،جہاں سے پھرخاموشی گویاہوتی ہے۔انشائیوں میں دردکے یہ نغمے ،احساس کے سینے میں پیوست ہیں،جن میں حالاتِ حاضرہ کاتذکرہ ،سماج کا دکھ اورذات کا کرب بھی پوری طرح موجود تھا۔بقول جون صاحب ’’ہم جو کھنکناتی ہوئی مٹی سے بنائے گئے ،ہم جو خاک کے خمیر سے اٹھائے گئے اور ہم جو خاک میں ہی سلائے جائیں گے ،ہم فتنہ وفساد کے زمانے میں زندہ ہیں اور دہشتوں نے ہمارا گھر دیکھ لیا ہے ،سوہم پر لازم آیا کہ ہم اپنے حجروں سے باہر آئیں اور مرنے والوں اور مارنے والوں کو اس المناک حقیقت سے آگاہ کریں کہ زندگی مارنے والوں اور مارے جانے والوں ،دونوں ہی سے سوتیلی مائوں کا ساسلوک کرتی ہے ۔کسی کو ریشم وکمخواب کے بستر پر سلاتی ہے اور کسی کو بچھانے کے کے لیے گدڑی بھی نصیب نہیں ہوتی، لیکن موت سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتی ہے ،سب کو اپنی چھاتی میں سمیٹ لیتی ہے اور سب کو ایک ہی طور،خاک میں ملاتی ہے۔‘‘

ہم نے ان کی شاعری کو تو تسلیم کرلیا، مگر وہ حساس انسان ،جس نے اپنی اذیتوں کو قلم بند کیا،معاشرے کے نوحے لکھے،مگرکیاہوا؟ہم اخلاقی انحطاط کے جس بد ترین دور سے گزر رہے ہیں ،وہاں ہو بھی کیا سکتا ہے ،کیونکہ ہم نے ہر رشتے میں ایک ترازو رکھ دیا ہے ،ہر خواب کے ساتھ ایک منعفت جوڑ رکھی ہے ،ہر امید کے پیچھے معاشی اسباب اکھٹے کررکھے ہیں ،ایسی تجارتی فضا میں لفظ کا ذکر کون کرے ، جذبے پر بات کون کرے ،ہم ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں،خود سے بھی بچھڑچکے ہیں ،اسی لیے کوئی لفظ ہم پر اثر انداز نہیں ہوتا۔جون صاحب نے اپنی زندگی میں اگر کوئی روگ پالا بھی تو اس قدر حسین طریقے سے کہ دکھ ،پھر دکھ نہ رہا ۔

بے دلی ،کیا یونہی دن گزر جائیں گے

صرف زندہ رہے ہم تو مرجائیں گے

کتنی دل کش ہو تم، کتنا دل جو ہوں میں

کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مرجائیں گے

جون فہمی اورجون شناسی کادورتوابھی شروع ہواہے۔یہ سلسلہ ابھی چلے گا،بہت سے دل مفتوح ہوں گے،بغاوت کے کئی علم بلند ہوں گے،یہ شاعری اورنثر پارے ان کے لیے حوصلے کامنشوربنیں گے۔بناوٹ،تصنع اورجھوٹ کے سماج سے بغاوت کرنے والوں کے لیے جون صاحب کی تخلیقات ،سفر کاسنگِ میل ثابت ہوں گی۔جون صاحب کے لکھے ہوئے انشائیوں میں سارے جہان کا درد ہے اورسماج سے مکالمہ بھی۔درد کے قبیلے سے جڑے ہوئے فنکار،کل بھی خاموش تھے اورآج بھی خاموش ہیں،صرف جہالت بول رہی ہے۔جون صاحب نے اپنی زندگی میں اس احساس کو بھی اپنے اندر محسوس کرلیاتھا،وہ اس بات سے بے خبر نہیں تھے،انہوں نے اس بات کومختلف زاویوں سے پیش کیا،جن میں سے ایک زاویہ یہ بھی تھا۔

میں تو صفوں کے درمیاں کب سے پڑا ہوں نیم جاں

میرے تمام جاںنثار،میرے لیے تو مرگئے

اپنا دکھ جھیلنا تو کوئی بڑی بات نہیں ہے، لیکن کسی دوسرے کا دکھ جھیلنا بہت بڑی بات ہے اور جون صاحب کے دکھوں کو کوئی سمجھے، تو سمجھ آئے گی کہ وہ کتنے بڑے شاعر اور مفکر تھے ،مگر یہ کون سمجھے گا، کیونکہ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے دکھ سے کوئی واسطہ نہیں رہا۔

تازہ ترین